افغانستان: طالبان انتہا پسندی کا مسئلہ کیسے حل کریں گے؟
سال 2023، نئے سال کا پہلا دن۔ صبح آٹھ بجے دارالحکومت کابل کا فوجی ہوائی اڈہ ایک زبردست بم دھماکے سے لرز اٹھا۔
یہ علاقہ کنکریٹ کی دیواروں اور خاردار تاروں سے محفوظ بنایا گیا ہے، اس کے باوجود یہاں یہ بڑا حادثہ پیش آیا۔ حادثے سے متعلق سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے، حالانکہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ اس میں بہت سے لوگ مارے گئے ہیں۔
سنہ 2023 افغانستان میں جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، وہاں اس طرح کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور آج یہ چیلنج طالبان کے سامنے کھڑا ہے کہ شدت پسندانہ حملوں کے ذریعے اقتدار میں واپس آنے والے طالبان خود اس طرح کے انتہا پسندانہ حملوں سے کیسے نمٹیں گے۔
بی بی سی کی تحقیقات میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا طالبان اپنی سرزمین پر شدت پسندی کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی
طالبان پہلی بار سنہ 1996 میں افغانستان میں برسراقتدار آئے۔
بی بی سی نے امریکہ میں بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں فارن پالیسی پروگرام کی سینئر ریسرچ فیلو مدیحہ فیصل سے بات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ طالبان کیسے اقتدار میں آئے اور وہ کیسے حکومت کر رہے ہیں۔
وہ طالبان کی پہلی حکومت کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’اس وقت 1980 کی دہائی میں افغان سوویت جنگ کے بعد ان کی طاقت کم ہو گئی تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے افغانستان میں اسلامی شریعت کے قانون کی ایک قدامت پسندانہ، جابرانہ معنوں میں نئی تعریف کی۔ پانچ سال اقتدار میں رہے، انھوں نے خواتین پر بہت سی پابندیاں لگائیں، انھیں تعلیم حاصل کرنے اور دفتروں میں کام کرنے سے روک دیا۔‘
یہی نہیں بلکہ ملک میں موسیقی، سنیما اور ٹیلی ویژن پر بھی پابندی لگا دی۔ طالبان کے سخت قوانین اور سزاؤں کو پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
مدیحہ فیصل کا کہنا ہے کہ طالبان اور افغانستان کو عالمی برادری میں الگ تھلگ کر دیا گیا تاہم تین ممالک نے انھیں تسلیم کیا۔ یہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے۔
لیکن اکتوبر 2001 میں امریکہ میں 9/11 کے شدت پسند حملے کے بعد، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا کیونکہ القاعدہ، جس نے 9/11 کے دہشت گردانہ حملے کیے تھے، افغانستان میں طالبان کی حفاظت میں سرگرم تھی۔
چند ہی ہفتوں میں افغانستان میں طالبان کو اقتدار سے باہر پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد وہاں امریکی حمایت یافتہ لبرل حکومت قائم ہوئی۔
مدیحہ فیصل بتاتی ہیں ’نئی انتظامیہ کے تحت لڑکیاں سکول اور یونیورسٹی واپس گئیں، انھیں نوکریاں ملیں، انھیں کچھ آزادی اور حقوق ملے۔ لیکن طالبان ختم نہیں ہوئے، انھوں نے دوبارہ منظّم ہو کر ایک زبردست شورش شروع کی اور دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے امریکہ اور نیٹو افواج پر حملے شروع کر دیے۔
فروری سنہ 2020 میں، جنگ کے آغاز کے 19 سال بعد، طالبان نے دوحہ، قطر میں امریکہ کے ساتھ سٹیج شیئر کرکے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکام کے ساتھ ایک متنازعہ معاہدے پر دستخط کرکے سب کو حیران کردیا۔
مدیحہ فیصل کا کہنا ہے کہ ’اس معاہدے میں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ فریق ثالث یعنی افغان حکومت اس میں شامل نہیں تھی، اس کے تحت امریکہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی فوج نکال لے گا۔ اس کے بدلے میں طالبان نے کوئی ٹھوس وعدہ نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ وہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘
یعنی طالبان نے جو چاہا، وہ سب کچھ حاصل کر لیا۔ بعد ازاں اپریل 2021 میں بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران طے پانے والے معاہدے کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ اگست 2021 تک امریکی فوج کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی طالبان کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور دس دنوں میں انھوں نے پورے ملک پر حملہ کر دیا۔ 15 اگست 2021 کو انھوں نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا۔
اور پھر اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وہ اپنے بہت سے وعدوں سے مُکر گئے جن میں لڑکیوں کی تعلیم جیسے وعدے بھی شامل تھے۔
مدیحہ فیصل کا کہنا ہے کہ ’ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ کابل میں انتظامیہ چلانے والے رہنماؤں کو دارالحکومت سے کئی کلومیٹر دور قندھار میں بیٹھے قدامت پسند سخت گیر طالبان رہنماؤں کے حکم پر کام کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی 1996 کی حکمرانی اور موجودہ طرز حکمرانی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اور ایک بار پھر طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
طالبان حکومت کے بارے میں عالمی برادری کے رویے کے بارے میں مدیحہ فیصل کا کہنا ہے کہ ’یہ بات قابل غور ہے کہ ابھی تک کسی ملک نے افغانستان کی طالبان انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیا، حتیٰ کہ طالبان کی پہلی حکومت کی حمایت کرنے والے پاکستان نے بھی ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔‘
واضح رہے کہ اس انتظامیہ سے کسی کو زیادہ ہمدردی نہیں ہے۔
اقتدار میں واپس آنے کے بعد طالبان نے پچھلی حکومت کے بہت سے ترقی پسند فیصلوں کو پلٹ دیا۔
مدیحہ فیصل کہتی ہیں ’لڑکیوں کو سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے اور دفاتر میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کوڑے مارنے یا سرعام پھانسی جیسی ظالمانہ سزائیں دوبارہ متعارف کرائی گئی ہیں۔‘
بی بی سی نے یہ سمجھنے کے لیے کہ طالبان کی حکومت نے افغانستان میں روزمرہ کی زندگی کو کیسے متاثر کیا، ایک افغان صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن رویا موسوی سے بات کی۔
طالبان کے اقتدار میں آتے ہی انھیں ملک سے فرار ہونا پڑا۔ رویا موسوی کہتی ہیں ’میں نے کئی سال افغانستان میں کام کیا ہے۔ ملک سے فرار ہونے سے پہلے میں افغانستان میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی ترجمان تھی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے ایک ہفتے بعد میں نے افغانستان چھوڑ دیا تھا۔ اس ہفتے کے دوران میں سو نہیں سکی کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔‘
رویا کہتی ہیں ’میں میڈیا میں کام کرتی تھی۔ میں ان کے رویے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بہت تنقید کرتی تھی۔ یہ بہت خوفناک وقت تھا۔ طالبان کے دور حکومت میں کام کرنا ناممکن تھا، اس لیے میرے پاس ملک چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
افغانستان کی معیشت کئی دہائیوں سے جنگ کے نتائج بھگت رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شدید سردی، خشک سالی اور بڑی تعداد میں لوگوں کے بے گھر ہونے کی وجہ سے یہاں انسانی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے۔
رویا موسوی کہتی ہیں ’غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔ چائلڈ لیبر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ صنفی مساوات ناپید ہے۔ اس سب کی وجہ سے افغانستان کو ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی معیشت کو پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
رویا موسوی کہتی ہیں ’عام افغانوں کی روزمرہ کی زندگی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ ذاتی آزادیاں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں اور معاشی صورتحال ابتر ہو رہی ہے کیونکہ تمام طاقت طالبان کے پاس ہے۔‘
اقوام متحدہ کا خیال ہے کہ خواتین کو کام کرنے سے روکنے سے معیشت کو سالانہ ایک ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
رویا موسوی اس بارے میں کہتی ہیں ’اس کا طویل المدتی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا۔ طالبان نے معاشرے کے ایک پورے طبقے کو بیکار کر دیا ہے۔
’ہر کوئی تکلیف میں ہے، لیکن خواتین اور بچے زیادہ تکلیف میں ہیں۔ ایسا نہیں کہ افغانستان پہلے ان کے لیے جنت تھا، لیکن پھر بھی عوامی حلقوں میں خواتین کی شرکت بہت کم تھی۔ طالبان کے آنے کے بعد وہ سب کچھ بدل گیا ہے۔‘
دسمبر 2022 میں تمام مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز پر خواتین کو ملازمت دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ خواتین کی مدد کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کو افغانستان میں اپنا کام عارضی طور پر روکنا پڑا۔
رویا موسوی کہتی ہیں کہ ان فیصلوں کے خلاف بعض جگہوں پر خواتین کی قیادت میں مظاہرے ہوئے لیکن طالبان نے انھیں جلد ہی کچل دیا۔ مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔ ایسے میں عوام کے پاس آپشن کیا ہیں؟
رویا موسوی کہتی ہیں ’لوگ طالبان کے خلاف اٹھنا چاہتے ہیں لیکن وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ ایک دہشت گرد گروہ ہے جو برسوں سے لڑ رہا ہے۔ وہ اب تک ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ عام لوگ غیر مسلح ہیں اور طالبان کے پاس ہتھیار ہیں۔ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔‘
اسلامک سٹیٹ خراسان سے خطرہ
افغانستان میں اقتدار پر طالبان کا کنٹرول ہے لیکن ان کے سامنے مسائل بھی بڑے ہیں۔
ان کا سب سے بڑا چیلنج اسلامک سٹیٹ خراسان یعنی آئی ایس کے کی طرف سے ہے جس نے وہاں کئی حملے کیے ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ یہ تنظیم کیا ہے، بی بی سی نے یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے جنوبی ایشیا کے ماہر اسنفندیار میر سے بات کی ۔
آئی ایس آئی ایل یا آئی ایس آئی ایس کا حصہ ہے۔ دنیا میں اسے آئی ایس آئی ایس یا اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا یا آئی ایک کے جیسے کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔
میر کا کہنا ہے کہ جون 2014 میں انھوں نے اسلامک سٹیٹ یا اسلامی خلافت قائم کی تھی۔ عراق اور شام میں حکومت کا اعلان کیا گیا، یہ طالبان کا بڑا حریف ہے۔
اگرچہ اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کا ہدف صرف عراق یا شام میں ایسی حکومت قائم کرنے تک محدود نہیں تھا۔
آئی ایس کے کے عزائم کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’یہ گروپ اسلام کے نام پر بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی وکالت کرتا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کی حکومت کو گرانا بھی ہے۔ ساتھ ہی، یہ شیعہ اکثریتی ایران کو سزا دینا بھی چاہتا ہے اور طالبان کی جہادی مہم کو ختم کر کے افغانستان میں اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ شیعہ اور ہزارہ اقلیتوں کو بھی نشانہ بنانا چاہتا ہے۔‘
یہ گروپ عراق اور شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کے ایک سال بعد 2015 میں افغانستان میں بھی قائم ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
اسفند یار میر کے مطابق داعش خود کو اسلامی خلافت کی حکمرانی کا مرکز سمجھتی ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی سیاسی سمت کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ آئی ایس کے اور طالبان ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور اسلامی نظریات کے حوالے سے ان میں بنیادی اختلافات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس کے سلفی نظریے کی پیروی کرتی ہے اور بت پرستی کے خلاف نظریے پر زور دیتی ہے اور وہ اپنے نظریے کو طالبان سے زیادہ خالص سمجھتی ہے۔ دوسری طرف طالبان سنی حنفی نظریے کی پیروی کرتے ہیں جو آئی ایس کے کے مطابق ناکافی ہے اور وہ اسے فوجی طاقت سے ہٹانا چاہتے ہیں۔‘
میر بتاتے ہیں کہ یہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ طالبان کے تعلقات پر بھی تنقید کرتے ہیں، خاص طور پر اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات۔ جب بھی طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی ہے، آئی ایس کے نے طالبان پر دباؤ بڑھا کر اور پروپیگنڈہ کر کے کہ طالبان کافروں سے سمجھوتہ کر رہے ہیں، اپنی تنقید کو تیز کیا ہے۔‘
اس تنظیم میں کتنے لوگ ہیں اس کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ تعداد سینکڑوں میں بھی ہوسکتی ہے اور ہزاروں میں بھی۔
اسفند یار میر کے مطابق اس وقت اس تنظیم کی مہم پورے افغانستان میں پھیلتی دکھائی نہیں دے رہی ہے بلکہ یہ کچھ منتخب حصوں بالخصوص مشرقی افغانستان اور دارالحکومت کابل میں سرگرم نظر آتی ہے۔
آئی ایس کے نے کئی بڑے حملے کیے ہیں۔ اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ اب تک وہ ’ہٹ اینڈ رن‘ یعنی گوریلا حملے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں، جو تین طرح کی ہوتی ہے۔
اس حکمت عملی کے بارے میں میر نے وضاحت کی۔
’آئی ایس کے نے نہ صرف چھوٹے ’ہٹ اینڈ رن‘ حملے ہیں بلکہ بڑے خودکش حملے بھی کیے ہیں۔ انھوں نے طالبان کو نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے افغانستان سے باہر، پاکستان میں بھی بہت سے حملے کیے ہیں جہاں کئی طالبان رہنما پچھلے کچھ سالوں سے رہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈز اور لڑکیوں کے سکولوں سمیت اقلیتی برادریوں پر حملے کیے ہیں۔‘
میر کے مطابق ان کا تیسرا ہدف بین الاقوامی برادری رہا ہے۔ جب امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی تھیں، آئی ایس کے نے کابل کے ہوائی اڈے پر حملہ کیا، جس میں کئی امریکی فوجی اور افغان شہری ہلاک ہوئے۔
آئی ایس کے نے سفارتی نقطہ نظر سے بھی اہم مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
ستمبر 2022 میں اس نے روسی سفارت خانے پر خودکش حملہ کیا۔ چند ماہ بعد پاکستانی سفارت خانے پر گولیاں برسائی گئیں۔ اس نے طالبان کی سکیورٹی ایجنسیوں پر حملہ کیا اور یہ پیغام دیا کہ اس کی وہاں بھی رسائی ہے۔
ایک طویل عرصے تک طالبان نے آئی ایس کے کے چیلنج کو نظر انداز کیا۔ لیکن ان کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے کے باوجود طالبان کو ان کے خلاف زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
آئی ایس کے رہنما شاہ ابو المہاجر کئی سالوں سے افغانستان میں سرگرم ہیں۔ لیکن طالبان نے ابھی تک انھیں یا آئی ایس کے کے کسی سینئر کمانڈر کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔
ایک بین الاقوامی مسئلہ
ڈینیئل بیئرمین انسداد دہشت گردی کے ماہر اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ طالبان کے سامنے دو بڑے چیلنجز ہیں، پہلا، آئی ایس کے جیسے دہشت گرد گروپوں کو کنٹرول کرنا اور دوسرا، عام لوگوں کو وہ سہولیات فراہم کرنا جو انہیں 20 سالوں میں مل رہی تھیں۔
وہ کہتے ہیں ’اب لوگ جانتے ہیں کہ انتظامیہ اس سے بہتر ہو سکتی ہے۔ طالبان کا خیال تھا کہ ملک میں امن قائم کرنا آسان ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔‘
لیکن ایک وقت تھا جب طالبان خود افغانستان کے اندر ایک باغی گروپ تھا۔ اور اس کی وجہ سے وہ باغی گروپوں کے کام کرنے کے طریقے جانتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان اپنے تجربے کو آئی ایس کے کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟
ڈینیئل بیئرمین کا کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’یہ دونوں مختلف گروپ ہیں اور ان کی حمایت کی بنیاد بھی مختلف علاقوں سے ہے۔ اور پھر افغانستان میں بڑے اختلافات ہیں۔ بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں طالبان مقبول نہیں ہیں لیکن ان علاقوں میں آئی ایس کے کو حمایت حاصل ہے۔”
آئی ایس کے ایک بڑے دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ تو کیا طالبان کو اس سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری سے مدد مل سکتی ہے؟
اس پر ڈینیل بائیمن کہتے ہیں ’ہم جس بڑے دہشت گرد نیٹ ورک کے بارے میں بات کر رہے ہیں، وہ اب اتنا طاقتور نہیں رہا ہے جتنا 2015 میں تھا۔ لہذا آئی ایس کے کی پیسے یا ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت اب کمزور ہو گئی ہے۔ اور اب بین الاقوامی برادری کا ہدف بھی اس گروہ کو کمزور رکھنا ہے۔‘
طالبان کے سامنے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
ڈینیل بیمن کا کہنا ہے کہ ’آئی ایس کے کی موجودگی یقینی طور پر بین الاقوامی برادری کے لیے ایک مخمصے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ ہر کسی کا ماننا ہے کہ یہ گروپ افغانستان میں بین الاقوامی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور دوسرے ممالک پر بھی حملے کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بہت سی تنظیمیں بدتر ہیں۔ لیکن طالبان کے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کی تلخ تاریخ بھی ایک رکاوٹ ہے۔ بہت سے ممالک، آئی ایس کے کی مخالفت کے باوجود، طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات نہیں رکھنا چاہتے۔‘
اپنے قوم پرست سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے طالبان بھی دوبارہ بین الاقوامی امداد پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔
ڈینیئل بائیمن کہتے ہیں کہ ’جب طالبان امریکہ اور افغان حکومت سے لڑ رہے تھے تو وہ افغان حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے امریکہ پر منحصر ہے، اب اگر طالبان بھی یہی انحصار دکھاتے ہیں تو اس کی کریڈیبلٹی کم ہو جائے گی۔ ‘
لیکن پردے کے پیچھے، وہ بالواسطہ طور پر امریکہ سے آئی ایس کے کے بارے میں انٹیلی جنس یا دیگر مدد لے سکتے ہیں۔
ڈینیل بائیمن مزید کہتے ہیں ’بائیڈن انتظامیہ طالبان کو انٹیلی جنس مدد فراہم کر سکتی ہے، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کو آئی ایس کے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ لیکن یہ امداد براہِ راست نہیں، بلکہ کسی دوسرے ملک کے ذریعے، مثال کے طور پر، پاکستان کے ذریعے بھی دی جا سکتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ فوج نکالنے کے باوجود امریکہ کا انٹیلی جنس نظام افغانستان میں موجود ہے۔ شاید جلد ہی آئی ایس کے کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ کمزور ہو سکتی ہے تاہم اس سے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول بڑھ جائے گا۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا طالبان اپنی سرزمین پر پروان چڑھنے والی دہشت گردی کے اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایس کے طالبان کی طاقت کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ یہ تنظیم مزید کمزور ہو سکتی ہے۔
لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت کے سامنے بہت بڑے انسانی چیلنجز ہیں۔ بڑے پیمانے پر غربت ہے، لوگ فاقہ کشی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ بھی ہے، جس پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔
Comments are closed.