چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے ریمارکس کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا میں اٹارنی جنرل کی وضاحت پر بھی ہنگامہ ہوگیا۔
سینیٹ میں گزشتہ روز جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس پر ہنگامہ ہوا تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت کی۔
آج ایوان بالا میں اس وضاحت پر ہنگامہ ہوگیا، حکومت اور اپوزیشن کے اراکین آمنے سامنے آگئے، سینیٹرز نے اٹارنی جنرل کو نشانے پر رکھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے پوچھ لیا کہ اٹارنی جنرل اگر پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اتنے حامی ہیں تو جب عدالت کی طرف سے پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے تب پارلیمنٹ کا دفاع کیوں نہیں کرتے؟
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل پارلیمنٹ کی بنیاد پر بات نہیں کر سکتے، اس حوالے سے اٹارنی جنرل کو خط لکھا جائے۔
دوران اجلاس وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ وہ سپریم کورٹ میں موجود تھے، چیف جسٹس نے ایک وزیراعظم کے ایماندار ہونے کے ریمارکس نہیں دیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کو سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ اٹارنی جنرل نے ایک خط بھیجا ہے جو میرے پاس امانت ہے۔
اپوزیشن لیڈر شہزاد اوسیم نے کہا کہ ایک بڑی جماعت کو آپ نے دیوار کے ساتھ لگایا ہوا ہے، ملک آئین کے تحت چلتا ہے تو الیکشن کرائیں۔
اس پر وزیر قانون نے کہا کہ آٹھ مہینے لاجز میں بیٹھ کر آجائیں گے تو کیسے چلے گا، لاڈ پیار والے استعفے قبول ہوئے تو آپ نے رونا شروع کر دیا، اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنا دامن دیکھیں۔
سینیٹ میں ہنگامہ آرائی کے باعث اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
Comments are closed.