ترکی زلزلہ:105 گھنٹے بعد ملبے سے نکالے جانے والے پانچ سالہ اراس، جن کے جسم کا درجہ حرارت 28 ڈگری سیلسیس تک گر گیا تھا

  • مصنف, نک بریک، نومی شیربل بال، ڈوگو ایروگلو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ترکی

ترکی

ترکی کے ایک ہسپتال میں پانچ سال کا اراس بڑے سے بسترپرکمر کے سہارے ٹیک لگائے بیٹھا ہے اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹی سی کھلونا گاڑی ہے جس کے ساتھ وہ کھیل رہا ہے۔

ننھے اراس کی کہانی بھی ترکی کے زلزلے سے نکلنے والے معجزات میں سے ایک ہے۔

امدادی ٹیموں نے چھوٹے سے اراس کو زلزلے کے 105 گھنٹےگزرنے کے بعد تباہ حال شہر کارامان مارس میں موجود اس کےگھر کے ملبے کے انبار سے نکالا تھا۔

جب ریسکیو آپریشن میں بازیاب کروانے کے بعد اراس کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں لایا گیا جب تک شدید سردی کے باعث انھیں ہائپوتھرمیا شروع ہو چکا تھا اور ان کے جسم کا درجہ حرارت کم ہو کر 28 ڈگری سیلسیس تک آگیا تھا۔

اس ملبے سے اراس کو توزندہ نکال لیا گیا تاہم اس کی سات سالہ بہن ہیرانور ، نو سالہ بھائی الپ اوروالد نہ بچ سکے۔

اراس بھی ان بے شمارافراد میں شامل ہیں جن کے خاندان اس تباہ کن قدرتی آفت کے باعث ختم ہو گئے۔

اراس کے سرہانے موجود ان کے عمررسیدہ دادا مہمت اپنے پوتے کے بالوں کو آہستہ آہستہ سہلا رہے ہیں۔

’اراس ایک تمیز داراور مخلص بچہ ہے۔ اس کی شخصیت مضبوط ہے اور جس میں کوئی بگاڑ موجود نہیں۔‘

اراس کے دادا مہمت اگرچہ اب 72 سال کےہو چکے ہیں تاہم وہ بقایا زندگی اراس کی دیکھ بھال ایسے ہی کرنے کے لیے پر عزم ہیں جیسے وہ ان کا پوتا نہیں اپنا بیٹا ہو۔

امدادای کارکوں نے اس کی جان بچا کر بہت اچھا کیا اور خدا کے فضل سے اراس کو زندہ سلامت ہمارے حوالے کر دیا۔‘

ڈاکٹر جب پانچ سالہ اراس کے سوجے ہوئے بائیں پاؤں پر پٹی بدلتے ہیں تو وہ درد سے کراہتا ہے تاہم وہ بہت تیزی سے صحت یاب ہو رہا ہے۔

زلزلے کی تباہی میں اراس کی ماں کو بھی بچا لیا گیا ہے تاہم اس سانحے کے بعد سے اراس اپنی ماں سے نہیں مل سکا کیونکہ وہ شہر کے ایک اور دوسرے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ڈاکٹرز کو پوری امید ہے کہ وہ بھی جلد صحت یاب ہو جائیں گی۔

ترکی

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹرمہمت نے اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیےاستنبول سے ز کارامان مارس تک کا سفر انتہائی عجلت میں کیا تھا۔

جس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں اراس کو داخل کر کے اس کی جان بچائی گئی وہ اسرائیلی ڈاکٹرز کا قائم کیا ہوا ہے۔

لیکن جب ہم پیر کو اس وارڈ میں سے گزرے تو دیکھا کہ یہاں صرف ایک اراس ہی داخل نہیں بلکہ یہاں موجود ایک 65 سالہ شخص کی کہانی بھی ایسی ہے جس کو سن کر معجزوں پر یقین ہو جاتا ہے۔

شام سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ سمیر نے منجمد کرنے والی سردی میں ملبے کے انبار تلے چھ راتیں گزاریں جب ان کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔

سمیر کی جان تو ڈاکٹرز نے بچا لی لیکن اس کے لیے ان کی دونوں ٹانگیں کاٹنا پڑیں۔

اردگرد بکھری تباہی کے درمیان موجود طبی ماہرین کے لیے یہ ایک تھکا دینے والا اور تکلیف دہ ہفتہ رہا ہے۔

بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر مہمت سیھان نے اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے ترکی کے شہراستنبول سے زلزلے سے تباہ حال کارامان مارس تک کا سفر انتہائی عجلت میں کیا تھا۔

’یہ بہت برا ہوا ہے، بے شمار بچے اپنے والدین کو کھو چکے ہیں۔مجھے نہیں معلوم مگر یہ میرے لیے بہت مشکل ہے، بہت ہی مشکل۔‘

ترکی

،تصویر کا کیپشن

’یو کے میڈ‘ کے ڈاکٹرز کی ٹیم میں ڈاکٹر برایونی پوائنٹین بھی شامل ہیں

بین الاقوامی طبی امداد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے والے کارامان مارس سے نکل کر بہت آگے تک پہنچ گئی ہیں۔

ترکوگلو کے قصبے میں نیشنل ہیلتھ سروسز برطانیہ کے ڈاکٹرز کے لگائے گئے سبز خیمے ترکی کے سرخ ترپال والے خیموں کے درمیان لگائے گئے ہیں۔

برطانیہ کے ڈاکٹر اس قصبہ میں زلزلے سے تباہ ہو نےوالے ہسپتال کے ساتھ میدان میں ایک فیلڈ ہسپتال بھی بنا رہے ہیں۔

زلزلے کے فوری بعد کی ہنگامی صورت حال میں کی جانے والی دیکھ بھال کی ضرورت شاید اب اتنی شدید نہ ہو تاہم اب بھی یہاں موجود 80 ہزار سے زائدافراد ایسے ہیں جن کو طبی خدمات میسر نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

حکومت برطانیہ کی سرپرستی میں قائم طبی خیراتی اداے ’یو کے میڈ‘ کے ڈاکٹرز کی ٹیم میں ڈاکٹر برایونی پوائنٹین بھی شامل ہیں۔

’ہم یہاں ترک ڈاکٹرز اور نرسز کے ساتھ کام کر رہے ہیں ، ہم ان متاثرین کی مدد کے لیے اپنے خیمے لگا کر مریضوں کو دیکھ رہے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت ذیادہ ہے۔‘

’ایک جانب جہاں قدرتی آفات سے متاثر افراد آپ کے اردگرد موجود ہیں وہیں بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کو اس سانحہ سے قبل بھی معمول کی بیماریاں اور دائمی امراض کا سامنا ہے۔ وہ لوگ اب بھی بیمار ہیں اور ان کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے سہولیات نہیں ۔ لہذا ہم جتنا بھی ہو سکے ان تمام مریضوں کی بھی دیکھ بھال بھی کر رہے ہیں۔‘

ترکی کی تباہی سے زخمیوں کی مدد کے لیے دنیا بھر سے ڈاکٹرز اور نرسیں اب ترکی میں موجود ہیں لیکن اس سانحے نے انفرادی اور قومی سطح پر شدید ذہنی صدمہ سے دوچار کر دیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ