کیا مہلک وائرس لیبارٹریوں سے پھیل سکتے ہیں اور کیا ماضی میں کبھی ایسا ہوا؟

وائرس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مہلک امراض سے بچاؤ اور روک تھام کے امریکی ادارے کے سابق ڈائریکٹر نے کانگریس کے ایک پینل کو بتایا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ کووڈ 19 ممکنہ طور پر چین میں ایک لیبارٹری سے حادثاتی طور پر لیک ہونے کا نتیجہ تھا، ایسا ہی بیان کچھ عرصہ قبل ایف بی آئی کے سربراہ نے بھی دیا تھا لیکن لیبارٹری سے کسی وائرس کا پھیلنا کتنا آسان ہے؟ کیا ایسا کبھی پہلے بھی ہوا ہے؟

حالیہ امریکی دعویٰ ہے کہ کووڈ 19 وبا کی ابتدا ممکنہ طور پر چینی حکومت کے زیر کنٹرول لیبارٹری سے ہوئی۔

اس وبا جس نے تین سال قبل پوری دنیا کو اپنی لیپٹ میں لے لیا تھا کی ابتدا اور پھیلاؤ کے بارے میں تازہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ، جو 2018 سے 2021 تک امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ڈائریکٹر تھے، نے بدھ کے روز امریکی کانگریس کے ایک پینل کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ کووڈ 19 ممکنہ طور پر چین میں لیبارٹری سے حادثاتی طور پر لیک ہونے کا نتیجہ تھا۔

ان کا یہ بیان ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹوفر رے کے بیان کی بازگشت ہے جنھوں نے امریکی ٹی وی نیٹ ورک فاکس نیوز کو بتایا تھا کہ ’ایف بی آئی نے کافی عرصے کی تفتیش سے پتا لگایا ہے کہ وبائی مرض کی ابتدا ممکنہ طور پر چینی لیب سے وائرس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ہوئی تھی۔‘

تاہم بہت سے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ وائرس چینی لیب سے لیک ہوا تھا جبکہ دیگر امریکی حکومتی ایجنسیوں نے مختلف نتائج اخذ کیے ہیں۔

لہذا اس وبا کی ابتدا کے بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں۔ یہاں تک کہ امریکی حکومت میں بھی اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی گئی لیکن لیبارٹری سے وائرس کا پھیلنا کتنا آسان ہوتا ہے؟ کیا ایسا پہلے بھی ہوا ہے؟

ووہان

،تصویر کا ذریعہReuters

مہلک وائرس کا پھیلاؤ

جی ہاں ایسا پہلے بھی ہوا ہے جب مہلک وائرس بڑے شہروں کے وسط میں قائم لیبارٹریوں سے حادثاتی طور پر پھیل چکے ہیں اور شاید ان میں سے چیچک سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں۔

سنہ 1977 میں اس مہلک مرض پر قابو پائے جانے سے قبل اس بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ صرف 20 ویں صدی میں اس بیماری نے 300 ملین سے زیادہ لوگوں کی جان لی تھی۔

یہ وضاحت کرتا ہے کہ اگست 1978 میں برمنگھم یونیورسٹی کی 40 سالہ میڈیکل فوٹوگرافر جینیٹ پارکر میں اچانک تشخیص کیوں ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔

پروفیسر الاسڈیر گیڈس، جو اس وبا کے پھیلاؤ کے وقت مشرقی برمنگھم ہسپتال میں متعدی امراض کے ڈاکٹر تھے، کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک خوفناک بیماری تھی۔ اس نے صرف برمنگھم میں خوف نہیں پھیلایا تھا بلکہ حکومت اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او میں بھی گبھراہٹ پائی گئی تھی۔‘

چیچک جو ایک متعدی مرض تھا اور جس نے متاثرہ افراد میں سے تقریباً ایک تہائی کو مار دیا تھا، یونیورسٹی کی لیبارٹری میں اس کا تجربہ کیا جا رہا تھا لیکن جینٹ پارکر کو چیچک کا مرض کیسے لگا اس سوال کا آج تک کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا۔

اس بارے میں ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا کہ وائرس کی منتقلی تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے ہوئی ہو گی، ہوا کے ذریعے، ذاتی رابطے سے یا آلودہ آلات سے رابطے کے نتیجے میں۔

فوری طور پر تنہائی اور قرنطینہ کے اقدامات کی وجہ سے، مسز پارکر کے علاوہ اس بیماری کا شکار ہونے والی واحد فرد ان کی والدہ تھیں۔

مسز پارکر اس مرض سے ہلاک ہو گئیں تھیں تاہم ان کی والدہ معمولی انفکیشن سے صحت یاب ہو گئی تھی لیکن اس وبا کے پھیلاؤ نے دو مزید جانیں لے لی تھیں۔

مسز پارکر کے 77 سالہ والد فریڈرک قرنطینہ کے دوران بظاہر دل کے دورے سے ہلاک ہوئے تھے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی بیماری کی پریشانی لی تھی جبکہ برمنگھم سمال پوکس ( چیچک) لیبارٹری کے سربراہ پروفیسر ہینری بیڈسن نے خود کشی کر لی تھی۔

چیچک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انتہائی سکیورٹی

اس واقعے کے بعد حکام نے ایک اور لیب سے وائرس کے لیک ہونے کے خطرے کا ازسر نو جائزہ لیا اور ان مقامات کی تعداد کو کم کرنے کے لیے کارروائی کی گئی جہاں وائرس رکھا گیا تھا۔

سنہ 1979 کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معاہدے کے تحت، چیچک وائرس کے سرکاری سٹاک کو امریکہ میں اٹلانٹا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اور روس کے صوبے سائبیریا کے شہر نووسیبرسک کی ویکٹر لیبارٹری میں رکھا گیا تھا۔

ان لیبارٹریوں کو دنیا کی سب سے بہترین اور محفوظ ترین لیبارٹریوں کے طور پر منتخب کیا گیا تھا لیکن خود بھی خطرناک اور ہنگامی واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔

سنہ 2014 میں، سی ڈی سی کے عملے کے ارکان اینتھراکس وائرس کے نمونوں کو درست طریقے سے غیر فعال کرنے میں ناکام رہے جن پر تجربہ کیا جا رہا تھا، جس سے ممکنہ طور پر درجنوں افراد خطرے میں پڑ گئے تھے۔ (حالانکہ کوئی بھی حقیقیت میں متاثر نہیں ہوا تھا)۔

اسی طرح سنہ 2019 میں ویکٹر میں ایک گیس دھماکے سے ایک عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے اور ایک کارکن شدید جھلس کر انتہائی نگہداشت میں داخل ہوا تھا تاہم حکام نے کہا کہ حادثے کی وجہ سے کوئی حیاتیاتی آلودگی نہیں ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

وائرس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تباہ کن غلطیاں

اس کے علاوہ دیگر واقعات کے نتیجے میں بھی ہائی سکیورٹی لیبارٹریوں میں عملہ اور آس پاس رہنے والے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

فرانس کی ایک لیبارٹری میں ایک سائنسدان کے لیبارٹری آلات سے کٹ جانے کے باعث ہلاکت کے بعد انتہائی سخت اقدامات کیے گئے۔

سنہ 2019 میں 33 سالہ خاتون سائنسدان ایمیلی جیومان نے دس سال تک پریونز نامی پروٹین وائرس پر تحقیق کی جو انسانوں میں سی جے ڈی اور جانوروں میں بی ایس ای نامی ذہنی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔ انھیں یہ علم تھا کہ اس مرض کی کوئی دوا اور علاج نہیں اور وہ اس سے متاثر ہو سکتی ہیں۔

شمال مغربی چین کے علاقے لانژو میں بائیو فارماسیوٹیکل پلانٹ میں ہونے والی خرابیوں کی وجہ سے 10,000 سے زیادہ لوگ ایک خطرناک قسم کے پاتھوجن وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔

بروسیلا بیکٹیریا سے حفاظت کے لیے جانوروں کی ویکسین بنانے والی اس لیبارٹری میں جراثیم کش مادوں کو اس جگہ پر فضلہ گیسوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

جس کے باعث یہاں سے خطرناک پاتھوجن وائرس قریبی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے کارکنوں اور پھر شہر کے مزید ہزاروں لوگوں تک پھیل گئے تھے۔ اگرچہ یہ وائرس شاذ و نادر ہی مہلک ہوتا ہے، یہ وائرس فلو جیسی علامات پیدا کرتا ہے جو طویل مدتی مسائل کا سبب بن سکتی ہے اور اسے سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سویت یونین نے حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر تیار کیا تھا۔

اس واقعے کے بعد ہزاروں لوگوں کی نہ صرف طبی دیکھ بھال کی گئی بلکہ ان کو معاوضے کی رقم بھی دی گئی۔

یہ واقعات کوئی انوکھے نہیں۔ ایسی دیگر متعدد کوتاہیوں سے دیگر لیبارٹریاں اور اس کی قریبی آبادیاں ماضی میں متاثر ہوئی ہیں۔

پراسر طور پر وائرس کا پھیلاؤ

دنیا میں ایسے واقعات بھی ہوئے جب بیماریوں کے وائرس لیبارٹریوں سے نکل گئے لیکن ان کی وجوہات کا کبھی تعین نہیں ہو سکا۔

سنہ 2021 میں تائیوان کے شہر تائی پے میں ایک لیبارٹری میں کووڈ 19 کے وائرس پر کام کرتے ہوئے ایک رکن متاثر ہو گیا تھا۔

اس بارے میں تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ لیبارٹری میں وائرس کی روک تھام کے اقدامات مؤثر نہیں تھے تاہم اس کی اصل وجوہات کا کبھی علم نہیں ہو سکا۔

اس بارے میں قیاس آرائیاں کی گیئں کہ لیبارٹری میں یہ وائرس سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے کے باعث ہوا یا حفاظتی لباس اور آلات کو غلط ترتیب سے ہٹانے کی وجہ سے ہوا تھا۔

لیبارٹریوں سے وائرس پراسرار طور پر لیک ضرور ہوتے ہیں لیکن کیا یہ چین میں کووڈ 19 کے ابتدائی پھیلاؤ کا ذریعہ تھا جس کی وجہ سے عالمی وبا کا آغاز ہوا یا یہ قدرتی طور پر جنگلی جانوروں سے منتقل ہوا، اس کا حتمی طور پر تعین ہونا ابھی باقی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ