اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک ہی الزام میں مختلف شہروں میں درج مقدمات کے خلاف یکجا کیسز کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ جاوید لطیف یا شیخ رشید اسلام آباد میں بات کریں تو پورے پاکستان میں ان کے خلاف مقدمہ کیسے ہو سکتا ہے؟
دورانِ سماعت وائس چیئرمین پاکستان بار، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور شیخ رشید کے وکیل سردار عبدالرازق بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے عوامی مسلم لیگ کے گرفتار سربراہ شیخ رشید کی دوسرے صوبے منتقلی روکنے، پولیس طلبی کے خلاف کیس، میاں جاوید لطیف کی پریس کانفرنس کے بعد درج مقدمے کے خلاف کیس سمیت تمام کیسز یکجا کر کے سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جاوید لطیف یا شیخ رشید اسلام آباد میں بات کریں تو پورے پاکستان میں ان کے خلاف مقدمہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پہلے انہوں نے ایک سینئر خاتون افسر کے خلاف پشاور میں مقدمہ درج کیا، مریم اورنگزیب، شاہرہ شاہد، جاوید لطیف سمیت دیگر کے خلاف پشاور میں مقدمہ درج ہوا، شیخ رشید نے اسلام آباد میں بات کی تو ان کے خلاف حب، لسبیلہ اور موچکو میں مقدمہ کیسے درج ہو سکتا ہے؟
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے گزشتہ سماعت کے عدالتی فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے آخری فیصلے میں مجھے نوٹس کیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ آپ کو عدالتی معاونت کے لیے نوٹس کیا تھا، اسلام آباد میں بات ہو تو اس کا دیگر علاقوں میں مقدمہ کیسے ہو سکتا ہے؟ قتل کیس میں کسی دوسری جگہ مقدمہ نہیں ہو سکتا، دہشت گردی کا مقدمہ بھی وہیں ہو گا جہاں واقعہ پیش آیا ہو، صغریٰ بی بی کیس کا جو حوالہ دیا جا رہا ہے اس میں گراؤنڈز مختلف تھے، عدالت کو صرف اس پر مطمئن کریں کہ ایک کیس پر پورے پاکستان میں مقدمہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ صغریٰ کیس میں کہا گیا کہ ایک پولیس اسٹیشن میں دوسرا مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جاوید لطیف یا شیخ رشید نےبہت غلط بات کی ہو گی، بس اتنا بتانا ہے کہ ان کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کیسے ہو سکتے ہیں؟ دہشت گردی، قتل اور چوری کا مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تو دو الفاظ کا مقدمہ ملک بھر میں کیسے درج ہو سکتا ہے؟ ایک خاتون افسر کو بڈھ بیر لے جاؤ بے شک کیس میں کچھ ہو نہ ہو۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالتی سوالات پر جواب جمع کرنے کے لیے وقت دینے کی استدعا کر دی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ آپ لوگ لاء افسران ہیں، کسی سیاسی جماعت کے رہنما نہیں، آپ لوگ یہاں بطور لاء افسران پیش ہو رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ایک مقدمہ پورے ملک میں کہیں بھی درج ہو سکتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جاوید لطیف کے خلاف بڈھ بیر پشاور کا مقدمہ ٹھیک ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ میں ان کو بھی کہہ رہا ہوں کہ جہاں واقعہ ہو وہاں مقدمہ درج کیا کریں، اگر کسی کے بیان سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو اس کا کیا کیا جائے؟ شیخ رشید نے جو بیان دیا ہے وہ الفاظ کم از کم میں اس عدالت میں نہیں کہہ سکتا۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
عدالتی معاون و وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل علیم عباسی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جگہ پر واقعہ ہو جائے تو مقدمہ وہیں ہو گا، کسی صوبے کے پاس اختیار نہیں کہ اسلام آباد کے واقعے پر اپنے صوبے میں مقدمہ درج کرے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسلام آباد میں واقعہ ہو اور بلوچستان میں مقدمہ درج ہو۔
عدالت نے وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل علیم عباسی ایڈووکیٹ کو بھی تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کر دی۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ جاوید لطیف کیس میں لاہور اور پشاور میں ایک، ایک مقدمہ درج ہوا، کسی بھی واقعے پر پہلی ایف آئی آر کہیں بھی ہو سکتی ہے۔
عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو بھی تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کر دی۔
شیخ رشید کی دوسرے صوبے منتقلی روکنے اور پولیس طلبی کے خلاف کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، جنہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں شیخ رشید کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حب میں جو مقدمہ درج ہے وہ بلوچستان نہیں ہے؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ حب میں جو مقدمہ درج ہوا وہ سندھ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
عدالت نے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار، اسلام آباد ہائی کورٹ بار، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 20 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔
Comments are closed.