شام میں امداد کی کمی کا شکوہ: ’ہمیں خدا سے رحم کے علاوہ اب تک کچھ نہیں ملا‘
- مصنف, کوینٹن سومرول
- عہدہ, بی بی سی نامہ نگار برائے مشرق وسطی، شمالی شام
یہ خیمے شام اور ترکی کی سرحد سے اتنے قریب ہیں کہ اسے چھو رہے ہیں۔
یہاں شام کی سرحد کے اندر ان خیموں کے رہائشی شاید ملک میں ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ لیکن شام میں تباہی نے ایک نیا رخ لیا ہے۔
بین الاقوامی سرحدوں کی پابندیوں سے ماورا زلزلے نے ترکی اور شام دونوں ممالک میں تباہی مچائی ہے۔ لیکن اب تک شام میں بین الاقوامی امداد چیک پوائنٹس کی وجہ سے آنا آسان نہیں۔
ایک جانب جہاں جنوبی ترکی میں ہزاروں افراد ریسکیو کوششوں میں بھاری مشینری اور طبی شعبے کی مدد سے مصروف ہیں اور اب تک زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کر رہے ہیں، شام کے اس حصے میں جہاں باغیوں کا راج ہے ایسا کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا۔
میں نے ترکی کے شہر انتاکیا میں چار دن گزارنے کے بعد سرحد کی دوسری جانب قدم رکھا تھا۔ ترکی میں 24 گھنٹے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وہاں ہنگامی حالات ہیں۔ رات بھر بجنے والے ایمبولنس کے سائرن، کنکریٹ کو ہٹانے والی مشینوں کی آواز۔۔۔ لیکن شام کے بسانیا گاؤں میں مکمل خاموشی تھی۔
اس علاقے میں مکانات بنے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ان میں سے سو گھر اب تباہ ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ سفید مٹی نظر آتی ہے۔
میں نے گاؤں کی باقیات کے اوپر چڑھ کر نظر دوڑائی تو مجھے ایک جگہ دکھائی دی جہاں ٹائلوں سے مزین ایک باتھ روم اپنی اصلی حالت میں محفوظ موجود تھا۔
یہاں کبھی ابو اعلی کا گھر تھا۔ زلزلے میں ابو اعلی کا گھر تباہ ہو گیا تھا اور ان کے دو بچے بھی ہلاک ہو گئے تھے۔
انھوں نے ملبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ میرا گھر تھا، یہاں بیڈ روم تھا۔ میری بیوی، میری بیٹی اور میں یہاں سو رہے تھے۔‘
ان کی 15 سالہ بیٹی کمرے کے ایک کونے میں تھی۔ ’اس کی لاش بلڈوزر کی مدد سے ملی۔ میں نے اسے دفنا دیا ہے۔‘
رات کی تاریکی میں جب زلزلے کے جھٹکوں نے اس علاقے کو جھنجوڑا تو وہ اپنی بیوی کے ہمراہ زیتون کے درختوں سے چمٹ گئے تھے۔
شام کی سول ڈیفینس فورس جسے ’وائٹ ہیلمٹس‘ بھی کہا جاتا ہے باغیوں کے زیر اثر علاقے میں کام کرتی ہے۔ برطانیہ سے امداد وصول ہونے کے باوجود ان کے پاس جدید سازوسمان کی قلت ہے۔
ابو اعلی نے جب مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنے 13سالہ بیٹے کو کیسے تلاش کیا تو وہ رو پڑے۔
’ہم اگلے دن شام تک کھدائی کرتے رہے۔ ان لوگوں کی ہمت کو سلام کہ انھوں نے اسے ڈھونڈ نکالا۔‘
اگلے دن انھوں نے اپنے بیٹے کو اپنی بیٹی کے پاس ہی دفنایا۔
بسانیا میں جدید اپارٹمنٹ بلڈنگز کی قطاریں موجود تھیں جن کی بالکونیاں ترکی کی جانب کا نظارہ پیش کرتی تھیں۔ ابو اعلی کہتے ہیں کہ ان کے ہمسائے بہت اچھے لوگ تھے۔ ’اب وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔‘
’اب میں کیا کروں گا؟ یہاں کوئی خیمہ نہیں ہے، کسی قسم کی مدد نہیں ہے، ہمیں خدا سے رحم کے علاوہ اب تک کچھ نہیں ملا۔ اور میں یہاں گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہتا ہوں۔‘
میں روانہ ہونے لگا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میرے پاس خیمہ ہے۔ لیکن ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔
میں وائٹ ہیلمٹ تنظیم کے اراکین سے ملا۔ مجھے توقع تھی کہ وہ اب بھی زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے ہوں گے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
اسماعیل عبداللہ تھک چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا نے شام کے لوگوں کو بھلا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی برادری کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ 120 گھنٹے گزرنے کے بعد انھوں نے تلاش ترک کر دی تھی۔ ’ہم نے لوگوں کو بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ہم ان کو نہیں بچا سکے۔ کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔‘
’پہلے گھنٹے سے ہی ہم نے فوری مدد کی درخواست کی۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ وہ بس کہتے رہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور کچھ نہیں۔ ہم نے کہا ہمیں سامان کی ضرورت ہے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔‘
چند ہسپانوی ڈاکٹرز کے علاوہ کوئی بین الاقوامی ٹیم یہاں نہیں پہنچی۔ یہ شام کے سربراہ بشار الاسد کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے والا علاقہ ہے جہاں ترکی کی مدد سے حیات تحریر الشام نامی تنظیم کا کنٹرول ہے۔ یہ تنظیم پہلے القاعدہ سے وابستہ تھی۔
شام میں ہمارے ساتھ ہر وقت مسلح افراد موجود رہے جو خود اپنی ویڈیو نہیں بنوانا چاہتے تھے۔
شام میں خانہ جنگی کے 10 سال بعد اس علاقے موجود لوگ بشار الاسد کے حکومت کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
وہ خیمہ بستیوں میں رہتے ہیں اور اکثر ایک سے زیادہ بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ زلزلے سے پہلے بھی زندگی ان کے لیے آسان نہیں تھی۔
اب تک شام کے اس علاقے میں پہنچنے والی بین الاقوامی مدد بہت کم ہے۔ زلزلے کے زیادہ متاثرین کو باب الحوا ہسپتال لے جایا گیا جسے شامی امریکن میڈیکل سوسائٹی چلاتی ہے۔
جنرل سرجن فاروق العمر نے مجھے بتایا کہ انھوں نے زلزلے کے فوری بعد بعد ایک الٹرا ساوئنڈ مشین کی مدد سے 350 مریضوں کا علاج کیا۔
جب میں نے ان سے بین الاقوامی امداد کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے سر جھٹک کر قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’ہم اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کر سکتے۔ ہم پہلے ہی کافی بات کر چکے ہیں۔ اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ عام صورت حال میں بھی ہمارے پاس سٹاف کی قلت رہتی ہے۔ اب سوچیں کہ زلزلے جیسی آفت کے بعد کیا صورت حال ہو گی۔‘
کوریڈور کے آخر میں ایک انکیوبیٹر میں ایک ننھا سا بچہ موجود تھا۔ محمد غیاث رجب کے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور اس کی چھوٹی سی چھاتی میں اتار چھڑھاؤ مصنوعی تنفس کی مشین کے ذریعے ممکن ہو رہا تھا۔
ڈاکٹرز کو ٹھیک سے علم نہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ وہ تین ماہ کا ہے۔ اس کے والدین زلزلے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہمسائیوں نے اس بچے کو اپنے گھر کے ملبے میں تنہا رات کی تاریکی میں روتے ہوئے پایا۔
شام کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کو اس بات کی عادت ہو چکی ہے کیوں کہ ان کو کئی بار پہلے بھی بین الاقوامی برادری نے ایسے ہی بھلا دیا تھا۔ تاہم یہاں اب بھی اس بات پر غصہ ہے کہ مدد کیوں نہیں پہنچ پا رہی۔
حریم کے قصبے میں فضل غضاب نے اپنی آنٹی اور کزن کو کھو دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ اقوام متحدہ نے اب تک صرف چودہ ٹرک پر مشتمل امداد بھجوائی ہے؟ ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔ لوگ گلیوں میں رہ رہے ہیں۔‘
شام میں امداد پہنچ تو رہی ہے لیکن یہ زیادہ نہیں اور بہت دیر سے پہنچ رہی ہے۔
بین الاقوامی ریسکیو ٹیموں کی غیر موجودگی میں حریم کے قصبے میں بچے اپنے ہاتھوں سے ملبہ اٹھاتے ہیں۔
ایک شخص اور دو لڑکوں نے کار جیک کی مدد سے ایک عمارت کا ملبہ ہٹایا اور احتیاط سے جانوروں کی خوراک ایک کمبل میں لپیٹی۔ زندگی یہاں سستی نہیں لیکن غیر یقینی ضرور ہے۔
دن ڈھل رہا تھا اور مجھے واپس لوٹنا تھا۔ میں نے ترکی کی سرحد پار کی اور جلد ہی مجھے ٹریفک جیم کا سامنا تھا جہاں یا تو ایمبولینس تھی یا پھر امدادی کاموں میں استعمال ہونے والا سامان۔
میرے فون پر ایک ترکی سے تعلق رکھنے والے ریسکیو ٹیم کے رکن کا پیغام وصول ہوا کہ انھوں نے 132 گھنٹوں کے بعد ایک خاتون کو ان کے گھر کے ملبے سے زندہ نکال لیا ہے۔
میرے پیچھے شام میں تاریکی پھیل رہی تھی جہاں صرف خاموشی تھی۔
Comments are closed.