چک ویپنر: محمد علی کو گھٹنوں پر لانے والے غیر معروف باکسر جن پر بننے والی فلم کو تین آسکرز ملے
چک ویپنرنے محمد علی کے ساتھ مقابلے میں آخری راؤنڈ تک دفاع کیا
چھ فٹ، تین انچ قد والے چُک ویپنر کے شانے تو چوڑے ہیں لیکن ان کے ہاتھ مڑے تڑے ہیں: ان کی ہڈیوں کی سختی سے ان کی مکے مارنے کے لیے وقف زندگی کا اظہار ہوتا ہے۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرا بہت خون بہہ رہا تھا۔‘ ویپنر نے بی بی سی کے سپورٹس صحافی بین یاٹ کو بتایا: ’میں نے اپنے پورے کریئر میں 328 ٹانکے لگوائے ہیں۔ میں نے 16 سالوں میں نو بار اپنی ناک توڑوائی ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اس کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔‘
باکسنگ کے دنوں میں ان کے چہرے کو زخموں، چوٹوں یا رنگ میں کٹنے کا اس قدر امکان رہتا تھا کہ انھوں نے اپنے اس عرفی نام کو قبول کر لیا تھا جس سے دوسرے ان کی توہین کے لیے پکارتے تھے۔ اور یہ نام تھا ’بایونے بلیڈر‘ اور یہ ان کے شہر کے حوالے سے دیا گیا تھا جہاں وہ اب بھی رہائش پزیر ہیں۔
چک ویپنر نیوجرسی کے بےویونے میں پلے بڑھے
ویپنر کی بڑی رات
ویپنر اپنی شہرت کے مطابق جینے والے باکسر تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے کریئر کی سب سے مشہور فائٹ وہ تھی جس کا اختتام اس حالت میں ہوا تھا کہ ان کا پورا جسم خون میں نہایا ہوا تھا۔
ویپنر سنہ 1975 میں دنیا کے معروف ترین باکسر محمد علی سے مقابلے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’محمد علی کے ساتھ میری فائٹ کے ریفری ٹونی پیریز تھے۔‘
’میرے نیچے گرنے کے بعد انھوں نے کہا ’چک، تمھارا بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے۔‘
’میں نے کہا کہ ’کوئی بات نہیں، مجھے یہ راؤنڈ دے دو۔ مجھے لڑائی ختم کرنے دو، میں ٹھیک ہوں۔‘ پھر ٹونی نے کہا، ’ٹھیک ہے چک، میں نے کتنی انگلیاں اٹھا رکھی ہیں، گن کر بتاؤ؟‘
یاد رہے کہ باکسنگ میں مخالف باکسر کی شدید ضرب لگنے کے نتیجے میں گرنے والے باکسر سے ریفری پوچھتا ہے کہ وہ ہاتھ کی انگلیاں گِن کر بتائے تاکہ ریفری یہ اندازہ لگا سکے کہ آیا لڑنے والا اپنے ہوش و حواس تو نہیں کھو بیٹھا۔
’میں نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ ’میں کتنی بار اندازہ لگا سکتا ہوں؟‘
ویپنر کی درخواست اور اوہائیو کے رِچفیلڈ کولیزیم میں 15,000 پرجوش تماشائیوں کی مایوسی کے باوجود ریفری نے فائنل راؤنڈ سے قبل مقابلہ ختم کر دیا۔ خیال رہے کہ فائنل راؤنڈ میں صرف 19 سیکنڈ باقی تھے۔
محمد علی کے ساتھ ہونے والے اس مقابلے کے بعد ویپنر کو 23 ٹانکے لگے اور وہ علی کو ملنے والی انعامی رقم کا صرف 15 حصہ اپنے ساتھ لے گئے۔ لیکن انھیں اپنی چوٹوں سے زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ وہ اپنے کارنامے کی عظمت سے محروم رہ گئے۔
نویں راؤنڈ میں محمد علی کو گرانے کے بعد وہ ان کے غصے کا شکار بنے اور آخری میں جب خون میں شرابور تھے تو ریفری نے میچ روک دیا
ناقابل تصور
36 سال کی عمر میں ویپنر پارٹ ٹائم ہیوی ویٹ فائٹر تھے۔ ان کا تعلق نیو جرسی کے کسی نامعلوم حصے سے تھا اور علی سے لڑنے سے پہلے شاید ہی کوئی ان پر پیسہ لگانا چاہتا ہو۔
انھوں نے پہلے کبھی کسی ماہر کوچ سے تربیت حاصل نہیں کی تھی اور پھر بھی ان کی کارکردگی توقعات سے کہیں بہتر تھی۔
ویپنر نے نہ صرف اس وقت کے عالمی چیمپیئن (محمد علی) کے خلاف تقریباً پوری لڑائی لڑی اور اب تک کے باکسنگ گلووز پہننے والے عظیم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک علی کو حقیقی معنوں میں گرانے والے تاریخ کے چوتھے شخص بن گئے۔ حالانکہ صرف 10 ماہ پہلے ہی علی نے جارج فورمین کو تباہ کر کے اپنا عالمی خطاب حاصل کیا تھا۔
میچ کی اس تصویر کا ایک ایسے شخص پر فوری اثر ہوا جو لاس اینجلس کے ایک فلم تھیئٹر میں ٹیلی ویژن پر وہ مقابلہ دیکھ رہا تھا۔
ویپنر کی بہادری اور جس طرح سے علی کینوس پر گرے اس سے انھیں اس قدر ترغیب ملی کہ وہ اپنی نئی سکرپٹ کے کردار کا خاکہ بنانے کے لیے اپنے گھر کی طرف بھاگے۔
اس وقت تک ان کے تمام سکرپٹس کو مسترد کر دیا گیا تھا اور کوئی نادر اور نیا خیال ہی انھیں آخری موقع دے سکتا تھا۔ وہ اپنی سکرپٹ کے ڈرافٹ پر واپس گئے اور ’ساڑھے تین دن کے دوران اپنی تخلیقی صلاحیتوں جنون‘ کے نتیجے میں ایک دھو دیے جانے والے باکسر کے اٹھ کھڑے ہونے کی کہانی لکھ ڈالی۔
اس سکرپٹ کو ایک فلم میں ڈھالا گیا اور یہ فلم نہ صرف سنہ 1976 کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی بلکہ اس نے سنہ 1977 میں تین آسکر جیتے اور اس نے سلویسٹر اسٹالون کے کریئر کا آغاز بھی کیا، اور یہ پچھلے 50 سالوں سے بار بار پڑھی جانے والی سب سے مشہور کہانیوں میں سے ایک ہے۔
ویپنر وہ شخص ٹھہرے جس کے خون اور بہادری نے راکی بالبوا کے کردار کو متاثر کیا۔ ان کے لیے یہ اگلے باب کا آغاز تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
محمد علی کے خلاف ویپنر کی قوت مدافعت اور خون میں لت پت ہونے کی تصویر فلم راکی کے لیے ترغیب بنی
علی سے پہلے
سنہ 2022 کے آخر میں خلیج نیوارک کے ساحل پر نیویارک کے رخ پر ویپنر کے کانسی کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔
یہ اس شہر کی جانب سے ان کی خدمات کا اعتراف تھا جو انھوں نے اس شہر کے لیے کیا اور جہاں ان کی زندگی میں بے شمار موڑ آئے۔
ویپنر نے اعتراف کیا: ’یہ درست ہے کہ اصل میں میں نیویارک میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن میرے والدین کی علیحدگی کے بعد جب میں ڈیڑھ سال کا تھا تو میں جرسی چلا گیا۔‘
اور بے یونے کی سڑکوں پر جہاں پارک کے قریب اب ان کا مجسمہ کھڑا ہے ویپنر نے اپنے باکسنگ کے ہنر سیکھنا شروع کیا۔
انھوں نے بتایا: ’جہاں میں بڑا ہوا، وہاں ہمیشہ دو یا تین گینگ ہوتے تھے۔ اور کم و بیش ہمیشہ آپ کو وہاں جانا پڑتا تھا اور زندہ رہنے کے لیے دوسرے گینگ کے سب سے طاقتور آدمی کو مارنا پڑتا تھا، جو میں کرتا تھا۔ میں تقریباً ہر ہفتے لڑتا تھا۔‘
اور یہ صرف ان کی جسمانی طاقت کی بات نہیں تھی۔ ویپنر ایک ہونہار ایتھلیٹ بھی تھے، جو مقامی ٹورنامنٹس میں اپنی ہائی سکول باسکٹ بال ٹیم کے لیے کھیلتے تھے۔ تاہم، جب انھیں یہ احساس ہوا کہ ’لوگوں کو مار کر زیادہ پیسے کمائے جا سکتے ہیں‘ تو انھوں نے باکسنگ کا انتخاب کیا۔
میرینز میں اپنے تین سالہ دور کے بعد تک انھوں نے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود جب 18 سال کی عمر میں انھوں نے اپنے پہلے شوقیہ مقابلے میں حصہ لیا تو انھیں معلوم ہو گیا کہ انھیں ان کی جگہ مل گئی ہے۔
انھوں نے کہا: ’میں ان لڑکوں سے آسانی سے جیت جاتا تھا۔ انھوں نے کبھی میرے انداز جیسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔‘
پیشہ ورانہ مقابلے میں آنا
ویپنر نے سنہ 1964 میں پیشہ ور ہونے تک مقامی اور علاقائی باکسنگ کے مقابلے میں بے شمار فتوحات حاصل کر لی تھیں۔
انھوں نے ہار سے زیادہ جیت کا مزہ لیا تھا اور رنگ میں بسٹر میتھیس، جارج فورمین، جو بگنر، ایرنی ٹیریل اور محمد علی جیسے سٹار باکسروں سے کانٹے کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
انھیں سنہ 1970 میں سونی لسٹن کے خلاف فائٹ بھی یاد ہے، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ فائٹ انھیں مشہور کر دے گی۔
انھوں نے بتایا: ’اس نے میری ناک توڑ دی، مجھے 71 ٹانکے لگے اور میرا بایاں جبڑا ٹوٹ گیا۔ اس کے باوجود میں 10ویں راؤنڈ میں بھی اسے دوڑا رہا تھا جب ڈاکٹر نے انھیں روک دیا کیونکہ ان کا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔‘
ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے علاوہ انھیں اُن کے کریئر میں جتنے بھی ٹانکے لگے اس کے لیے انھوں نے درد کو کم کرنے کے لیے برف کے استعمال کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ چیزیں تکلیف دیتی ہیں لیکن میں نے خود کو اس کے لیے تیار کیا تھا۔ تقریباً ہر لڑائی میں میں جانتا تھا کہ میں خود کو آٹھ دس جگہ چوٹ پہنچاؤں گا۔ لیکن وہ سب صرف ایک خراش تھی۔‘
ویپنر رنگ میں مرنے کے لیے تیار رہتے تھے اور یہ جانتے تھے آخرکار مقابلہ ان کے حق میں ہو گا۔
انھوں نے کہا: ’لسٹن سے فائٹ کے بعد، میں نیم کوما کی حالت میں تھا اور صدمے میں تھا، میرے ڈاکٹر نے میری ماں کو بتایا کہ میں بہت بری طرح پیٹا گيا ہوں۔ میں واقعی سوچ رہا تھا کہ کیا میں (باکسنگ) جاری رکھنا بھی چاہتا ہوں۔ لیکن پھر میں نے سوچا، مجھے کوشش کرنی ہوگی، مجھے دوبارہ کوشش کرنی ہوگی۔ مجھے ایک بار اور کوشش کرنی ہے۔‘
علی سے مقابلہ
وہ واپس آئے اور دو جیت اور تین شکست کے بعد ویپنر نے سنہ 1972 سے 1974 تک آٹھ مسلسل آٹھ فتوحات حاصل کیں جس نے پروموٹر ڈان کنگ کی توجہ حاصل کی۔
کنگ نے رچفیلڈ کولیسیم میں ویپنر اور محمد علی کے درمیان لڑائی کی تجویز پیش کی اور اسے ’گِو دی وائٹ گائے اے چانس فائٹ‘ کہا گیا۔
سیاہ فام مردوں کے زیر تسلط ہیوی ویٹ باکسنگ کے سنہری دور میں کنگ نے ایک قسم کے خبط میں سوچا کہ اگر علی اپنے نئے دور کے شروع میں کسی سفید فام امریکی حریف کا سامنا کریں تو وہ وسیع تر سامعین کو اپیل کر سکتے ہیں۔
لیکن کنگ کے دو نسلوں کی جنگ کے معاندانہ مقابلے کی امید کو اس وقت زک پہنچا جب علی کے حریف ویپنر ان کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
ویپنر کہتے ہیں: ’میں محمد علی کے ساتھ رنگ میں شامل ہونے پر بہت پُرجوش تھا اور اسے اپنے لیے کسی اعزاز کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ تاریخ کا سب سے مشہور آدمی۔ مجھے بہت فخر تھا۔‘
جب گھنٹی بجی تو ویپنر نے علی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی دوستی کو ایک طرف رکھ دیا اور جیتنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرنا شروع کر دیا۔
ویپنر بتاتے ہیں: ’میری حکمت عملی اسے دھکیلنا تھی، کم از کم پہلے چار یا پانچ راؤنڈز تک اسے تھکانا تھا، اور شاید آخری چند راؤنڈز میں اسے شکست دینا تھا۔‘
عوام کو توقع تھی کہ ویپنر جلد ہی گر جائے گا، لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے ویپنر کی غیر متوقع دلیری پر انھیں سراہنا شروع کر دیا۔
وہ ’علی! علی!‘ کے نعرے سے محمد علی کو چیئر کرنے کے بجائے انھوں نے ’چُک! چُک!‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ہارنے والے کے لیے چیئر کرنا شروع کر دی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس مقابلے کے پروموٹرز اسے کالے اور گورے کے نسلی مقابلے کے طور پر پیش کر رہے تھے
’میں نے اسے نیچے گرا دیا‘
حمایت سے خوش ہو کر ویپنر نے علی کے دفاع میں ایک دراڑ کا پتہ لگا لیا۔ نویں راؤنڈ میں، انھوں نے اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے گھونسا وہیں جڑ دیا۔
ویپنر نے چیمپیئن کے بائیں مکے کے وار کو خالی کرتے ہوئے علی کو داہنی طرف ایسا گھونسا مارا کہ علی لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر آ رہے۔
علی کے کونے سے بعد میں یہ دلیل دی کہ ویپنر نے ان کے آدمی کو پھنسایا تھا اور علی اپنا توازن کھو بیٹھے تھے، لیکن ویپنر اپنی بات پر قائم رہے۔
وہ کہتے ہیں: ’آپ مجھے مار ڈالیں، لیکن میں نے اسے گرا دیا تھا۔ میں نے اسے مکا مارا اور آپ اسے ری پلے میں دیکھ سکتے ہیں، میں نے اسے کندھے پر زور سے مارا، وہ توازن کھو بیٹھا اور میں نے اسے نیچے گرا دیا اور یہ اسے معلوم تھا۔‘
علی کو اپنی نیوٹرل کورنر پوزیشن سے اٹھتے دیکھ کر ویپنر نے علی میں ایک تبدیلی محسوس کیا۔
انھوں نے کہا: ’میں اس کی آنکھیں دیکھ سکتا تھا اور میں نے سوچا: اب میں نے واقعی اسے ناراض کرنا ہے! تب ہی اس نے جوابی وار کرنا اور میری توہین کرنا شروع کر دیا۔‘
صرف گر جانے کی معمولی بات سے غصے میں آ کر علی نے ویپنر کو مارنا شروع کیا، جب کہ ہجوم ہارنے والے کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہہ رہی تھی کہ ڈٹے رہو۔
علی کی پنالٹی کا مطلب یہ تھا کہ ویپنر صرف 19 سیکنڈ سے فائنل بیل تک نہیں پہنچ سکے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب علی گھٹنوں پر آ گئے تھے
علی کے بعد
وہ شہرت جو علی کے مقابل رزمیہ شکست ملی اور فلم ’راکی‘ کے ساتھ ان کی وابستگی نے ویپنر کو ایک نئی سمت دی۔
پیسہ کمانے کی کوشش میں کنگ نے ویپنر اور ریسلنگ لیجنڈ آندرے رینے روسموف جنھیں ‘آندرے دی جائنٹ’ کہا جاتا تھا کے درمیان نیویارک کے شیا اسٹیڈیم میں ایک میچ کا اہتمام کیا۔
اگرچہ یہ ایک ڈرامائی میچ تھا لیکن اس میں ویپنر ناک آؤٹ ہو گئے۔
وہ کسی بھی طرح سے اس کا سب سے غیر معمولی حریف نہیں تھا۔
بعد میں اپنے کریئر میں ویپنر نے دو بار نیو جرسی کے ایک بار میں ریسلنگ میچوں میں وکٹر نامی ریچھ کا سامنا کیا۔
جانور کے سر پر ضرب لگنے کے بعد اس نے ویپنر کو رنگ کے دوسری طرف پھینک دیا۔
باکسنگ کے علاوہ وہ دیگر سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔
وہ الائیڈ لیکر کمپنی کے سیلز مین بھی رہے اور اضافی آمدنی کے لیے وہ لوگوں کے ’مسائل‘ بھی حل کرتے اور واجب الادا رقم حاصل کرتے تھے۔
ویپنر کا کہنا ہے کہ ’اسے آپ اپنے دوستوں کے لیے میرا احسان کرنا کہہ سکتے ہیں۔ میں ادھر ادھر جاتا اور لوگوں سے اچھے طریقے سے [ان کے واجب الادا رقم کے لیے] دینے کے لیے کہتا اور پھر مجھے انھیں تھپڑ مارنا یا کچھ اور کرنا بھی پڑ سکتا تھا۔‘
لیکن سنہ 1979 میں باکسنگ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے معاملات بگڑ گئے۔
ویپنر پارٹی کرنے لگے اور بہت زیادہ کوکین لینے لگے۔ یہ ایک ایسا مجموعہ تھا جس کی وجہ سے وہ اب کے سپر سٹار اسٹالون کے ساتھ ’راکی ٹو‘ میں کام کرنے کے لیے دیے گئے آڈیشن میں ناکام رہا۔
سنہ 1985 میں انھیں منشیات رکھنے کا مجرم پایا گیا اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، اس فیصلے کے بعد انھیں نیویارک کی جیل میں بھیج دیا گيا۔
بہت سے لوگ جیل کو ایک مسئلہ کے طور پر دیکھیں گے، لیکن ویپنر کے لیے جیل کوئی بڑی بات نہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’میں ٹھیک تھا۔ میں جہاں بھی گیا، لڑکے ’چیمپئن، چیمپئن!‘ کا نعرہ لگاتے اور کہتے کہ ’کیسے ہو، چک؟‘
’آپ جانتے ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں صحیح لوگوں کے ساتھ تھا [جیل میں]۔ میں محلے کے کچھ بچوں کے پاس پہنچ گیا تھا جن کے ساتھ میں کبھی ایک یونٹ کی طرح تھا۔ میں انھیں جانتا تھا، وہ مجھے جانتے تھے۔‘
تین سال کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔
حقیقی راکی
ویپنر کو اس وقت تک فلم کے لیے کریڈٹ نہیں دیا گیا تھا۔ انھوں نے اسٹالون پر راکی فرنچائز بنانے میں ان کے کردار کے لیے معاوضے کا مقدمہ دائر کر دیا۔
یہ کیس 2006 میں ایک نامعلوم رقم کے عوض ختم ہوا تھا اور اس نے انھیں یہ کہنے کا حق دیا کہ وہ باضابطہ طور پر وہی شخص ہیں جس پر فلم بنی تھی۔
اس کے علاوہ انھیں یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنی زندگی پر کسی قانونی چارہ جوئی کے بغیر فلم بنا سکتے ہیں جو کہ سنہ 2016 میں سامنے آئی۔
’چک‘ فلم میں ویپنر کا کردار ادا کرنے والے اداکار لیو شریبر کا کہنا ہے کہ چک کی کہانی کا سب سے زیادہ متحرک حصہ راکی والا حصہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے کہ انھوں نے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز سے کیسے نمٹا۔
‘انھوں نے اپنے ہی شیطانوں سے لڑا، جو ان بڑے ہیوی ویٹ سے زیادہ سخت تھے جس سے انھوں نے رنگ میں مقابلہ کیا تھا۔ اور وہ اپنی ثابت قدمی اور اپنے دلیری کی وجہ سے جیتے۔
‘ہر بار جب محمد علی اس کے منہ پر ناقابل یقین مکہ مارتے وہ زیادہ خوش نظر آتے۔ آپ اس طرح کے آدمی کو نہیں مار سکتے۔ یہ چک کا ناقابل تسخیر جذبہ تھا۔’
اس جذبے کو کانسے میں ڈھل کر لافانی ہونے میں کچھ سال لگے، جیسا کہ سلویسٹر اسٹالون کے کردار کے مجسمے کے ساتھ ہوا تھا جو سنہ 1980 سے فیلیڈیلفیا میوزیم آف آرٹ کے زینے کو افتخار بخش رہا ہے۔
انھوں نے کہا: ‘مجھے فخر تھا کہ انھوں نے سلویسٹر کا مجسمہ لگایا۔ وہ اس کے مستحق تھے۔ اور وہ ایک خوبصورت مجسمہ ہے۔’
میں نے سنا ہے کہ انھوں نے راکی کے مجسمے کے لیے 350,000 امریکی ڈالر ادا کیے ہیں۔ یہاں (میرا جو مجسمہ لگا ہے) اس کی قیمت بہت کم ہے لیکن میرے لیے یہ بہت عظیم ہے۔’
آخر کار حقیقی زندگی کے راکی کو ان کے افسانوی کردار جیسا اعزاز مل ہی گیا۔
Comments are closed.