زبیدہ بنت جعفر: جب عباسی ملکہ نے لاکھوں دینار کی نہر بنوا کر کہا ’حساب قیامت کے دن پر چھوڑتی ہوں‘
- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق، لاہور
نام تو ان کا امتہ العزیز تھا مگر دادا ’زبیدہ‘ کہہ کر بلاتے، سو اسی نام سے انھیں جانا گیا۔ عربی زبان کے اس لفظ کا مفہوم ’منتخب‘ بھی ہے اور ’مکھن کا پیڑا‘ بھی۔
یوں گھر والے تو پیار سے کچھ بھی نام دے دیتے ہیں مگر عباسی شہزادی نے اپنے فلاحی کاموں سے اسلام کے سنہری دور کی فوک کہانیوں کے مجموعے ’اَلف ليلہ وليلہ‘ (ایک ہزار ایک راتیں) میں تو جگہ پائی ہی، رہتی دنیا تک اس نام کے زندہ رہنے کا بھی اہتمام کر دیا۔
زبیدہ خوش شکل، ذہین، نرم گو، رحم دل مخیر اور انتہائی خوش پوش تھیں۔ چچا زاد ہارون الرشید سے شادی ہوئی جو چار سال بعد پانچویں عباسی خلیفہ بنے اور سنہ 786 سے 809 تک حکمران رہے۔
ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ’ہارون الرشید کی سب سے مشہور ملکہ، زبیدہ ایک پڑھی لکھی اور قابل خاتون تھیں جو تقریباً تیس سال تک دربار میں اپنا مقام اور اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔‘
مال دار خاتون
یوں تو ریاست بھی خوشحال تھی مگر زبیدہ نے والد جعفر بن منصور سے ورثے میں خوب دولت پائی تھی۔
السیوطی نے ’تاریخِ خلفا‘ میں لکھا ہے کہ زبیدہ کو والد کی طرف سے قیمتی جائیدادیں، پیسہ، زمین اور ملازمائیں ملیں۔ ’تاریخ بغداد‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ زبیدہ کی دولت میں ایک ہزار ملازمائیں شامل تھیں، جن میں سے ہر ایک بہترین لباس پہنتی تھی۔
زبیدہ نے اپنی جائیدادوں اور متعدد کاروباری منصوبوں کے انتظام کے لیے معاونین رکھے۔ ان کے اپنے محل کا انتظام بھی عالی شان طریقے سے کیا جاتا۔ کھانا سونے اور چاندی کی پلیٹوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جواہرات سے سلے جوتے کا فیشن بھی متعارف کرایا۔ وہ چاندی، آبنوس اور ریشم سے بنی پالکی پر بھی سوار ہوتیں۔
ان کے محل میں دیواروں پر قرآن کی آیات سنہری حروف میں کندہ تھیں۔ محل جانوروں اور پرندوں سے بھرے ایک باغ میں گھرا ہوا تھا۔
انجینیئرنگ کی شاہکار اس نہر کا نام ’عین المشاش‘ تھا لیکن شہرت ’عین زبیدہ‘ یا ’نہر زبیدہ‘ کے نام سے ہوئی۔ اس منصوبے کے تحت بنائے گئے کنویں صدیوں تک حجاج کو پانی پلاتے رہے
رابرٹ ہولینڈ اپنی کتاب ’خدا کی راہ میں: عرب فتوحات اور اسلامی سلطنت کی تخلیق‘ میں لکھتے ہیں کہ ’زبیدہ کی آزادانہ آمدنی تھی، جس سے وہ خاطر خواہ خیراتی عطیات دینے اور خلیفہ پر طاقت اور اثر و رسوخ استعمال کرنے میں کامیاب ہوئیں۔‘
جب زبیدہ نے ہارون الرشید سے شادی کی تو ان کی دولت میں اور بھی اضافہ ہوا۔ ہارون نے خود بھی شاندار محلات، مساجد اور عوامی عمارتیں تعمیر کیں۔ زبیدہ نے ان میں سے بہت سے منصوبوں کے لیے اپنی دولت استعمال کی۔
زبیدہ اپنی انسان دوستی، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے بھی مشہور تھیں۔ وہ اکثر اپنی دولت کم نصیبوں میں تقسیم کرتیں اور انھیں خوراک، لباس اور رہائش فراہم کرتیں۔ ایک بار قیدیوں کے لیے روٹی اور پانی کوخود چکھا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اچھے معیار کے ہیں اور انسانی استعمال کے لیے موزوں ہیں۔
زبیدہ کو ایک بار معلوم ہوا کہ مکہ میں غریبوں میں تقسیم کی جانے والی روٹی ناقص معیار کی ہے۔ انھوں نے فوری طور پر بہتر روٹی فراہم کرنے کے لیے ایک نئی جگہ کی تعمیر کا حکم دیا اور یہ منصوبہ ایک ہی دن میں مکمل ہو گیا۔
علم، فن اور ادب کی سرپرستی
زبیدہ علم، فن اور ادب کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور تھیں۔ انھوں نے بغداد میں کتابوں اور مخطوطات کے وسیع ذخیرے کے لیے مشہور ’زبیدیہ لائبریری‘ کی تعمیر کے لیے مالی مدد فراہم کی۔
امین معلوف نے ’سلجوق ترکوں کی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ زبیدہ کی دولت اتنی وسیع تھی کہ انھوں نے اپنی ذاتی دولت کو ہاتھ لگائے بغیر اس لائبریری کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کیا۔
زبیدہ علم کی بڑی سرپرست تھیں اور ان کا محل ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ مورخ شبلی نعمانی کے مطابق زبیدہ علم کی بڑی سرپرست تھیں اور ان کا محل ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔
ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ’زبیدہ ادب اور فنون کی ایک سخی سرپرست تھیں، اور ان کا دربار اپنی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مشہور تھا۔‘
رابرٹ ہولینڈ کہتے ہیں کہ ’زبیدہ شاعری کی سرپرست تھیں۔ انھوں نے اس وقت کے بہت سے شاعروں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد کی۔‘
مؤرخ الطبری کے مطابق، زبیدہ نے شاعری کے ایک مشہور مجموعہ ’دیوان الحمسہ‘ کی تالیف کی سرپرستی کی، جس میں کئی نامور عرب شاعروں کی تخلیقات شامل تھیں۔‘
زبیدہ کو سائنسی تحقیق اور ریسرچ کی سرپرستی کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔ ان کی علم، فن اور ادب کی سرپرستی نے عباسی خلافت میں ایک پھلتے پھولتے ثقافتی منظر کو فروغ دینے میں مدد کی۔
یہ بھی پڑھیے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
زبیدہ نے عراق سے مکہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لیے گزر گاہ بنائی، اسے ’درب زبیدہ‘ کہا جاتا ہے۔ ریاض کے نیشنل میوزیم میں پڑا فن پارہ
فلاحی کام
زبیدہ نے عراق سے مکہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لیے گزر گاہ بنائی، اسے ’درب زبیدہ‘ کہا جاتا ہے۔ حاجیوں اور مسافروں کے لیے سرائیں تعمیر کروائیں، کنویں کھدوائے اور مسجدیں بنوائیں۔
ابن بطوطہ نے زبیدہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مکہ سے بغداد جانے والی اس سڑک پر ہر حوض، تالاب یا کنواں ان کی عنایت ہے۔ اگر اس گزرگاہ کی طرف سے ان کی توجہ نہ ہوتی تو یہ قابل استعمال ہی نہ ہوتی۔ انھوں نے خاص طور پر برکات المرجم اور القرورہ میں پانی کے ذخائر کا ذکر کیا ہے۔
تبریز نامی شہر جو زلزلے میں تباہ ہو گیا تھا، اسے دوبارہ آباد کیا۔ مصر کے تاریخی شہر سکندریہ، جو تقریباً اُجڑ چکا تھا، کی ازسر نو تعمیر کرائی۔
ہیو کینیڈی کے مطابق ’زبیدہ کو خاص طور پر عوامی کاموں جیسے پلوں، نہروں اور کنوؤں کی تعمیر میں ان کے تعاون کے لیے جانا جاتا ہے۔‘
مؤرخ الطبری کا کہنا ہے کہ زبیدہ نے جزیرہ نما عرب میں بڑی تعداد میں کنوؤں اور واٹر چینلز کی تعمیر کروائی تاکہ مسافروں اور زائرین کو صاف پانی فراہم کیا جا سکے۔
زبیدہ کو یتیم خانوں، ہسپتالوں اور دیگر خیراتی اداروں کی مدد کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ ان اداروں کی مدد کے لیے بڑی رقم عطیہ کرتیں اور ذاتی طور پر رقم کے استعمال کی نگرانی کرتیں۔
زبیدہ کی عوامی فلاح و بہبود میں شراکت نے عباسی سلطنت میں لاتعداد لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
زبیدہ کا مقبرہ بغداد میں واقع ہے
نہر زبیدہ
مکہ اور عرب کے دیگر علاقوں میں پانی کی قلت تھی۔ایک بار جب ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ میں تھیں، انھوں نے اہل مکہ اور حجاج کو درپیش پانی کی قلت دیکھی تو ماہرین کو بلا تعطل پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپ دی۔
بہت کوشش کے بعد ماہرین نے بتایا کہ انھیں کئی کلومیٹر دور دو جگہوں سے بہتے چشموں کا سراغ ملا ہے مگر ان چشموں کے پانی کے مکہ پہنچنے میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے رکاوٹ تھے۔
مؤرخین کے مطابق ملکہ نے حکم دیا ’ان چشموں کا پانی مکہ تک پہنچانے کے لیے ہر قیمت پر نہر کھودو چاہے کدال کی ایک ضرب ایک دینار میں بھی پڑے ۔‘
ماہر انجینیئرز کے مشورے پر مسجدِ حرام سے 36 کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں وادئ حنین سے نہر نکالنے کا کام شروع کیا گیا۔ تین سال دن رات ہزاروں مزدور پہاڑیاں کاٹنے میں مشغول رہے۔
حنین سے وادئ نعمان، پھر میدانِ عرفات اور وادئ عرفہ سے منیٰ اور مکّہ تک کھودنے کے بعد اس نہر کو جاری کر دیا گیا۔ مورخ ابن خلیکان کے مطابق اس منصوبے پر، جس میں آبِ زم زم کے کنویں کو گہرا کرنا بھی شامل تھا، بیس لاکھ دینار خرچ ہوئے۔
نگران نے کام مکمل ہونے پر اخراجات کی تفصیل ملکہ کے سامنے پیش کی۔ ملکہ اس زمانے میں دریائے دجلہ کے کنارے اپنے محل میں رہتی تھیں۔
مورخین کے مطابق انھوں نے حساب کی تفصیل لی اور دیکھے بغیر دریا میں پھینک دی، کہا ’میں نے یہ کام محض اللہ کی رضا کے لیے کیا۔ یہ حساب میں قیامت کے دن پر چھوڑتی ہوں۔‘
انجینیئرنگ کی شاہکار اس نہر کا نام ’عین المشاش‘ تھا لیکن شہرت ’عین زبیدہ‘ یا ’نہر زبیدہ‘ کے نام سے ہوئی۔
متبادل ذرائع میسر آنے تک نہر زبیدہ 1200 سال تک مکہ اور ملحقہ علاقوں تک پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ رہی۔ آج بھی اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ حالت میں موجود ہے۔
Comments are closed.