یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا ہے کہ یورپ دنیا میں انسانی اور ترقیاتی امداد دینے والے ممالک میں سر فہرست ہے لیکن ہم ہر امدادی پیکٹ پر اپنا جھنڈا نہیں چپکاتے۔
نیویارک میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت افریقا اور ایشیا کے بہت سے ممالک کے لیڈرز یہ سمجھتے ہیں کہ یورپین یونین کی ساری توجہ اب یوکرین پر ہے اس لیے وہ دنیا کے دیگر ممالک کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دے پارہا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم اب صرف یوکرین کی جنگ کی پرواہ کر رہے ہیں اور دوسرے خطوں کے مسائل کو زیادہ نہیں سنتے، یہ ایک روسی پروپیگنڈا ہے، ہم یوکرین کی پرواہ اس لیے زیادہ کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے گھر کے قریب ہے۔
جوزپ بوریل نے کہا کہ ہمیں ڈیٹا اور دلائل کے ساتھ ریکارڈ کو سیدھا کرنا پڑے گا، کبھی کبھی ہمیں یہ تاثر ملتا ہے کہ یورپ جو کچھ بھی کرتا ہے اسے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، یورپ انسانی اور ترقیاتی امداد دینے والا دنیا کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم وہ ہیں جو ایک وقف فنڈ کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔
اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حالیہ زلزلے کے بعد شام کی امداد پر پابندیوں کے دعوے کے باوجود شام کو 90 فیصد انسانی امداد یورپ، امریکا اور کینیڈا نے فراہم کی۔
یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے مزید کہا کہ امداد کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یورپین یونین کی امداد اس لیے کم نظر آتی ہے کہ ہم ضرورت مند ممالک کو بھیجے جانے والے ہر امدادی بیگ پر اپنا جھنڈا چپکانے کے بجائے اسے اقوام متحدہ کے پروگراموں کے ذریعے بھیجتے ہیں، اقوام متحدہ کی جانب سے جانے والی امداد کے پیچھے یورپین یونین کا پیسہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب یا تو ہم یہ کام اپنے نمائندوں کے ذریعے لیں یا پھر اپنے علامتی نشانوں کے لیے لڑیں، اگر ایسا کیا جائے تو یہ امدادی عمل کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔
جوزپ بوریل نے دعوٰی کیا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کا الزام بھی ہم پر عائد کیا جا رہا ہے اور ڈھٹائی پر مبنی یہ روسی پروپیگنڈا دنیا کے کئی ممالک میں فروغ پارہا ہے جسے روکنا بہت ضروری ہے۔
اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق چین میں 79 فیصد، ترکی میں 70 فیصد اور بھارت میں 80 فیصد لوگ ابھی بھی روس کو ایک اتحادی یا شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ یوکرین کی حمایت کے لیے مغربی مقاصد پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہماری پابندیوں کی وجہ سے روس باقی دنیا کو کھاد برآمد نہیں کرسکتا لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ بات سچ نہیں، روس اب بھی عملی طور پر اتنی ہی رقم کی کھاد برآمد کر رہا ہے جتنی وہ پہلے کر رہا تھا لیکن پروپیگنڈے کا وزن بہت زیادہ ہے۔
Comments are closed.