ہفتہ 19؍ رجب المرجب 1444ھ11؍فروری 2023ء

کیا ذہنی صحت کیلئے ’بور‘ ہونا اچھا ہوتا ہے؟

نیورو سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ’دماغ کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ کو کبھی کبھار بور ہونے دیں۔ بور ہونے سے ہمارے سماجی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے۔

 بہت سے سوشل نیورو سائنسدانوں کی دریافت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جب ہم کچھ کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارے دماغ کی نیٹ ورکنگ سب سے زیادہ فعال ہوتی ہے۔ 

دوسرے الفاظ میں، تخلیقی خیالات بوریت میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔ ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو بہتر خیالات میں تبدیل کرنے کا یہ اچھا موقع ہوتا ہے‘۔

برطانوی ماہِر نفسیات سینڈی مین کی کتاب ’آرٹ آف بیئنگ بورڈ‘ کی دلیل بھی ایسی ہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بوریت کا احساس اتنا مضبوط اور حوصلہ افزا ہے کہ یہ تخلیقی صلاحیتوں اور سوچ کی بہتری میں اضافہ کر سکتا ہے‘۔ سینڈی کی رائے میں جب بچے بور ہوتے ہیں تو والدین کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں ’بوریت کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ آپ کو اس دوران کچھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اپنی بوریت سے خود ہی لڑنا سیکھنے دیں۔ ان کے اندر کی تخلیقی صلاحیتیں اسی طرح کھل کر سامنے آئیں گی‘۔ ان کا کہنا ہے کہ بور ہونا اچھا نہیں لگتا لیکن اس دوران ہمارے دماغ کی بیٹری چارج ہوتی ہے۔

ایک اور امریکی روزنامہ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ٹِم کریڈر کا کہنا ہے کہ، ’’بیکار بیٹھنا چھٹی جیسی چیز نہیں ہے، یہ ہمارے دماغ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہمارے جسم کے لیے وٹامن ڈی۔

کنفیوژن یا الجھن کی کیفیت ہمارے دماغ کی توجہ اور تجسس کو بڑھاتا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور افادیت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ زندگی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور دیرپا یادیں بنانے میں مدد کرتا ہے۔‘‘

آج کے دور میں دفتری ای میلز، سوشل میڈیا اور ڈیٹنگ ایپس پر مسلسل مصروفیت آپ کی دماغی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ اسے دوبارہ اسی طاقت سے متحرک ہونے کے لیے بریک لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی لیے سینڈی سمیت بہت سے ماہرین معلومات کے اس شور میں بوریت کو ایک حفاظتی عمل سمجھتے ہیں۔

سینڈی کہتی ہیں، ’’بطور بالغ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہم پر معلومات کی بارش ہوتی ہے۔ ہم صرف اس وقت اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب ہمیں اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ 

اس کے علاوہ ، ہم کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ ہمیں اپنی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں سوچنے کی ترغیب اسی وقت ملتی ہے جب یہ تمام چیزیں گھبراہٹ کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے، تھوڑی سی بوریت بھی پیدا کی جائے، تاکہ کچھ نہ کرنے اور اسے قبول کرنے کی خوشی ملتی رہے۔

ان فوائد کے پیش نظر ہمیں بوریت سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنے کے بجائے اسے قبول کرنا چاہیے، ہمیں اپنے ذہن کو آزاد پھرنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ سمجھنے کے لیے کہ ہم اپنی زندگی میں کیا چاہتے ہیں، بوریت ایک موقع ہوسکتا ہے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.