وہ ملک جس کی کرنسی ردی اور جہاں ہر 15 گھنٹے بعد قیمتیں دگنی ہو جاتی تھیں
- مصنف, بریجٹ کینڈل اور سائمن ٹولٹ
- عہدہ, بی بی سی سیریز ’دی فورم‘
جب شاعر اور ناول نگار گیورگی فالودی آٹھ سال غائب رہنے کے بعد سنہ 1946 میں ہنگری واپس آئے تو انھوں نے ہنگری کو ایک ایسا ملک پایا جو جنگ سے بالکل ٹوٹ چکا تھا۔
بوداپیسٹ وہ دارالحکومت جہاں ان کی پیدائش اور پرورش ہوئی تھی، ملبے کا ایک ڈھیر بن چکا تھا جس میں جزوی طور پر تباہ حال عمارتوں کے ڈھانچے اور لاشیں دفن تھیں۔
مگر یہاں دیگر تبدیلیاں بھی تھیں جو کم نظر آتی تھیں۔
ان کی واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کی کتاب کے پبلشر نے انھیں ایک کتاب کے عوض 300 بلین پنگوز دیے تھے۔ پنگوز وہ کرنسی تھی جو اس وقت ملک میں رائج تھی۔
سننے میں تو یہ بہت زیادہ رقم لگتی تھی مگر وہ اس رقم سے صرف ایک مرغی، دو لیٹر تیل اور کچھ سبزیاں ہی خرید سکتے تھے۔ اور اگر وہ دوپہر تک ان پیسوں کو خرچ نہ کرتے تو وہ بعد میں یہ بھی نہیں لے سکتے تھے۔
ہنگری اس وقت تاریخ کی بدترین مہنگائی کا شکار تھا۔ اور اپنے عروج پر مہنگائی کی یہ شرح کروڑوں فیصد تھی۔
اس کا مطلب ہے کہ روز مرہ زندگی میں چیزوں کی قیمتیں ہر 15 گھنٹے بعد دگنی ہوتی تھی۔
ملک میں ماہانہ مہنگائی کی شرح میں 50 فیصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہر اقتصادیات نے اسے بینگ کی اصطلاح دی تھی۔
ہنگری کے لاکھوں شہریوں نے اپنی اجرتوں اور معیار زندگی کو گرتا ہوا دیکھا تھا اور اس نے بہت سے لوگوں کو بقا کی نئی جنگ میں دھکیل دیا تھا۔
جب تک ملک میں مہنگائی کے طوفان پر قابو پایا گیا تب تک ملک میں گردش کرنے والے کُل پنگوز کی قدر ایک امریکی سینٹ سے بھی کم تھی۔
جیسا کہ اب بہت سے لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں افراط زر کے بارے میں فکر مند ہیں ایسے میں یہ پوچھنا مناسب ہوگا کہ تاریخ کی بدترین افراط زر کی وجہ کیا تھی اور اس سے کیا سبق ملا۔
مہنگائی سے پہلے
دیگر یورپی ممالک کی طرح ہنگری بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد کے اثرات سے دوچار تھا، جس میں ابتدا میں اس نے مضبوطی سے عالمی طاقتوں کا ساتھ دیا، یہاں تک کہ سوویت یونین پر 1941 کے حملے میں بھی حصہ لیا۔
اگرچہ 1942 میں یہ اندازہ لگاتے ہوئے کہ جرمنی جنگ ہار جائے گا، اس کے لیڈروں نے اتحادیوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کیے اور اس بارے میں ایڈولف ہٹلر کو پتہ چلا اور مارچ 1944 میں اس نے حملہ کر کے وہاں نازی نواز حکومت قائم کر دی۔
پیٹر اے کاڈاس کے صدر اور انڈیانا یونیورسٹی کے ہیملٹن لوگر سکول کے پروفیسر لاسزلو بورہی کہتے ہیں کہ ’اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا کہ 437,000 ہنگری میں رہنے والے یہودیوں کو آشوٹز میں جلاوطن کر دیا گیا۔ اور اس کے بعد ہنگری جرمنی اور سویت یونین کے لیے میدان جنگ بن گیا۔‘
اور بوداپسٹ کو جنگ کے بڑے محاصروں میں سے ایک کا سامنا کرنا پڑا۔
نتائج
جنگ اور لڑائی کے بعد ملک کی معیشت تباہی سے دوچار تھی۔ جرمنوں نے ملک سے ایک ارب ڈالر مالیت کا سامان اور اشیا ملک سے باہر نکال لی تھیں۔ ملک کی آدھی سے زیادہ صنعت تباہ ہو چکی تھی اور باقی ماندہ میں سے نوے فیصد کو نقصان پہنچا تھا۔
زیادہ تر ریلوے کا نظام اور ریلوے انجن تباہ ہو گئے تھے اور جو بچ گئے تھے، ان پر نازیوں یا سوویت یونین نے قبضہ کر لیا تھا۔ بوداپیسٹ میں ڈینیوب پر تمام پل ٹوٹ گئے تھے اور ملک کی زیادہ تر سڑکیں بھی تباہ حال تھیں۔
بوداپسٹ میں 70 فیصد عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں۔ ملک میں زراعت 60 فیصد تک گر چکی تھی۔
بورہی کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر ملک قحط کے دہانے پر تھا اور اس کے باوجود اسے سویت فوج کے لاکھوں فوجیوں کو خوراک مہیا کرنی تھی۔‘
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب ہنگری نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تو اس نے سویت یونین، یوگوسلاویہ اور چیکوسلوواکیہ کو زرتلافی کے طور پر 300 ملین ڈالرز (آج کے حساب سے چار ارب ڈالرز) سے زیادہ ادا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس سب کے باوجود ہنگری کے شہریوں کی مدد اور ملک کی بحالی کے لیے اسے کوئی قرض نہیں دیا گیا تھا۔
بورہی بتاتے ہیں کہ ’سوویت کے زیر کنٹرول ممالک کو ماسکو نے بہت فراخدلانہ مارشل پلان میں حصہ لینے سے باہر رکھا تھا جس نے بنیادی طور پر مغربی یورپ کی اقتصادی بحالی کو ہوا دی تھی۔‘
ہنگری نے معیشت کو کیا کیا؟
ولفرڈ لاریئر یونیورسٹی کینیڈا کے اقتصادیات کے پروفیسر پیئر سکلوس کہتے ہیں کہ ’ہنگری کی حکومت کے مالی معاملات بالکل غیر سنجیدہ تھے اور اسے کچھ امداد فراہم کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت تھی، لیکن ایسا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں تھا جو اسے روایتی طریقے سے محصولات جمع کرنے میں مدد دیتا۔‘
بنا کسی ٹیکس بیس کے ہنگری کی حکومت نے ملکی معیشت کو متحرک رکھنے کے لیے پیسے چھاپنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے اسے نوٹوں کی چھپائی میں استعمال ہونے والی سیاہی کو درآمد کرنا پڑا۔
ان نئے نوٹوں کی چھپائی کے بعد حکومت نے لوگوں کو براہ راست کام کر رکھا، عوام کو قرض دیا اور پیسے دیے۔ بینکوں نے کم ترین شرح سود پر قرض دیا جس سے ملک میں کاروبار کرنے میں مدد ملی۔
ملک میں پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ لیکن ہنگری کی کرنسی کی قدر صفر سے بھی نیچے چلی گئی۔
ہنگری کی کرنسی پنگوز کی قدر
20ویں صدی میں پہلی عالمی جنگ کے بعد ہنگری میں بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے جس کرنسی پنگو کو اپنایا گیا تھا اس کی قدر تیزی سے گرنے لگی۔
مہنگائی کی شرح اس قدر زیادہ تھی کہ مقامی کرنسی کی قدر میں صفر بڑھتے گئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 1944 میں ہنگری میں سب سے بڑا کرنسی نوٹ ایک ہزار پنگو کا تھا جو کہ سنہ 1945 کے اواخر تک ملک میں ایک کروڑ کا نوٹ آ چکا تھا۔
اور یہ رحجان جاری رہا اور اسی طرح ایک کروڑ سے دس کروڑ اور دس کروڑ سے ایک ارب اور اس سے بھی زیادہ تک کرنسی کی قدر میں گراوٹ آئی۔
جلد ہی ملک میں بی پنگو متعارف کروایا گیا جس کی مالیت دس کھرب کے برابر تھی۔
اور اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا جب 11جولائی 1946 کو ہنگری کے قومی بینک نے ایک ہزار کھرب کا نوٹ جاری کیا تو یہ دنیا کی تاریخ میں جاری ہونے والا سب سے بڑا نوٹ تھا۔
ہنگری کے قومی بینک نے دس ہزار کھرب کا بھی نوٹ شائع کیا تھا لیکن اسے کبھی ملک میں جاری نہیں کیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک خصوصی کرنسی اڈاپنگو کو بھی پوسٹل اور ٹیکس ادائیگیوں کے لیے متعارف کروایا گیا تھا۔ مہنگائی کی وجہ سے اس کی مالی قدر کا روزانہ ریڈیو پر اعلان کیا جاتا تھا۔
یکم جنوری 1946 کو ایک اڈاپنگو کی مالیت ایک پنگو کے برابر تھی مگر اسی برس جولائی کے آخر تک اس کی قدر 20 لاکھ بلین ہو چکی تھی۔
ہنگری کے شہریوں نے کیا کیا؟
جیسے ہی حکومت نے نئے چمکیلے نوٹ جاری کر کے قیمتوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، عام لوگ ان کی قیمت کے بجائے ان کے رنگ کی بنیاد پر ان کا حوالہ دینے لگے۔
ہنگری کی یونیورسٹی آف سیزیڈ میں جدید معاشرتی اور معاشی تاریخ کے پروفیسر بیلا ٹومکا کا کہنا تھا کہ ’بات اس سے بھی آگے اس حد تک بڑھ گئی کہ اگر کوئی ایک درجن انڈے خریدتا تو دکاندار انھیں تولتا اور گاہک ان انڈوں کے وزن کے برابر کرنسی نوٹ تول کر اسے دیتا۔‘
شہریوں کو ملنے والی تنخواہوں کی حقیقی دنیا میں کوئی وقعت باقی نہ بچی تھی لہذا کمپنیوں نے ملازمین کو ان کی پیدا کردہ چیزوں کے حساب سے تنخواہ دینی شروع کر دی یعنی انھیں ان کے اگائے گئے آلوؤں یا تیار کردہ چینی کے حساب سے پیسے دیے جاتے۔
مثال کے طور پر کپڑے کی فیکٹریوں نے اجرتوں کا اپنا نظام متعارف کروا دیا تھا اور وہ ملازمین کو ایک سینٹی کپڑے کے حساب سے پیسے دیتے تھے۔
ملازمین دیگر ضروریات کے لیے ان چیزوں کا لین دین کرتے جو انھیں ملتی تھی۔ ایسے میں بلیک مارکیٹ بہت پھلی پھولی۔
ٹومکا کہتے ہیں کہ ’ اس کے علاوہ، دنیا میں افراط زر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمپنیوں کو خوراک کی ایک خاص مقدار اور معیار فراہم کرنا پڑا، جس کا تعین کارکنوں اور ان کے خاندان کے افراد کی ہفتہ وار کیلوری کی ضروریات سے کیا جاتا۔‘
’اگرچہ ان اقدامات نے خوراک کی قلت کی وجہ سے مسائل کو حل تو نہیں کیا لیکن فی الوقتی طور پر انھوں نے کام کرنے والی عوام کو کم ازکم کچھ سہولت فراہم کی تھی۔‘
ایک موقع ایسا بھی آیا جب ملازمین کمپنیوں کو اپنی یومیہ اجرت دوپہر دو بجے سے پہلے ادا کرنے کا مطالبہ کرتے بصورت دیگر وہ اپنے اجرت کو اگلے دن یومیہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے ادا کرنے کا کہتے۔
تاہم یہ کوئی حل نہیں تھا کیونکہ تنخواہیں کوڑیوں کے برابر ہو چکی تھی اور ان میں 80 فیصد سے زیادہ گراوٹ ہو گئی تھی اگرچہ لوگوں کے پاس نوکریاں تھیں لیکن اس ہوشربا مہنگائی نے انھیں غربت میں دھکیل دیا تھا۔
اور یہ بھی ظاہر تھا کہ محرومی سب کے لیے یکساں نہیں تھی۔
چار اپریل 1946 کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا تھا کہ ’ یورپ میں اور کہیں بھی آبادی کی اکثریت کے معیار زندگی اور ان چند لوگوں کے معیار زندگی کے درمیان ایسا واضح تضاد نہیں پایا جا سکتا جنھوں نے برطانیہ اور امریکہ سے دوستی ہے یا دیگر ذرائع آمدن سے مہنگے ریستوراں تک رسائی حاصل کی۔‘
ان امرا کے کلبوں میں آپ کو ایسا کھانا ملے گا جو یورپ میں کہیں اور نہیں ہے۔ یہاں غیر ملکی قیمتی پھل، ہنس اور مرغی کا گوشت، کریم اور جنگ سے قبل کے مہنگے ہوٹلوں میں ملنے والے کیک ہوتے ہیں۔‘
لیکن ان نعمتوں کا کون مزا لے سکتے تھے؟
ٹومکا کہتے ہیں کہ ’وہ لوگ جن کی دولت سونے کے زیورات اور دیگر قیمتی جواہرات میں تھی اور وہ ان کو بیچ کر اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔‘
’اس کے علاوہ وہ لوگ کو غیر ملکی کرنسی میں کماتے تھے کیونکہ جو لوگ کسی غیر ملکی کمپنی، سفارتخانے یا ادارے کے لیے کام کرتے تھے وہ اس مہنگائی میں بہتر گزارہ کر لیتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اسی طرح دیہی علاقوں میں رہنے والے وہ لوگ جو اناج پیدا کرتے تھے ان کی مالی حالت بھی بہتر تھی لہذا شہریوں اور قصبوں میں رہنے والے ہی سب سے زیادہ غریب تھے۔‘
یہ سب کیسے ختم ہوا
مہنگائی کے عروج پر ہنگری میں روزانہ قیمتیں ڈیڑھ لاکھ فیصد کے حساب سے بڑھ رہی تھیں۔
تب تک، حکومت نے ٹیکس جمع کرنا بند کر دیا تھا کیونکہ اس طرح سے حاصل ہونے والی آمدنی کی قوت خرید بڑی حد تک ختم ہو چکی تھی۔ اور صرف ایک نئی کرنسی ہی ملک کی مالی صورتحال کو مستحکم کر سکتی تھی۔
یکم اگست 1946 کو ہنگری نے گلڈر نامی کرنسی متعارف کروائی جس کی قدر سابقہ کرنسی سے کروڑوں گنا زیادہ تھی۔
بورہی کہتے ہیں کہ ’میرے والدین کو یاد ہے کہ انھوں نے خاکروبوں کو اپنی تنخواہیں ردی کی ٹوکری میں پھینکے ہوئے دیکھا تھا۔ ’لوگوں نے پینگوز پھینک دیے تھے کیونکہ وہ بیکار تھے۔‘
’ہمارے پاس جو تھوڑی بہت رقم بچی تھی وہ بھی بیکار تھی اور ختم ہو گئی تھی، لوگ اپنا سرمایہ کھو چکے تھے اور انھیں صفر سے شروع کرنا پڑا تھا۔‘
لیکن اس کے ساتھ ہی بظاہر مہنگائی کی لہر ایک رات میں ختم ہو گئی تھی۔
سیکلوس کہتے ہیں کہ ’اس کی تیاری میں کچھ ماہ لگے تھے۔ حکومت نے خوراک کا ذخیرہ کر لیا تھا تاکہ جب نئی کرنسی متعارف کروائی جائے تو کم از کم کچھ منڈیوں میں خوراک کی دستیابی اور زیادتی ہو تاکہ عوام یہ سوچے کے ان اصلاحات سود مند ہیں۔‘
’اس کے علاوہ اصلاحات سے قبل کے چند ہفتوں میں لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی کہ مہنگائی ٹیکس پر انحصار ختم ہو جائے گا، چیزوں کی قیمتوں کا تعین دوسری چیزوں کی قیمتوں کے اعتبار سے نہیں کیا جائے گا، اور یہ کہ مستقبل میں کافی عرصے تک ان پالیسیوں کو جاری رکھا جائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’چنانچہ اُنھوں نے عوام میں اتنا اعتماد پیدا کر دیا کہ گلڈر اپنی قدر برقرار رکھ سکے۔ اور آہستہ ہی صحیح مگر بالآخر اقتصادی سرگرمیاں رفتار پکڑنے لگیں۔‘
اس اعتماد کی بحالی میں اہم کردار ہنگری کے قومی بینک کے پاس موجود سونے کے ذخائر تھے۔
ٹومکا کہتے ہیں کہ ’اسے جنگ کے آخری مراحل میں ملک سے باہر لے جایا گیا تھا تاکہ سوویت فوج اس پر قبضہ نہ کر لے۔ اور یہ آسٹریا کے امریکہ کے زیرِ قبضہ علاقے میں پہنچ گئے تھے۔‘
’سنہ 1946 میں ہنگری کی حکومت کا ایک وفد سرکاری دورے پر واشنگٹن گیا اور صدر ٹرومین نے ہنگری کے عوام کی جانب جذبہ خیر سگالی کے تحت یہ سونا مکمل طور پر واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔‘
اس سونے کی ملک میں آمد ایک بہت بڑا واقعہ تھا جو کہ اس سال ایسوسی ایٹڈ پریس نے چھ اگست کو رپورٹ کیا۔
’ایڈولف ہٹلر کی سابق نجی ٹرین یہاں تین کروڑ 30 لاکھ ڈالر مالیت کا سونا لے کر آج پہنچی ہے جو کہ ہنگری کے قومی بینک کا تمام تر زیرِ قبضہ ذخیرہ تھا تاکہ ہنگری کے نئے مالیاتی ڈھانچے کو سہارا دیا جا سکے۔‘
اس ٹرین میں 22 ٹن سونا بسکٹس اور سکوں کی شکل میں تھا اور یہ جرمنی سے انتہائی سخت پہرے اور رازداری کے ساتھ لیا گیا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ کسی دشمن ملک کو تمام تر مالی اثاثے ایک ساتھ واپس کر دیے گئے ہوں۔‘
ہنگری کے حکام نے امید ظاہر کی کہ سونے کی 100 فیصد درست حالت میں واپسی ان کے ملک کی تباہ شدہ معیشت کو بچا لے گی۔
لوگوں کو یہ دیکھ کر اپنی نئی کرنسی پر اعتبار پیدا ہوا۔
دوسری جانب مرکزی بینک خود مختار ہوا اور کرنسی نوٹس جاری کرنے کا اس کا اختیار محدود کر دیا گیا۔ بینکس کو حکم دیا گیا کہ وہ 100 فیصد ذخیرہ رکھیں، ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا اور سول سرونٹس کی تعداد بھی خاصی گھٹا دی گئی۔
اس کے بعد ساٹھ کی دہائی میں گلڈر اس خطے کی سب سے مستحکم کرنسیوں میں سے ایک بن گیا۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ 1946 تک ہنگری کا سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ پوری طرح سوویت یونین کے زیرِ اثر تھا۔
بورہی کہتے ہیں کہ ’مئی میں ہنگیریئن کمیونسٹ پارٹی کے رہنما نے کرنسی کے استحکام کو ہموار بنانے کے لیے سٹالن کے نظام کی جزوی نقل کرنے کی اجازت دی۔‘
اُنھوں نے ایسے اقدامات کرنے شروع کیے جو بالآخر غیر ملکی اور مقامی نجی کمپنیوں کو قومیانے کی وجہ بنے۔ ساتھ ہی ساتھ معیشت کو مرکزی کنٹرول میں لانے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے جیسے کہ ایک سرکاری دفتر ہر چیز کی قیمت طے کرتا اور ایک ہی دفتر کے ذریعے معیشت کے ہر شعبے میں تنخواہوں کا تعین کیا جاتا۔
چنانچہ ہر چیز پر بے حد سخت کنٹرول کیا گیا اور شاید اس کی وجہ سے مہنگائی کنٹرول ہوئی۔
تو کیا ہم مہنگائی کے ان اعداد و شمار پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟
سکلوس کہتے ہیں کہ ’سادہ جواب یہ ہے کہ نہیں۔مگر میرا خیال ہے کہ ان اصلاحات کی ابتدائی کامیابی اس وقت متعارف کروائی جانے والی زبردست پالیسیوں کی وجہ سے تھی۔ پھر ظاہر ہے کہ چیزوں نے تبدیل ہونا تھا۔‘
ہم اس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
کیا دنیا کے کئی ممالک میں اس وقت جاری مہنگائی کی شدید لہر سے نمٹنے کے لیے ہم یہاں سے کوئی سبق حاصل کر سکتے ہیں؟
سکلوس کہتے ہیں کہ ’ایک مشترکہ سبق یہ ہے کہ جب معاشی صورتحال خراب ہو جائے اور حکومتوں کے پاس اور کئی وسائل نہ ہوں تو بے ہائپر انفلیشن یعنی بے پناہ مہنگائی آنے میں دیر نہیں لگتی۔‘
دوسرا سبق یہ ہے کہ ’جب آپ پالیسیاں متعارف کروائیں جو عوام کو یہ باور کروا دیں کہ اس کرنسی کی قوتِ خرید مستحکم رہے گی تو مہنگائی فوراً ختم ہو سکتی ہے۔‘
ٹومکا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’کرنسی کے استحکام کی ایک اہم شرط عوام کا سیاسی اور اقتصادی اداروں اور خود کرنسی پر اعتبار ہے۔‘
’اگر معاشرے کے ایک بڑے حصے کا یہ اعتبار اٹھ جائے تو اسے بحال کرنے کے لیے بے پناہ اقتصادی اور سماجی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘
Comments are closed.