امریکی غباروں نے کم از کم 10 بار چین کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی: چین
- مصنف, کیلی این جی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
واشنگٹن نے ابھی تک بیجنگ کے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے
چین کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے گزشتہ ایک سال میں 10 سے زائد بار اس کی فضائی حدود میں غبارے اڑائے ہیں۔
چین کی طرف سے یہ الزام اس وقت لگایا گیا ہے جب 4 فروری کو امریکہ نے اپنی فضائی حدود میں ایک مشتبہ جاسوس غبارے کو مار گرایا تھا، جس کے بارے میں چین کا کہنا تھا کہ یہ سویلین غبارہ تھا۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں، امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے بھی اپنی فضائی حدود میں کئی دیگر نامعلوم اشیاء کو مار گرایا ہے۔
پیر کو پوچھے گئے سوال پر بیجنگ نے کہا کہ امریکہ نے فضائی حدود کی کئی خلاف ورزی کی ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے باقاعدہ پریس بریفنگ میں کہا، ’امریکہ کے لیے غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک کی فضائی حدود میں داخل ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے‘۔
صرف پچھلے سال میں ہی، امریکی غبارے چینی حکام کی منظوری کے بغیر 10 سے زیادہ مرتبہ غیر قانونی طور پر چین کے اوپر سے اڑ چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ سب سے پہلے امریکہ کو جو کام کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ چین پر الزام تراشی کے بجائے اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ بیجنگ نے دراندازی کا جواب ’ذمہ دارانہ اور پیشہ ورانہ‘ انداز میں دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ امریکی غباروں کے غیر قانونی طور پر چین کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ امریکہ سے بات کریں‘۔
چینی ریاست سے وابستہ میڈیا نے ہفتے کے آخر میں اطلاع دی کہ ملک کے مشرقی ساحل پر ایک نامعلوم اڑتی ہوئی چیز دیکھی گئی ہے اور فوج اسے مار گرانے کی تیاری کر رہی ہے۔
واشنگٹن نے ابھی تک بیجنگ کے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔
غبارے کے پہلے واقعے کی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بیجنگ کا دورہ منسوخ کرد یا اور چین کی مبینہ جاسوسی کو ’ناقابل قبول اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔
اتوار کے روز، امریکہ نے کینیڈا کی سرحد کے قریب مشی گن میں بغیر پائلٹ کے اڑنے والی آٹھ کونوں والے شے کو گرانے کا حکم دیا – یہ آٹھ دنوں میں ہٹائی جانے والی چوتھی چیز تھی۔
لڑاکا پائلٹوں نے 10 فروری کو الاسکا اور 11 فروری کو شمالی کینیڈا میں چھوٹی نامعلوم اشیاء کو بھی مار گرایا۔
مسٹر وانگ نے کہا کہ انہیں ’ان دیگر چیزوں کا کوئی علم نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’لیکن ہم یہاں سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے بھیجی جانے والی اڑنے والی نامعلوم اشیاء کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے جدید میزائلوں کا بار بار داغنا ضرورت سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ ہے‘۔
ایک امریکی فوجی کمانڈر جنرل گلین وان ہرک نے کہا کہ تازہ ترین چیز سے کسی خطرے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ’گیسی کا غبارہ‘ یا ’کسی قسم کا پروپلشن سسٹم‘ ہو سکتا ہے۔
برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ حکومت ملک کو جاسوس غباروں کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے ’جو کچھ بھی کرسکتی ہے کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس ’کوئیک ری ایکشن الرٹ فورس‘ ہے جس میں ٹائفون طیارے شامل ہیں، جو ہماری فضائی حدود کی ہر لمحے نگرانی کریگی‘۔
Comments are closed.