اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کی تازہ لہر اور تیسرے انتفادہ کا خدشہ
کئی مہینوں سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پر تشدد واقعات جاری ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہیں یہ اپنے نقطۂ ابال پر تو نہیں پہنچ چکا ہے۔
جمعرات کو اسرائیلی طیاروں نے راکٹ داغے جانے کے جواب میں غزہ کی پٹی پر بمباری کی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ بمباری سے چند گھنٹے قبل اسی فلسطینی علاقے سے جنوبی اسرائیل کی طرف راکٹ داغے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق طیاروں نے غزہ میں ایک ہتھیار بنانے والے ٹھکانے اور حماس کے فوجی احاطے کو نشانہ بنایا ہے۔
لیکن اس تبادلے سے پہلے اسرائیلی افواج کی جانب سے بدھ کے روز نابلس کے قصبے میں ایک حملہ کیا گیا تھا جو کہ سنہ 2005 میں فلسطینی حکام کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے بعد مغربی کنارے میں سب سے مہلک حملہ تھا جس میں 11 فلسطینی مارے گئے۔ ان مرنے والوں میں چھ عسکریت پسند اور پانچ شہری ہلاک ہوئے جبکہ ایک سو افراد زخمی ہوئے۔
اس واقعے سے قبل اسی طرح کا ایک اور حملہ جنوری کے آخر میں ہوا، جب اسرائیلی فوجی اسلامی جہاد کے ایک ’دہشت گرد دستے‘ کو گرفتار کرنے کے لیے جنین میں داخل ہوئے۔ اس دستے پر انھوں نے الزام لگایا کہ وہ اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کے خلاف ’متعدد اور بڑے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی اور ان کو انجام دینے میں ملوث تھے۔‘
اس آپریشن میں نو فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تعداد سنہ 2005 کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ اس حملے کے بعد یروشلم کی ایک یہودی عبادت گاہ پر ایک فلسطینی کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس میں سات اسرائیلی مارے گئے۔
یہ واقعات کچھ ایسے فلیش پوائنٹس ہیں جو تشدد کے ماحول کو ظاہر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطین کے تعلقات حالیہ دنوں میں تناؤ کا شکار ہیں۔
نابلس میں ایک جنازے کا منظر
تشدد کا چکر
اسرائیل اور مغربی کنارے میں گولہ باری کے تشدد میں سنہ 2022 میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے جو سنہ 2005 میں دوسرے انتفادہ کے ختم ہونے کے بعد سب سے مہلک سال بن گیا۔
پچھلے سال اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 151 فلسطینیوں کو ہلاک کیا، جو سنہ2021 میں ریکارڈ کی گئی تعداد سے تقریباً دگنا ہے۔ اس دوران فلسطینی عسکریت پسندوں نے 31 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا ہے۔
سنہ 2022 میں بھی فلسطینی عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں پر تقریبا 300 راؤنڈ گولیاں چلائیں۔ اگر سنہ 2021 سے مقابلہ کیا جائے تو اس میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے کیونکہ اسرائیلی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال صرف 61 راؤنڈ گولیاں چلیں تھیں جبکہ اس سے قبل سنہ 2020 میں یہ تعداد 31 تھی۔
سنہ 2023 میں اب تک تقریباً 60 فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں عسکریت پسند اور شہری دونوں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 10 اسرائیلی اور ایک یوکرینی بھی اس میں مارے گئے ہیں۔
بہر حال پچھلے سال کے دوران اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے حملوں اور مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کے چھاپوں اور گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس موذی چکر نے سیاست دانوں اور ماہرین کو اس تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ صورتحال ہاتھ سے باہر نکل رہی ہے۔
نومبر سنہ 2022 میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر ٹور وینز لینڈ نے اس بات کی مذمت کی کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘عشروں کے مسلسل تشدد، غیر قانونی بستیوں کی توسیع، غیر فعال مذاکرات اور قبضے کرنے کے بڑھتے واقعات کے بعد، تنازع ایک بار پھر عروج پر پہنچ رہا ہے۔’
فروری کے اوائل میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں وینز لینڈ نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کا سلسلہ ایک نازک موڑ پر ہے اور خون کی ہولی کو روکنے کے لیے ‘مضبوط’ سفارتی مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن تشدد میں اس اضافے کی کچھ اپنی خصوصیات ہیں جو اسے ماضی میں دنیا کے اس حصے میں ہونے والے پرتشدد چکروں سے مختلف کرتی ہیں۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ تنہا بھیڑیے والے حملے خطرناک ہو سکتے ہیں
نہ امن نہ کوئی امید
دونوں طرف کے شہریوں کے خلاف حملے سے تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور ایسے تناظر میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دیرپا امن کے حصول کا امکان بہت دور نظر آتا ہے۔
بین الاقوامی برادری کی طرف سے دو ریاستی حل کئی دہائیوں سے التوا کا شکار ہے اور دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ دوسرا ایک پائیدار معاہدے کے حصول میں مخلصانہ دلچسپی رکھتا ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سکول آف فارن سروس اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن سینٹر آن مڈل ایسٹ پالیسی کے ایک ساتھی پروفیسر ڈینیل بائیمن نے اس ماہ فارن افیئرز نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ ’آخری بار اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو امن کی کوئی حقیقی امید سنہ 1990 کی دہائی کے اواخر میں تھی لیکن تب سے دونوں فریق زیادہ سے زیادہ شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا ’فلسطینی ثبوت کے طور پر بڑھتے ہوئے اسرائیلی قبضے اور مسلسل پھیلتی ہوئی بستیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل مغربی کنارے کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اسرائیلی دوسرے انتفادہ کے تشدد اور غزہ سے انخلاء کے بعد حماس کے اقتدار سنبھالنے کو اس بات کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں کہ رعایتیں، بشمول غزہ کا چھوڑنا علاقے کو تشدد سے پر کر دے گا۔‘
محمود عباس کی اتھارٹی کمزور پڑتی جا رہی ہے
ایک کمزور اتھارٹی
سفارتی آپشنز پر مشترکہ عدم اعتماد میں اضافہ وہ مشکل صورتحال ہے جس سے فلسطینی اتھارٹی (پی اے) گزر رہی ہے۔
جیسا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر ٹور وینز لینڈ نے روشنی ڈالی ہے کہ پی اے کو اہم ادارہ جاتی چیلنجز بشمول اہم جمہوری خلا کا سامنا ہے کیونکہ انھوں نے سنہ 2006 سے انتخابات نہیں کروائے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ نصف سے زیادہ ممکنہ فلسطینی ووٹرز جن کی عمر 18 اور 35 سال کے درمیان ہے انھیں کبھی ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں ملا۔
اس کے علاوہ اس میں حقیقت بھی شامل ہے کہ ہے کہ پی اے کے پاس فلسطینی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی وسائل نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ حکومتیں جو ان کی مالی مدد کر رہی تھیں انھوں نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر امداد بند کر دی ہے۔
وینس لینڈ نے بی بی سی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ تقریباً کسی بھی عطیہ دہندگان کی کوئی رقم فلسطینی اتھارٹی کے پاس نہیں آرہی ہے اور اسے تبدیل کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا ’اگر آپ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کر سکتے، اگر آپ صحت کی خدمات فراہم نہیں کر سکتے، اگر آپ دوا نہیں خرید سکتے، اگر آپ سکولوں کی مالی امداد نہیں کر سکتے، تو آپ بہت سنگین صورتحال میں ہیں۔’
انھوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے پاس حماس کے زیر اقتدار غزہ اور مغربی کنارے دونوں کے لیے پروگرامز ہیں لیکن وہ اس خلا کو پر نہیں کر سکتا۔ ’اقوام متحدہ یہ ذمہ داری قبول نہیں کر سکتا۔ ہم فلسطین پر حکومت نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس فعال فلسطینی اتھارٹی رکھنے کا کوئی آپشن یا متبادل نہیں ہے۔‘
ڈینیئل بائیمن نے نشاندہی کی کہ 87 سالہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے پاس نہ صرف جمہوری مینڈیٹ کا فقدان ہے بلکہ اگر ووٹ ڈالے جائين تو وہ الیکشن ہار جائیں گے۔
عدم اطمینان
انھوں نے وضاحت کے ساتھ لکھا ’فلسطینی اتھارٹی پر وسیع عدم اطمینان ہے۔ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں اور آباد کاروں کی اشتعال انگیزیاں فلسطینی اتھارٹی کی قانونی حیثیت کو مجروح کرتی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنظیم اپنی بہترین صورت میں کمزور ہے یا بدترین شکل میں اسرائیل کا پیادہ ہے۔ آبادکاری میں اضافے سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے کنٹرول میں ملوث ہے یا کم از کم اس کے پاس مخالفت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔’
پی اے کی یہ کمزوری اس طرح بھی واضح ہے کہ اس نے جنین اور نابلس کے شہروں پر کچھ کنٹرول کھو دیا ہے، جہاں مسلح عسکریت پسندوں کی ایک نئی نسل ابھر رہی ہے۔
یہ، جزوی طور پر اسرائیل کے خلاف حملوں میں اضافے کی وضاحت کرتا ہے، کیونکہ ان گروہوں کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے۔
ان تنظیموں میں سے ایک لائنز ڈین (شیر کی کچھار) ہے۔ یہ ایک ایسا گروپ ہے جو نابلس میں 2022 کے وسط سے ابھرا ہے اور اسرائیلی فوجیوں، بستیوں اور چوکیوں کے خلاف حملے کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔
اس کے ارکان وہ نوجوان ہیں جو روایتی فلسطینی تنظیموں جیسے کہ الفتح، حماس، اسلامی جہاد یا پاپولر فرنٹ فار فلسطین لبریشن سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے درمیان تنازعات سے دور ہیں اور اسرائیل سے لڑنے پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔
اسرائیل نے اس بدھ کو جو حملہ کیا ہے اس کا مقصد تین فلسطینی عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنا تھا، جن میں سے دو محمد جنیدی اور حسام اسلم لائنز ڈین کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے، حالانکہ وہ دوسری تنظیموں سے آتے ہیں۔
ایسی ہی ایک تنظیم، جینین بریگیڈز ہے جو سنہ 2021 میں ابھری تھی۔
ڈینیل بائی مین نے خبردار کیا ہے کہ بظاہر اس قسم کی تنظیموں کے تشدد پر قابو پانا اسے مزید مشکل بنا سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو
ایک بنیاد پرست اسرائیلی حکومت
لیکن اگر فلسطینی اتھارٹی کمزور ہوئی ہے تو اسرائیل میں بھی ایک ایسی حکومت آئی ہے جو انتہائی دائیں بازو کے نظریے کی حامل ہے۔
نومبر سنہ 2022 کے انتخابات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے انتہائی دائیں بازو کے مذہبی صیہونیت اتحاد کے ساتھ مل کر ایک حکومت بنائی اور اس میں الٹرا نیشنلسٹ عظمی یہودیت (یہودی طاقت) پارٹی کے رہنما ایتمار بن غفیر کو کابینہ میں شامل کیا، جنھیں قومی سلامتی کا وزیر، اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں پولیس کا انچارج مقرر کیا گیا۔
یہ سیاست دان یہودی آبادکاری کا حامی ہے اور اس سے قبل انھیں نسل پرستی پر اکسانے اور یہودی دہشت گرد گروپ کی حمایت کے جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے۔
کابینہ کے ایک اور متنازع رکن بتسلائل سموتریش ہیں۔ وہ نئے وزیر خزانہ ہیں جنھوں نے پہلے انتہا پسند آبادکاری کی تحریک کی قیادت کی تھی۔
بائیمن نے اپنے خارجہ امور کے مضمون میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل میں اس حکومت سے فلسطینیوں کو مشتعل کرنے کا امکان ہے۔ مزید برآں، انھوں نے نشاندہی کی کہ فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے حملے کثرت سے ہو رہے ہیں۔
” نتن یاہو نے ایک نئی حکومت تشکیل دی جس نے آباد کاروں، سیاسی انتہا پسندوں اور نسل پرستوں کو مغربی کنارے کی نگرانی کے لیے کلیدی عہدوں پر رکھا ہے۔ یہ سب ایک ناگزیر اور مایوس کن نتیجے کی طرف لے جاتا اور پہلے سے کہیں زیادہ تیسرے انتفادہ کا خطرہ ہے۔
اس طرح فلسطینی علاقوں اور اسرائیل میں دونوں طرف جو صورت حال ہے وہ مفاہمت تک پہنچنے کے لیے سیاسی حالات کی موجودگی کے بغیر تشدد میں اضافے کے امکانات پر زور دیتی ہے اور اس طرح بامعنی امن مذاکرات کے دوبارہ شروع کیے جانے کے امکانات مسدود ہیں۔
Comments are closed.