پی ٹی آئی چیئرمین کا نیا دعوی: ’عمران خان کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے دیکھ کر اچھا لگا‘
پاکستان کے سوشل میڈیا پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے ایک حالیہ انٹرویو کے بعد شدید بحث جاری ہے جس میں انھوں نے دعوی کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مبینہ طور پر امریکہ کو یہ کہا کہ عمران خان امریکہ مخالف ہیں۔
وائس آف امریکہ کو انگریزی زبان میں دیے جانے والے اس انٹرویو کے بعد، جس میں عمران خان نے امریکہ سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا، پاکستان میں صارفین یہ بحث کرتے دکھائی دیے کہ آیا عمران خان نے اپنی حکومت گرانے میں امریکی سازش کے بیانیے پر موقف تبدیل کیا ہے یا نہیں۔
ایک جانب جہاں ایک حلقہ یہ تاثر دیتا نظر آیا کہ عمران خان کے موقف کو ’یو ٹرن‘ مانا جائے، وہیں دوسری جانب سے یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ عمران خان نے انٹرویو میں کوئی نئی بات نہیں کی اور وہ اپنے پرانے موقف پر ہی قائم ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت گرنے سے قبل 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپنی جیب سے ایک مبینہ خط نکالا اور اُسے لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ متحدہ اپوزیشن ایک ‘بیرونی سازش’ کے ذریعے اُن کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ خط اس مبینہ سازش کا ثبوت ہے۔
اس جلسے کے بعد انھوں نے متعدد مواقع پر بارہا یہ دعویٰ کیا کہ اس مراسلے کے مطابق ایک امریکی سفارتکار نے پاکستانی سفیر سے ایک سرکاری ملاقات کے دوران مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہونے والی اس بحث کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ عمران خان نے انٹرویو میں کیا کہا تھا۔
عمران خان نے انٹرویو میں کیا کہا؟
عمران خان سے اس انٹرویو کے دوران سوال کیا گیا تھا کہ امریکہ پھر حکومت گرانے کے الزامات لگانے کے بعد اگر وہ اب حکومت میں آتے ہیں تو امریکہ سے کیسے تعلقات دیکھتے ہیں۔
اس سوال پر عمران خان نے جواب دیا کہ ’بین الاقوامی سطح پر تعلقات کی بنیاد ذاتی انا نہیں ہونی چاہیے بلکہ ملک کی عوام کا مفاد ہونا چاہیے۔‘
’پاکستان کی عوام کا مفاد امریکہ سے اچھے تعلقات میں ہے کیوں کہ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔‘
انھوں نے دعوی کیا کہ ’جو بھی ہوا، اب جیسے چیزیں سامنے آ رہی ہیں، امریکہ نے پاکستان سے نہیں کہا تھا بلکہ بدقسمتی سے نئے شواہد کے مطابق یہ جنرل باجوہ تھے جنھوں نے دراصل کسی طریقے سے امریکیوں سے کہا کہ میں امریکہ مخالف ہوں۔‘
’تو یہ وہاں سے امپورٹ نہیں ہوا بلکہ یہاں سے ایکسپورٹ ہوا۔‘
جب میزبان سے ان سے سوال کیا کہ آیا وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے ان کی حکومت گرانے میں کردار ادا کیا تو عمران خان نے جواب دیا کہ ’سائفر ایک حقیقت ہے۔ یہ ایک سرکاری ملاقات تھی، جس کے منٹ لیے گئے، امریکی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر کے درمیان۔‘
تاہم عمران خان نے کہا کہ ’یہ ماضی کا قصہ ہو چکا ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ امریکہ سے بہتر تعلقات رکھے جائیں اور ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔‘
عمران خان نے اس انٹرویو کے دوران کہا کہ ’سول حکومت سے ملٹری کے تعلقات صرف ایک شخص پر منحصر ہوتے ہیں جو آرمی چیف ہوتا ہے۔‘
عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم ایک پیج پر تھے، پاکستان ترقی کر رہا تھا لیکن ’مسئلہ یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ کرپشن ملک کا بڑا مسئلہ نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نئی فوجی قیادت میں اس بات کا ادراک موجود ہے کہ رجیم چینج کا آپریشن غلط ہوا۔‘
امریکی دفتر خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو
یہ بھی پڑھیے
’عمران خان کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے دیکھ کر اچھا لگا‘
سوشل میڈیا پر عمران خان کے بیان کے بعد تقسیم نظر آئی۔
ایک جانب صارفین نے سوال اٹھایا کہ سابق وزیر اعظم نے کیا امریکی سازش کے بیانیے پر یو ٹرن لیا ہے تو دوسری جانب عمران خان کے حامیوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے موقف کو تبدیل نہیں کیا۔
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان نے ٹوئٹر پر اس انٹرویو کا وہ کلپ شیئر کیا جس میں عمران خان امریکی سازش پر بات کر رہے ہیں اور کہا کہ ’عمران خان نے اہم غیر ملکی تعلقات کو اپنے سیاسی مفادات کی نظر کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کیا وہ اس نقصان کا ازالہ کر پائیں گے جو وہ کر چکے ہیں؟ کیا دنیا کبھی ان کی بات سنجیدگی سے سنے گی؟‘
تاہم بیرسٹر عائشہ منیر نے ٹوئٹر پر عمران خان کے دفاع میں لکھا کہ ’میں نے عمران خان کا مکمل انٹرویو سنا اور مجھے اس میں ایسی کوئی بات سنائی نہیں دی جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شور کیا جا رہا ہے۔‘
ادھر تحریک انصاف رہنما فواد چوہدری نے ہم نیوز کے پروگرام میں میزبان ثمر عباس سے گفتگو کے دوران عمران خان کے انٹرویو کی وضاحت کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ’اب سے چند مہینے پہلے یہ پتہ چلا تھا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے نیچے ایک کمپنی رجسٹر کرائی گئی جس نے 25 ہزار ڈالر کے عوض حسین حقانی کی خدمات حاصل کیں لابنگ کرنے کے لیے۔‘
فواد چوہدری نے دعوی کیا کہ حسین حقانی، جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں، کا ایک بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’عمران خان امریکہ کے مخالف ہیں لیکن جنرل باجوہ امریکہ کے سپورٹر ہیں۔‘
فواد چوہدری نے دعوی کیا کہ حسین حقانی نے واشنگٹن میں مبنیہ طور پر یہی لائن لی اور ’یہی لابنگ تھی جس کے بعد سائفر کا ایشو آیا۔‘
تاہم ٹوئٹر پر شہزاد غیاث شیخ نے لکھا کہ ’یہ کہنا کہ سائفر حقیقت ہے کافی نہیں کیوں کہ سائفر میں وہ بات موجود نہیں تھی جو عمران خان نے کہی اور اب عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ امریکہ ان کی حکومت گرانے میں ملوث نہیں تھا۔‘
پاکستان کے سابق سفارت کار عبد الباسط نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’عمران خان کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے دیکھ کر اچھا لگا۔‘
Comments are closed.