یوکرین جنگ: چین کس طرح روس کو مدد فراہم کر رہا ہے؟

China Russia

،تصویر کا ذریعہReuters

چین نے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ روس کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے۔

تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ چین پہلے سے ہی روسی فوجیوں کو یوکرین میں ملٹری انٹیجلیجنس فراہم کر رہا ہے اور وہ روس کے لیے تیزی سے ایک اہم تجارتی پارٹنر بن گیا ہے۔

کیا چین، روس کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے؟

Drone Technology

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چین اپنی فوجی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھا رہا ہے اور اب یہ دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائمن ویزمین کہتے ہیں کہ ’چین کے ہتھیار اب زیادہ ترقی یافتہ ہو رہے ہیں۔‘ انھوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ چین کی ڈرون ٹیکنالوجی میں روس کو بہت دلچسپی ہو گی۔‘

امریکہ کا کہنا ہے کہ چینی فرموں نے پہلے ہی روس کو ’غیر مہلک مدد‘ فراہم کی ہے اور یہ کہ اس کے پاس نئی معلومات ہیں جن سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے چین ’مہلک مدد‘ بھی فراہم کر سکتا ہے۔

واشنگٹن نے خبردار کیا ہے کہ ایسی مدد میں فراوانی چین کے لیے ’سنگین نتائج‘ کی حامل ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں اقتصادی پابندیوں کی ماہر ماریہ شگینا کہتی ہیں کہ چین نے کھلے عام روس کو ہتھیار فراہم نہیں کیے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ خفیہ طور پر ہائی ٹیک مصنوعات فروخت کر رہا ہو جو فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔

ان کے مطابق ’اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ چین ’سیمی کنڈکٹرز‘ کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اکثر ہانگ کانگ اور متحدہ عرب امارات میں شیل کمپنیوں کے ذریعے روس کو یہ مدد فراہم کی جاتی ہے۔‘

کچھ چینی کمپنیاں سویلین ڈرونز بھی سپلائی کر رہی ہیں یعنی یہ کمپنیاں فوجی اور سویلین مقاصد کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کی ’گرے لائن‘ کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔‘

امریکہ میں قائم سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفنس سٹڈیز کا کہنا ہے کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ چینی کمپنیاں روس کو طیارہ شکن میزائل ریڈار کے لیے الیکٹرانک پُرزے بھیج رہی ہیں۔

امریکہ نے ایک چینی کمپنی پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اس کمپنی نے یوکرین میں لڑنے والی روسی افواج (مرسنریز) کی حمایت میں سیٹلائٹ تصویریں فراہم کی ہیں۔

Trade

چین روس کی معاشی مدد کیسے کر رہا ہے؟

ایک سال قبل روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد مغربی ممالک نے روس پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں اور تیل کی درآمد اور ہائی ٹیک مصنوعات کی برآمدات پر بھی پابندی لگا دی تھی۔

بہت سی مغربی فرموں نے روس کے ساتھ اپنے روابط مکمل طور پر منقطع کر لیے اور سنہ 2022 کے دوران امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ اس کی تجارت میں کمی آئی۔

تاہم، روس کے ساتھ چین کی مجموعی تجارت سنہ 2022 میں 190 بلین ڈالر کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جو کہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔

Between China and Russia

روس کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارت

چین سے روسی درآمدات 13 فیصد بڑھ کر 76 بلین ڈالر اور چین کو اس کی برآمدات 43 فیصد بڑھ کر 114 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

سنہ 2022 میں اگرچہ مغربی ممالک کے ساتھ روس کی تجارت میں کمی آئی، لیکن چین بڑے پیمانے پر روس کا سب سے اہم تجارتی پارٹنر بن گیا۔

یہ بھی پڑھیے

Gas

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چین روس سے کتنا تیل اور گیس خرید رہا ہے؟

روس نے سنہ 2022 میں چین کو مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) گذشتہ برس کے مقابلے میں دو گنا زیادہ برآمد کی۔

ماسکو نے پاور آف سائبیریا پائپ لائن کے ذریعے سنہ 2022 میں بیجنگ کو 50 فیصد زیادہ قدرتی گیس فراہم کی۔

چین نے بھی روس سے سنہ 2021 کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ خام تیل درآمد کیا۔

یہ جزوی طور پر یورپی یونین کو تیل اور گیس کی فروخت کی مقدار کو پورا کرتا ہے جو روس گذشتہ برس سپلائی نہ کر سکا۔

اس نے سنہ 2021 میں یورپی یونین گیس کی درآمدات کا 40 فیصد فراہم کیا لیکن سنہ 2022 میں صرف 15 فیصد کی فراہمی ہو سکی۔

اس نے 2022 میں یورپی یونین کے تیل کی درآمدات کا 14 فیصد سپلائی کیا۔ گذشتہ برس سنہ 2021 میں یہ سپلائی 26 فیصد تھی۔

روسی حکومت کی سالانہ آمدنی کا تقریباً نصف تیل اور گیس کی فروخت سے حاصل ہوتا ہے۔

اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے جی 7 گروپ نے، یورپی یونین اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر سمندری راستے سے بھیجے جانے والے روسی تیل کی قیمت پر عالمی حد مقرر کی تاکہ کریملن جنگ پر خرچ کرنے والی رقم کو کم کرنے کی کوشش کرے۔

تاہم چین نے اس حد کو ماننے سے انکار کیا اور وہ مارکیٹ کی قیمتوں پر روسی خام تیل خریدتا رہا۔

دونوں ممالک نے ایک نئی گیس پائپ لائن (پاور آف سائبیریا 2) کی تعمیر پر اتفاق کیا ہے۔ پہلے سے موجود گیس پائپ لائن کا آغاز سنہ 2019 میں 400 بلین ڈالر سے زیادہ کے 30 سالہ معاہدے کے تحت ہوا تھا۔

تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ سائبیریا سے گیس کی نئی پائپ لائن کب بچھائی جائے گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ