سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد نے کہا ہے کہ پچھلے پانچ سال میں ایک خاص جج نے حساس نوعیت کے 73 کیسوں کی سماعت کی، جب کہ ایک اور جج نے ایسے صرف 9 کیسز کی سماعت کی، جب ایسا عدم توازن ہوگا تو سوال تو اٹھیں گے۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت کو موجودہ آئینی بحران کی جڑ تک پہنچنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ آئینی بحران اس لیے شروع ہوا کیوں کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینے والوں کے ووٹ گنے نہِیں جائیں گے۔
صلاح الدین احمد کے مطابق بینچ کے دو ججوں نے کہا بھی کہ اس طرح تو آپ آئین ری رائٹ کر رہے ہیں، تاہم تین ججوں نے کہا کہ بے شک ہم ری رائٹ کر رہے ہیں مگر ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔
صلاح الدین احمد نے کہا کہ آئین ری رائٹ کیا گیا جس کے بعد بحران در بحران پیدا ہوا۔
اس موقع پر پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے کہا کہ خاص کیس کے لیے خاص بینچ بنائیں گے تو انگلیاں تو اٹھیں گی۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ازخود نوٹس کیس نہیں بنتا۔
Comments are closed.