’ہماری والدہ کی لاش اب سڑنے لگی ہے، ہمارا سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے‘

ترکی
،تصویر کا کیپشن

امدادی کارکنان کیمرے پر ان بہنوں کو دیکھ سکتے تھے

امدادی کارکن مصطفیٰ ازترک چلا رہے ہیں: ’مروہ! ارم! مروہ! ارم!‘

آس پاس موجود ہر شخص کو خاموش رہنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ یہ ٹیم ان دو بہنوں کو تلاش کر رہی ہے جن کے بارے میں دوسرے افراد نے بتایا کہ وہ اب بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔

حساس آلات کی مدد سے وہ کسی بھی آواز کا پتا چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ آس پاس کھڑے تمام لوگ اُمید لیے چپ سادھے کھڑے ہیں۔

اور پھر وہ ہوا جس کا انتظار تھا۔ مصطفیٰ کہتے ہیں: ’ارم، میں آپ کے قریب ہوں، آپ مجھے سن سکتی ہیں؟ ہاں؟‘

ہم میں سے جو لوگ دور کھڑے ہیں وہ تو اُنھیں نہیں سن پائے لیکن مگر اب یہ بات واضح ہے کہ ارم جواب دے رہی ہیں۔ ان کی چند دوستیں خاموشی کے ساتھ ہمارے ساتھ کھڑی انتظار کر رہی ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’آپ بہت زبردست ہیں، اب پرسکون رہیں اور میرا جواب دیں۔ او اچھا یہ مروہ ہیں۔ مروہ، بس میرے سوالات کا جواب دیں۔‘

چوبیس سالہ مروہ اور ان کی 19 سالہ بہن ارم جنوبی ترکی کے شہر انطاکیہ میں پانچ منزلہ اپارٹمنٹ بلڈنگ کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ دو دن ہو چکے ہیں مگر انھیں تو یہ دو دن ہفتوں کی طرح محسوس ہو رہے تھے۔

’آج بدھ ہے۔ نہیں آپ کو پھنسے ہوئے 14 دن نہیں ہوئے۔ ہمیں بس پانچ منٹ دیں اور آپ باہر ہوں گی۔

مصطفیٰ جانتے ہیں کہ اس میں کئی گھنٹے لگیں گے مگر ہمیں بتاتے ہیں کہ ’اگر اُنھوں نے امید چھوڑ دی تو وہ شاید زندہ نہ بچ پائیں۔‘

مروہ اور ارم اب کچھ ہلکا پھلکا ہنسی مذاق شروع کرتی ہیں۔ میں مصطفیٰ کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ دیکھ رہی تھی۔ مصطفیٰ کہتے ہیں ’اگر ان کے پاس جگہ ہوتی تو شاید یہ ڈانس بھی کر لیتیں۔‘

امدادی کارکنان کے حساب کتاب کے مطابق لڑکیوں تک پہنچنے کے لیے دو میٹر یعنی 6.6 فٹ گہرائی تک ملبہ ہٹانا ہو گا مگر امدادی ٹیم کے کمانڈر حسن بینے کہتے ہیں کہ کنکریٹ میں سرنگ کھودنا ایک بہت نازک کام ہے اور ایک غلط قدم بھی آفت کا سبب بن سکتا ہے۔

،ویڈیو کیپشن

وہ لمحہ جب دو بہنوں کو ملبے سے نکالا گیا

ایک بلڈوزر بلایا جاتا ہے تاکہ وہ موٹا کنکریٹ اٹھا کر رکھے تاکہ جب وہ کھدائی شروع کریں تو عمارت مزید نہ ڈھیر ہونے لگے۔

مصطفیٰ لڑکیوں سے کہتے ہیں کہ ’لڑکیو، جلد ہی ہم آپ لوگوں کو کمبل دیں گے۔ اوہ نہیں ہمارے بارے میں فکر نہ کریں۔ ہم تھکے ہوئے یا ٹھنڈ کے مارے ہوئے نہیں ہیں۔‘

مصطفیٰ کہتے ہیں کہ مروہ کو امدادی کارکنان کے متعلق فکر ہیں۔ اس وقت رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے ہیں اور بہت سخت ٹھنڈ ہے۔ اس علاقے کو لوگوں کی یادداشت کے مطابق سخت ترین ٹھنڈ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

امدادی کارکن تیزی سے کھدائی شروع کرتے ہوئے ملبہ اپنے ہاتھوں سے ہی دور پھینکنا شروع کر دیتے ہیں۔

مگر کوئی دو گھنٹے بعد ہمیں زمین اپنے پیروں تلے ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ زلزلے کا ایک زوردار آفٹرشاک تھا۔ آپریشن کو اس موقع پر روک کر ہم سب اس جگہ سے باہر نکل گئے۔

حسن کہتے ہیں کہ ’افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہماری ٹیموں کی حفاظت ہماری پہلی ترجیح ہے۔‘

تقریباً 30 منٹ کے بعد مصطفیٰ اور تین دیگر امدادی کارکنان وہیں واپس جاتے ہیں جہاں اُنھوں نے کھدائی چھوڑی تھی۔

آپریشن میں وقفے کے باعث لڑکیوں کو لگنے لگا تھا کہ اُنھیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔

مصطفیٰ چلاتے ہیں ’ڈریں نہیں۔ میرا یقین کریں میں آپ لوگوں کو یہاں نہیں چھوڑوں گا۔ میں آپ کو باہر نکالوں گا اور پھر آپ ہمیں کھانا کھلانے باہر لے جائیں گی۔‘

اب تقریباً آدھی رات کا وقت ہے اور کھدائی دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ امدادی کارکنان کئی دن سے جاگ رہے ہیں اور ہم سب عمارت کے قریب ایک چھوٹی سی آگ کے گرد جمع ہیں۔

ہر تھوڑی دیر میں کوئی چلاتا ہے کہ ’خاموش ہو جاؤ۔‘ روشنی بند کر دی جاتی ہے اور گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اُنھوں نے اب کنکریٹ میں ایک چھوٹا سا سوراخ کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ لڑکیوں کو مصطفیٰ کے ٹارچ کی روشنیاں نظر آ رہی ہیں یا نہیں۔

ترکی

،تصویر کا کیپشن

مروہ کو جب نکالا گیا تو اُنھوں نے پوچھا کہ ’کیا میں واقعی زندہ ہوں؟‘

’مروہ! ارم! آپ کو روشنی نظر آ رہی ہے؟ اچھا ٹھیک ہے۔ اب میں ایک چھوٹا سا کیمرا نیچے بھیجنے لگا ہوں۔ جب آپ اسے دیکھیں تو مجھے بتائیے گا پھر میں بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے۔‘

یہ ہر کسی کے لیے خوشی کا لمحہ ہے۔ حسن اپنی ٹیم کے ساتھ نائٹ وژن کیمرے سے منسلک سکرین پر لڑکیوں کو دیکھنے لگتے ہیں۔ انھیں ارم اور مروہ دونوں ہی نظر آتی ہیں۔

’آپ دونوں بہت پیاری ہیں۔ زیادہ ہلیں جلیں نہیں۔ ارم، کیمرا کھینچیں تاکہ ہم مروہ کو دیکھ سکیں۔‘

اس سکرین پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ارم مسکرا رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے ان کے اور کنکریٹ کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ ہے۔

ہر کسی کے چہرے پر سکون کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ لڑکیاں ٹھیک لگ رہی ہیں اور کم از کم ارم کے پاس اتنی جگہ ضرور ہے کہ اگر سوراخ بڑا کر لیا جائے تو وہ خود کو وہاں سے گھسیٹ کر باہر نکل سکتی ہیں۔

مگر اچانک ہی ٹیم کو ایک تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ مروہ اُنھیں بتاتی ہیں کہ اُنھیں ٹھنڈ لگنے لگی ہے اور اُنھیں لگ رہا ہے کہ ان کے پیر پر کوئی بھاری چیز پڑی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

طبی عملہ فکرمند ہو جاتا ہے۔ ’کیا مروہ کے پیروں میں گینگرین ہو گیا ہے؟ یا یہ ہائپوتھرمیا کی پہلی علامت ہے۔‘

اب صبح کے پانچ بجنے لگے ہیں اور سرنگ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ ٹیم کا سب سے دبلا پتلا رکن اندر جا سکتا ہے۔ یہ امدادی کارکن اندر جا کر کچھ دیر کے لیے ارم کا ہاتھ تھامنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

ارم امدادی کارکنان کو بتاتی ہیں کہ ’ہماری والدہ کی لاش اب سڑنے لگی ہے اور ہمارا سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘

یہ لڑکیاں کئی دن سے اپنی فوت ہو چکی والدہ کے ساتھ ہی اس ملبے میں پڑی ہوئی ہیں۔

یہ کتنی صدمہ انگیز بات ہے۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ آپ کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آ سکتے ہیں جب آپ اپنی ماں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیں گے۔

حسن مروہ کی ایک پریشان اور خاموش کھڑی دوست سے کہتے ہیں کہ وہ ان لڑکیوں کی تصویر اُنھیں دکھائیں۔ امدادی کارکنان یہ اندازہ لگانا چاہتے ہیں کہ اُنھیں کتنا بڑا سوراخ چاہیے ہو گا۔ دونوں لڑکیاں مسکرا رہی ہیں، جشن کے کپڑوں میں ملبوس ایک شادی میں شریک ہیں۔

’زبردست، ہم اُنھیں نکال سکتے ہیں۔‘

ترکی

میڈیکل ٹیم ایمرجنسی کمبل اور سٹریچر تیار کرتی ہے۔ صبح کے ساڑھے چھ بجے سب سے پہلے ارم کو نکالا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت ہنس بھی رہی ہیں اور رو بھی رہی ہیں۔

وہ امدادی کارکنوں کی منت سماجت کرنے لگتی ہیں، ’خدا آپ کو اجر دے۔ پلیز مروہ کو بھی باہر نکالیں۔ پلیز۔‘ حسن اُنھیں بتاتے ہیں کہ ’مروہ بھی نکالی جائیں گی، میرا وعدہ ہے۔‘

مگر مروہ کو نکالنے میں تناؤ بھرے مزید 30 منٹ لگ جاتے ہیں۔ اُنھیں مروہ کو نقصان پہنچائے بغیر ان پر سے وہ کنکریٹ ہٹانا پڑتا ہے جو ان کے پیروں پر پڑا ہوا ہے۔

آپریشن کامیاب ہو جاتا ہے۔

جب مروہ کو نکال لیا جاتا ہے تو سب لوگ تالیاں بجانے اور خوشی منانے لگتے ہیں۔ میں نے مروہ کو درد سے چلاتے ہوئے سنا۔ وہ پوچھ رہی تھیں ’کیا میں واقعی زندہ ہوں؟‘

مصطفیٰ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جی ہاں، پیاری بچی۔‘

ان کے دوست جو پوری رات سے وہاں انتظار کر رہے ہیں، وہ اب اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ ’مروہ، ارم، ہم یہاں ہیں۔ ڈرو نہیں۔‘

ان دونوں بہنوں کو ایک ایمبولینس میں سوار کروا کر ایک فیلڈ ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔

خوشی کے اس لمحے کے بعد ایک اور پریشان کُن لمحہ آتا ہے۔ امدادی کارکنان ہر کسی سے دوبارہ خاموش ہونے کے لیے کہتے ہیں۔ یہ آخری کال ہے۔

’اگر کوئی میری آواز سن رہا ہے تو جواب دے۔ اگر آپ جواب نہیں دے سکتے تو زمین کو چھونے کی کوشش کریں۔‘

حسن تقریباً منت سماجت کرتے ہوئے ہر زاویے سے آواز دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ایک سرخ سپرے سے ملبے پر ایک کوڈ لکھ دیتے ہیں تاکہ دوسری امدادی ٹیمیں ملبے کی چھان بین نہ کریں۔

میں ان کے چہرے پر اداسی دیکھ سکتی ہوں۔ ’ایک انسان کو بچانا ایک بہت ہی خوبصورت احساس ہے، میری تمنا ہے کہ مزید اموات نہ ہوں۔‘

میں نے ان سے پوچھا کہ ’کیا آپ مروہ اور ارم کے ساتھ کھانا کھائیں گے؟‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں ’مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا ہو گا، مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں اور محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ