امریکی وزیر خارجہ: چین روس کو ہتھیار فراہم کر سکتا ہے
امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ چین روس کو یوکرین جنگ کے لیے ہتھیار اور گولہ بارود دینے پر غور کر رہا ہے۔
انتھونی بلنکن نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ چینی کمپنیاں پہلے ہی روس کو ’غیر مہلک مدد‘ فراہم کر رہی ہیں اور نئی معلومات کے مطابق بیجنگ اب ’مہلک مدد فراہم کر سکتا ہے‘۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اس اضافی ترسیل کا مطلب چین کے لیے ’سنگین نتائج‘ ہوں گے۔
چین نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ ماسکو نے ان سے فوجی سازوسامان کی درخواست کی ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اتحادی ہیں اور انھوں نے ابھی تک روس کے حملے کی مذمت نہیں کی ہے لیکن انھوں نے تنازع میں غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی ہے اور امن کا مطالبہ کیا ہے۔
انتھونی بلنکن سنیچر کو میونخ سکیورٹی کانفرنس میں چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی سے ملاقات کے بعد سی بی ایس سے بات کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران انھوں نے اس امکان کے بارے میں ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا کہ چین روس کو مہلک مدد فراہم کرے گا۔
ان کا کہنا تھا ’آج تک ہم نے دیکھا ہے کہ چینی کمپنیاں یوکرین میں استعمال کے لیے روس کو غیر مہلک مدد فراہم کرتی رہیں۔ ہمیں جو تشویش ہے وہ ان معلومات کی بنیاد پر ہے جو ہمارے پاس موجود ہیں کہ وہ مہلک مدد فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ امریکہ کو چین کے ممکنہ منصوبوں کے بارے میں کیا معلومات ملی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکہ کے خیال میں چین روس کو کیا دے سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بنیادی طور پر ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ گولہ بارود بھی ہوگا۔
امریکہ نے روس کو ہزاروں جنگجو سپلائی کرنے والے کرائے کے ویگنر گروپ کو مبینہ طور پر یوکرین کی سیٹلائٹ تصاویر فراہم کرنے کے الزام میں ایک چینی کمپنی پر پابندی عائد کر دی ہے۔
انتھونی بلنکن نے سی بی ایس کو بتایا کہ ’یقیناً چین میں نجی کمپنیوں اور ریاست کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اگر چین نے روس کو ہتھیار فراہم کیے تو یہ ہمارے لیے اور ہمارے تعلقات میں سنگین مسئلہ پیدا کرے گا۔
فروری کے اوائل میں امریکہ کی جانب سے ایک مبینہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرائے جانے کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات پہلے ہی خراب تھے۔ فریقین نے غصے سے بھرے الفاظ کا تبادلہ کیا، لیکن یکساں طور پر دونوں ہی اس واقعے سے شرمندہ دکھائی دیے اور آگے بڑھنے کے لیے تیار نظر آئے۔
لیکن اگر چین یوکرین میں روسی افواج کی مدد کے لیے ہتھیار پہنچاتا ہے تو امریکہ اور چین کے تعلقات بہت زیادہ خراب ہونے کا امکان ہے۔
انتھونی بلنکن نے چین کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے واضح طور پر تنبیہ کی ہے۔
انتھونی بلنکن نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو اس بات پر تشویش ہے کہ چین روس کی معیشت کو تباہ کرنے والی مغربی پابندیوں سے بچنے میں روس کی مدد کر رہا ہے۔ روس کے ساتھ چین کی تجارت بڑھ رہی ہے، اور یہ روسی تیل، گیس اور کوئلے کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔
امریکہ سمیت نیٹو کے ارکان یوکرین کو ٹینکوں سمیت مختلف قسم کے ہتھیار، گولہ بارود اور سامان بھیج رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ مغرب کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یوکرین کے پاس وہ سب ہو جو آئندہ مہینوں میں روس کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی کے لیے اسے درکار ہے۔ روس اس وقت یوکرین کے مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کی کوشش کر رہا ہے جہاں شدید ترین لڑائی ہوئی ہے۔
’کچھ قوتیں ہیں جو بظاہر نہیں چاہتیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں‘
چینی سفارتکار وانگ یی نے کل میونخ میں کہا کہ چین نے یوکرین کی جنگ کے لیے ’نہ تو بے حس و حرکت کھڑا ہے اور نہ ہی آگ پر ایندھن چھڑک رہا ہے‘۔
وانگ یی نے کہا کہ چین ایک دستاویز شائع کرے گا جس میں تنازع کو حل کرنے کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستاویز میں کہا جائے گا کہ تمام ممالک کی علاقائی سالمیت کا احترام کیا جانا چاہیے۔
وانگ یی کا کہنا تھا کہ ’میرا مشورہ ہے کہ ہر کوئی سکون سے سوچنا شروع کرے، خاص طور پر یورپ کے دوست کہ ہم اس جنگ کو روکنے کے لیے کس قسم کی کوششیں کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کچھ قوتیں ہیں جو بظاہر نہیں چاہتیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں، یا جنگ جلد ختم ہو‘ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی مراد کن قوتوں سے ہے۔
اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی کے مطابق، چینی صدر، مسٹر شی، جمعہ 24 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے کی سالگرہ کے موقع پر ’امن خطاب‘ کرنے والے ہیں۔
تاجانی نے اطالوی ریڈیو کو بتایا کہ مسٹر شی کی تقریر میں روس کی مذمت کیے بغیر امن کا مطالبہ کیا جائے گا۔
روس کو شکست دینا ضروری ہے اسے کچلنا نہیں: میکرون
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ وہ یوکرین میں شکست سے روس کو کچلا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔
فرانسیسی میڈیا سے بات کرتے ہوئے میکرون نے مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ کیئو کے لیے فوجی تعاون میں اضافہ کریں اور کہا کہ وہ ایک طویل جنگ کے لیے تیار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ روس کو یوکرین میں شکست ہو اور میں چاہتا ہوں کہ یوکرین اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے قابل ہو۔
لیکن انھوں نے ان لوگوں کی مخالفت کی جو جنگ کو روس تک بڑھا کر اسے بحیثیت قوم ’کچلنا‘ چاہتے ہیں۔
یہ تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آئے جب عالمی رہنما میونخ سکیورٹی کانفرنس میں جمع ہوئے، جس میں کیئو کو ہتھیاروں کی سپلائی تیز کرنے اور ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے وعدے کیے گئے۔
فرانسیسی صدر نے کہا ’میں نہیں سمجھتا، جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روس کی مکمل شکست کے لیے اس کی سرزمین پر حملہ کرنا چاہیے‘۔
اخبار لی جرنل ڈو ڈیمانچے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’وہ مبصرین ہر چیز سے بڑھ کر روس کو کچلنا چاہتے ہیں۔ یہ فرانس کی پوزیشن کبھی نہیں رہی اور نہ ہی یہ ہماری پوزیشن ہوگی۔‘
جمعے کو میونخ میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میکرون نے اصرار کیا کہ اب ماسکو کے ساتھ بات چیت کا وقت نہیں ہے۔
لیکن انھوں نے امن مذاکرات کو حتمی مقصد قرار دینے سے گریز نہیں کیا۔
صدر نے تجویز پیش کی کہ اتحادیوں کی حمایت یافتہ یوکرین کی فوجی کوششیں روس کو دوبارہ میز پر لانے اور دیرپا امن قائم کرنے کا واحد راستہ ہے۔
انھوں نے روس میں حکومت کی تبدیلی کے امکان کو بھی مسترد کر دیا اور دنیا بھر میں اسی طرح کی کوششیں ’مکمل ناکام‘ رہیں۔
فراسن کے صدر کے تبصروں کے باوجود، یوکرین کے رہنماؤں کے لیے مذاکرات ابھی فوری ترجیح نہیں۔
جمعے کو وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے میونخ کانفرنس میں ماسکو کو مدعو نہ کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
انھوں نے کہا کہ روسی رہنماؤں کو اس وقت تک میز پر مدعو نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ ’دہشت گرد ریاست لوگوں کو مارتی رہے گی، جب تک کہ وہ بموں، میزائلوں اور ٹینکوں کو بین الاقوامی سیاست کی دلیل کے طور پر استعمال کرتی ہے۔‘
Comments are closed.