نقل مکانی کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک راستے کون سے ہیں؟

نقل مکانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے نقل مکانی (آئی او ایم) کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک تقریباً 50 ہزار تارکینِ وطن یورپی یونین یا امریکہ پہنچنے کی کوشش میں یا تو ہلاک یا پھر لاپتہ ہو چکے ہیں

اٹلی کے جنوبی علاقے میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں بچوں سمیت 100 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 12 بچوں سمیت 62 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہونے والی کشتی میں 200 کے قریب افراد سوار تھے۔ اتوار کے روز یہ کشتی اس وقت تباہ ہو گئی جب اس نے اٹلی کے جنوبی علاقے کروٹون میں لنگر انداز ہونے کی کوشش کی۔

یہ کشتی کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور ایران کے باشندے سوار تھے۔ ڈوبنے والوں کی لاشیں کیلابریا کے علاقے میں ساحل سمندر کے کنارے واقع ایک ریزورٹ سے برآمد کی گئیں۔

کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔

دنیا میں تارکین وطن کی نقل مکانی کے سب سے بڑے روٹس سے لوگوں کی ہجرت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے باعث کئی ممالک میں داخلے پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے اموات کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 280 ملین بین الاقوامی مہاجرین موجود ہیں، جبکہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے نقل مکانی (آئی او ایم) کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک تقریباً 50 ہزار تارکینِ وطن یورپی یونین یا امریکہ پہنچنے کی کوشش میں یا تو ہلاک یا پھر لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ادارے کا ماننا ہے کہ ہلاک شدگان و لاپتہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی سرحدیں پار کرنے کی کوشش کرنے والوں سے متعلق کئی ہلاکت خیز واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

مگر تارکینِ وطن کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک روٹس کون سے ہیں اور کیوں؟

خطہ وسطی بحیرہ روم

نقل مکانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئی او ایم کے مطابق یہ تارکینِ وطن کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک روٹ ہے۔ اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک شمالی افریقہ سے یورپ پہنچنے کی خاطر بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 26 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ سمندر عبور کرنے کی کوشش اکثر بے ڈھنگی اور انتہائی لدی ہوئی کشتیوں میں کی جاتی ہے جس سے یہ سفر خطرناک اور ممکنہ طور پر ہلاکت خیز بھی ہو جاتا ہے۔

یہ کشتیاں عموماً جرائم پیشہ گروہ اور انسانی سمگلر چلاتے ہیں۔

یورپ پہنچنے کے لیے اس روٹ کا استعمال کرنے والے لوگ سفر کی شروعات لیبیا کے ساتھ ساتھ تیونس سے بھی کرتے ہیں جہاں پر سمندر میں ڈوبنے والے افراد کے لیے ایک قبرستان تک معین ہے۔

تیونس سے اپنے سفر کی شروعات کے لیے پرامید نائیجیرین تارکِ وطن وِکی نے اس قبرستان میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میں یہ قبریں دیکھ کر بہت اداس ہو جاتی ہوں۔ جب میں یہ (قبریں) دیکھتی ہوں تو سمندر پار کرنے کا میرا ارادہ پختہ نہیں رہتا۔‘

مگر آئی او ایم جیسے اداروں کو خدشہ ہے کہ دیگر تارکینِ وطن شاید اپنا ارادہ نہ بدلیں۔

آئی او ایم کی ترجمان صفا مسیحلی کہتی ہیں کہ ’اس دوران وسطی بحیرہ روم کے خطے سے تارکینِ وطن کی روانگی جاری ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات دنیا کے اس سب سے خطرناک سمندری راستے پر اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہے۔ ریاستوں کی جانب سے ٹھوس اقدامات کی عدم موجودگی میں یہاں جانوں کا ضیاع جاری ہے۔‘

فورنٹیکس، یورپی بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ 2015 سے اب تک اس راستے کو استعمال کرنے کی کوشش کرنے والے 630,000 سے زیادہ لوگوں کو بچایا جا چکا ہے۔

افریقہ کے اندرونی روٹس

ریگستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئی او ایم کا اندازہ ہے کہ 2014 سے اب تک افریقہ بھر میں 12,300 سے زیادہ تارکین وطن ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔

کئی افریقی تارکینِ وطن کے لیے یورپ پہنچنے کا خواب اپنے ہی برِاعظم میں ایک سفر سے شروع ہوتا ہے جس میں صحرائے صحارا کو عبور کرنے کا ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ شامل ہے۔ اس صحرا کو عبور کر کے ہی شمالی افریقی ممالک پہنچا جا سکتا ہے۔

سخت موسمی حالات ایک بہت بڑا خطرہ ہیں اور آئی او ایم کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے سنہ 2022 کے درمیان صحارا عبور کرنے کی کوشش میں تقریباً 5600 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ایک تارکِ وطن عبداللہ ابراہیم نے اے ایف پی کو صحارا عبور کرنے کے اپنے تجربے کے بارے میں بتایا کہ ’صحرا میں آپ لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ تھکان کے باعث مر جاتے ہیں تو کچھ لوگ پانی ختم ہو جانے کی وجہ سے۔‘

اس کے علاوہ تارکینِ وطن کو بہت بڑا خطرہ اس خطے میں سرگرم انسانی سمگلروں کے گروہوں سے بھی ہے۔

آئی او ایم نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ’سمگلروں اور سرحدی حکام کے ہاتھوں تشدد سے بھی صحرائے صحارا میں تارکینِ وطن کے روٹس پر بڑی تعداد میں اموات ہوتی ہیں۔‘

آئی او ایم کے مطابق ذیلی علاقوں میں بہت سے تارکین وطن تحفظ کے بہت سے چیلنجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، جن میں خصوصاً خواتین اور لڑکیاں بدسلوکی کا شکار ہیں: آئی او ایم کے مطابق ’زبانی اور جسمانی حملوں کے علاوہ، تارکین وطن کو استحصال کے ساتھ ساتھ حالات زندگی کی خراب صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

اگرچہ صحرائے صحارا کراسنگ افریقہ میں نقل مکانی کا سب سے خطرناک راستہ ہے لیکن یہ واحد جان لیوا راستہ نہیں ہے۔ مغربی افریقہ کے راستے، کینری جزائر تک سمندری گزرگاہ اور ہارن آف افریقہ سے یمن کراسنگ میں بھی 2014 سے اب تک تقریباً 4000 افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔

امریکہ میکسیکو سرحد

نقل مکانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگرچہ امریکہ میں ہجرت کے راستے پہنچنے کامقصد صرف یہاں آنا نہیں بلکہ یہاں آنے والوں میں سے زیادہ تر کا مقصد اس خطے میں نئے گھر کی تلاش ہے۔

امریکہ اور میکسیکو کے درمیان موجود سرحد ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ خطہ اپنے سخت جغرافیے بشمول صحرائی خطوں کی وجہ سے بدنام ہے اور تارکینِ وطن اکثر سرحد کے ساتھ ساتھ بہنے والے دریا ریو گرانڈے کو عبور کر کے امریکہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس روٹ پر سب سے زیادہ ہلاکتیں ڈوبنے کے باعث ہوتی ہیں اور آئی او ایم کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک 4300 سے زیادہ افراد اس کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان میں سے 2,600 سے زیادہ ڈوب گئے اور 700 سے زیادہ سخت مقامی موسمی حالات یا پناہ گاہ کی عدم دستیابی، خوراک یا پانی کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

اور قدرتی خطروں سے بچنے کی کوشش میں گاڑیوں اور دیگر جگہوں پر چھپنے والے افراد کو بھی مختلف خطرات کا سامنا ہوتا ہے، جیسے کہ سان انتونیو میں ہونے والی ہلاکتوں کے معاملے میں ہوا تھا۔

آئی او ایم کی ترجمان صفا مسیحلی کہتی ہیں کہ ’حال ہی میں امریکہ جانے والے روٹس پر اور بھی کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔‘

دسمبر 2021 میں میکسیکو کے علاقے چیاپاس میں اس وقت 56 تارکینِ وطن ہلاک ہو گئے جب اُن کا ٹرک حادثے کا شکار ہو گیا۔

صفا کہتی ہیں کہ ’آئی او ایم لاطینی امریکہ سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب ہجرت کے خطرات کے بارے میں تشویش رکھتا ہے۔‘

ایشیائی روٹس

نقل مکانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئی او ایم کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 میں دنیا بھر میں ترکِ وطن کرنے والے ہر 10 میں سے چار افراد کا تعلق ایشیا سے تھا اور اس برِاعظم میں ترکِ وطن کے کئی اہم روٹس ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ہجرت کا کہنا ہے کہ ایشیا میں گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران ہجرت کی کوشش میں 5500 کے قریب افراد یا ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں۔

ان میں اکثریتی اموات روہنگیا یا بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کی ہوئی ہیں جو خلیجِ بنگال یا بحیرہ انڈیمان عبور کر کے قریبی ممالک یا پھر یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔

اس سفر میں اُنھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

محمد الیاس نامی 37 سالہ روہنگیا پناہ گزین نے دورانِ سفر کشتی خراب ہونے پر انڈین بحریہ کے ہاتھوں بچائے جانے کے بعد اے ایف پی کو بتایا ’ہم بھوکے تھے۔ کچھ پی نہیں سکتے تھے کیونکہ پینے کے لیے پانی ہی نہیں تھا۔ کھانا نہیں تھا، چاول نہیں تھے، ہم کچھ نہیں کھا سکتے تھے۔ سمندر میں ایسا تقریباً ایک ماہ تک رہا۔‘

دوسرے روٹس کی طرح یہاں پر بھی تارکینِ وطن کو اکثر انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہوں کے ہاتھوں استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک اور مشکل روٹ ایران اور ترکی کے درمیان کا روٹ ہے جس پر ہجرت میں گذشتہ برس افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے بے نظیر اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین افراد (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ ایران اور قریبی ممالک میں 20 لاکھ سے زیادہ افغان افراد بطور پناہ گزین رجسٹرڈ ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ