پوتن: چینی منصوبہ جنگ کا خاتمہ کر سکتا ہے لیکن یوکرین اور مغرب امن کے لیے راضی نہیں
روسی صدر پوتن اورچینی صدر شی جنپنگ
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ یوکرین کے لیے چین کے امن منصوبے کو جنگ کے خاتمے کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن مسٹر پوتن نے یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ اسی وقت پیش کیا جا سکتا ہے جب لوگ ‘مغرب اور کیئو میں’ اس کے لیے تیار ہوں۔
روسی رہنما نے منگل کو ماسکو میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی جس میں روس یوکرین جنگ اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
گذشتہ ماہ شائع ہونے والے چین کے منصوبے میں واضح طور پر روس سے یوکرین چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔
12 نکات والے اس منصوبے میں امن مذاکرات اور قومی خودمختاری کے احترام کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن اس میں خاص تجاویز نہیں دی گئی ہیں۔
لیکن یوکرین نے روس سے کہا کہ کوئی بھی بات اسی شرط پر ہو سکتی ہے جب روس اس کی سرزمین چھوڑ دے۔ اور روس کی جانب سے اس پر آمادگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
سوموار کے روز روس میں شامل ہونے والے کریمیا میں جو دھماکہ ہوا اس کے بارے میں یوکرین نے کہا کہ اس نے ریل کے ذریعے منتقل کیے جانے والے روسی میزائلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ بدھ کے روز کریمیا پر تازہ ڈرون حملے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں، جس میں بندرگاہ والے شہر سیواستوپول کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سوموار کے روز کہا کہ روس کے یوکرین کی سرزمین سے واپسی سے قبل جنگ بندی کا مطالبہ ‘روسی فتح کی توثیق کی مؤثر حمایت ہوگا۔’
مسٹر شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت کے اختتام پر ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں مسٹر پوتن نے کہا: ‘جب بھی مغرب اور کیئو اس کے لیے تیار ہوں تو چینی امن منصوبے کی بہت سی شقوں کو یوکرین میں تنازعے کے حل کی بنیاد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔’
انھوں نے مزید کہا کہ لیکن روس کو ابھی تک دوسری طرف سے اس پر ‘آمادگی’ نظر نہیں آئی ہے۔
روسی رہنما کے ساتھ کھڑے مسٹر شی نے کہا کہ ان کی حکومت امن اور بات چیت کے حق میں ہے اور چین ‘تاریخ کے درست جانب’ ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ چین یوکرین کے تنازعے پر ‘غیر جانبدارانہ موقف’ رکھتا ہے، جو کہ بیجنگ کو ممکنہ امن ساز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے۔
یہ بھی پڑھیے
دونوں صدور نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت، توانائی اور سیاسی تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
صدر پوتن نے کہا کہ ‘چین روس کا سب سے بڑا غیر ملکی تجارتی پارٹنر ہے’۔ اور اس کے ساتھ انھوں نے گذشتہ سال حاصل کردہ تجارت کی ‘اعلی سطح’ کو برقرار رکھنے اور اس سے آگے بڑھنے کا عہد بھی کیا۔
اس سے پہلے مسٹر شی نے چین اور روس کو ‘عظیم ہمسایہ طاقتیں اور جامع سٹریٹجک شراکت دار’ قرار دیا۔
روسی سرکاری میڈیا کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مندرجہ چیزوں پر اتفاق کیا:
- انھوں نے دو مشترکہ دستاویزات پر دستخط کیے۔ ایک اقتصادی تعاون کے منصوبوں کی تفصیل کے متعلق تھا جبکہ دوسرا روس چین شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کے منصوبوں پر مرکوز ہے۔
- منگولیا کے راستے چین کو روسی گیس پہنچانے کے لیے سائبیریا میں ایک منصوبہ بند پائپ لائن پر معاہدہ طے پایا
- اس بات پر اتفاق کیا کہ جوہری جنگ ‘کبھی نہیں چھیڑنی چاہیے’
- آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدے نئے آکس معاہدے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
- ‘فوجی اور سکیورٹی کے مسائل’ پر ایشیا میں نیٹو کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔
مغربی ممالک میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ چین روس کو فوجی مدد فراہم کر سکتا ہے۔
نیٹو کے سربراہ جینز سٹولٹن برگ نے برسلز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اتحاد نے ایسے ‘کوئی شواہد نہیں دیکھے کہ چین روس کو مہلک ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔’
لیکن انھوں نے مزید کہا کہ ایسے ‘اشارے’ موجود ہیں کہ روس نے ہتھیاروں کی درخواست کی ہے، اور یہ کہ بیجنگ میں درخواست پر غور کیا جا رہا ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد چین اور روس کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی شراکت داری ‘فوجی- سیاسی اتحاد’ نہیں بناتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کے تعلقات کس طرح کے ‘بلاک کی تشکیل نہیں کرتے، تصادم کی نوعیت کے نہیں ہیں اور تیسرے ممالک کے خلاف نہیں ہیں۔’
مسٹر پوتن نے پریس کانفرنس میں مغرب پر یہ الزام لگایا کہ انھوں نے ‘جوہری اجزاء’ کے ساتھ ہتھیار تعینات کیے ہیں اور کہا ہے کہ اگر برطانیہ یورینیم سے تیار کردہ گولے یوکرین کو بھیجتا ہے تو روس ‘ردعمل دینے پر مجبور’ ہوگا۔
برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا کہ کم کیے جانے والے یورینیم ‘معیاری اجزا’ ہیں جس کا ‘جوہری ہتھیاروں سے کوئی تعلق نہیں۔’
مسٹر شی دوسرے دن منگل کو جب مذاکرات کے لیے کریملن پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ وہ ماسکو میں آکر ‘بہت خوش’ ہیں اور انھوں نے صدر پوتن کے ساتھ بات چیت کو ‘صاف، کھلا اور دوستانہ’ قرار دیا۔
ان کا یہ روس کا دورہ روسی صدر پوتن کے خلاف بین الاقوامی کرمنل کورٹ کی جانب سے جنگی جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جانے کے چند روز بعد ہوا ہے۔
یہ سرکاری دورہ جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا کے اچانک دورہ کیئو کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا یہ دورہ دوسری جنگ عظیم کے بعد تنازعات میں گھرے کسی ملک کا دورہ کرنے والے جاپان کے پہلے رہنما کا دورہ ہے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ وہ مسٹر کشیدا کی دعوت پر مئی میں جاپان میں ہونے والے جی 7 کے سربراہی اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہوں گے۔
انھوں نے منگل کی سہ پہر ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انھوں نے چین سے بھی بات چیت میں شامل ہونے کو کہا تھا لیکن وہ ابھی بھی جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے چین کو امن فارمولے پر عمل درآمد میں شراکت دار بننے کی پیشکش کی۔ ‘ہم آپ کو مکالمے کی دعوت دیتے ہیں، ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔’
Comments are closed.