ترکی میں زلزے سے بڑی تعداد میں عمارتوں کے منہدم ہونے کی وجہ زلزلے کی شدت ہے یا حکومتی نااہلی؟
- مصنف, بی بی سی ریئلٹی چیک اور بی بی سی مانیٹرنگ
- عہدہ, ____
ترکی میں زلزلے کے باعث نئے تعمیر کی گئی اپارٹمنٹ بلڈنگز کے منہدم ہونے پر غصہ پایا جاتا ہے۔ بی بی سی کی جانب سے تین نئی تعمیر کی گئی عمارتوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو زلزلے کے بعد تباہ ہوئی تھیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ’بلڈنگ سیفٹی‘ کے بارے میں ہم کیا جان سکتے ہیں۔
ترکی اور شام میں پیر کو دو زلزلے آئے تھے جن کی شدت بالترتیب سات اعشاریہ آٹھ اور سات اعشاریہ پانچ تھی اور ان کے باعث ہر قسم کی عمارتیں منہدم ہو گئی تھیں۔
تاہم ان عمارتوں میں ایسی بھی شامل ہیں جنھیں کچھ عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں بلڈنگ سیفٹی کے معیار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
جدید تعمیری تکنیک کے باعث عمارتوں میں اس شدت کے زلزلے سہنے کی سقت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہاں اس سے قبل بھی ایسی آفات آ چکی ہیں اس لیے سرکاری سطح کچھ اصول و ضوابط بنائے گئے ہیں جو ان عمارتوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہیں۔
ان تین عمارتوں میں سے ایک میں سوشل میڈیا پر شائع کی گئی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ چیختے ہوئے اس سے دور بھاگ رہے ہیں۔
مالاطیہ میں یہ عمارت کا نچلا حصہ گھر رہا ہے جس سے باقی عمارت ترچھی کھڑی ہے اور گرنے کے قریب ہے۔
یہ اپارٹمینٹس گذشتہ برس تعمیر کیے گئے تھے اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک اشتہار کے مطابق اس عمارت کی تشہیر یہ کہہ کر کی گئی تھی کہ یہ ’زلزلہ پروف‘ ہے اور اسے ’سرکاری قواعد و ضوابط کے حساب سے بنایا گیا ہے۔‘
اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں استعمال ہونے والا سارا مواد ’فرسٹ کلاس کوالٹی‘ کا ہے۔ اس وقت اصل اشتہار تو آن لائن موجود نہیں ہے لیکن ایسے دیگر اشتہاروں کے سکرین شاٹس اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
کیونکہ اسے گذشتہ برس تعمیر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے تازہ ترین قواعد کے مطابق بنایا گیا ہو گا جو سنہ 2018 میں اپ ڈیٹ کیے گئے تھے، اور ان میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ جن علاقوں میں زلزلہ آنے کا خدشہ ہے وہاں بہترین معیار کی کنکریٹ استعمال کی جائے اور اسے سٹیل کی بارز سے سہارا دیا جائے۔ تعمیر کے دوران کالمز اور بیمز کو اس طرح سے لگایا جائے کہ وہ زلزلہ سہنے کے قابل ہوں۔
تاہم بی بی سی اس بلاک میں تعمیر کے معیار کے بارے میں تصدیق نہیں کر سکا۔
تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ساحلی شہر اسکندرون میں حال ہی میں تعمیر ہونے والے ایک اور اپارٹمنٹ بلاک بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس 16 منزلہ عمارت کا ایک حصہ مکمل طور پر منہدم ہو گیا ہے جس کے بعد صرف ایک معمولی سا حصہ ہی بچا ہے۔
بی بی سی نے اس تصویر کو ایک ایسی تعمیراتی کمپنی کے اشتہار میں دیکھا ہے جس کےمطابق یہ سنہ 2019 میں مکمل ہوئی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی تازہ ترین قواعد کے مطابق تعمیر کی گئی ہو گی۔ بی بی سی نے تعمیراتی کمپنی سے رابطہ کیا ہے لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بی بی سی کی جانب سے انطاکیہ سے ایک اور تصویر کی تصدیق کی گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نو منزلہ اپارٹمنٹ کمپلیکس مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اس عمارت کا نام گوچلو باہچے ہے۔
ہم نے ہاؤسنگ کمپلیکس کی افتتاحی تقریب کی ویڈیو دیکھی ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسے نومبر 2019 میں مکمل کیا گیا تھا۔
ویڈیو میں سرال کنسٹرکشن کمپنی کے بانی سروت ایٹلس کہتے ہیں کہ ’گوچلو باہچے سٹی پراجیکٹ اپنے محل و وقوع اور تعمیراتی کوالٹیز کے باعث منفرد ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایٹلس نے بتایا کہ ’میں نے حطائے ہزاروں عمارتیں تعمیر کی ہیں۔ بدقسمتی سے اور انتہائی افسوس کے ساتھ صرف دو بلاک منہدم ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ کوئی بھی عمارت اس کے باعث بچ نہیں پائی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ میڈیا ادارے لوگوں کی سوچ تبدیل کر رہے ہیں اور ہمیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔‘
اس پورے متاثرہ علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں عمارتوں کے منہدم ہونے کے بعد ترکی میں متعدد افراد یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ قواعد و ضوابط کی نوعیت ہے کیا۔
یہ زلزلہ یقیناً شدید تھا لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر عمارتیں بہتر انداز میں تعمیر کی جائیں تو اس شدت کے زلزلے سہہ سکتی ہیں۔
یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر ڈیوڈ الیگزینڈر کہتے ہیں کہ ’اس زلزلے کی شدت یقیناً بہت زیادہ تھی لیکن اس سے عمارتیں گرنی نہیں چاہیے تھیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اکثر جگہوں پر جھٹکوں کی شدت بھی کم تھی اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں عمارتوں کا منہدم ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ وہ زلزلے سہنے کے لیے رائج تعمیراتی قواعد پر پوری نہیں اترتی تھیں۔‘
بلڈنگ کی تعمیر کے قواعد رائج کرنے میں ناکامی
ترکی میں تعمیرات سے متعلق قواعد سخت کیے گئے ہیں اور ایسا خاص طور پر سنہ 1999 کے زلزلے بعد کیا گیا ہے جس میں ملک کے شمال مغربی شر ازمت میں 17 ہزار افراد ہلاکت ہوئے تھے۔
تاہم سنہ 2018 میں رائج کیے گئے تازہ ترین قوانین پر عمل درآمد کروانے میں ناکامی عیاں ہے۔
پروفیسر الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ ’اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پرانی عمارتوں کو نئے قواعد کے حساب سے بہتر نہیں بنایا گیا اور نئی عمارتوں میں یہ تعمیراتی قواعد لاگو ہی نہیں کیے گئے۔‘
بی بی سی مشرقِ وسطیٰ کے نامہ نگار ٹام بیٹ مین نے اڈانا شہر میں لوگوں سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ ایک عمارت جو اس زلزلے میں تباہ ہوئی وہ 25 سال قبل آنے والے زلزلے میں متاثر ہوئی تھی لیکن اسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں لیے گئے تھے۔
جاپان جیسے ممالک جہاں کروڑوں افراد گنجان آباد بلڈنگ اپارٹمنٹس میں رہتے ہیں ایک مثال ہیں کہ کیسے بلڈنگ کی تعمیر سے متعلق قواعد لاگو کیے جاتے ہیں۔ جاپان میں زلزلے معمول سے آتے ہیں تاہم لوگ ان سے عموماً محفوظ رہتے ہیں۔
عمارتوں کے تحفظ سے متعلق قواعد عمارت کے استعمال اور اس کے محل وقوع کے مطابق تبدیل ہو سکتی ہیں۔ ان میں انھیں مضبوط بنانا، پوری عمارت میں موشن ڈیمپرز کا استعمال اور پوری عمارت کو ’شاک ایبزوربر‘ پر تعمیر کرنے سے یہ زمین سے جدا ہو جاتی ہے۔
قواعد کی خلاف ورزی عام کیوں ہے؟
ترکی میں حکومت نے ماضی ’تعمیراتی ایمنسٹی‘ فراہم کی ہے۔ یہ ایسی عمارتوں کے لیے ایک معمولی رقم ہے جو اس بارے میں سرٹیفیکٹس کے بغیر بنائی جاتی ہیں۔ یہ ایمنسٹیاں سنہ 1960 سے لے کر آج تک دی جا رہی ہیں۔
ناقدین نے ایک عرصے سے ان ایمنسٹیوں کی خطرناک نتائج کے بارے میں کوشش کی ہے۔
استنبول کے یونین آف چیمبرز آف ترک انجینیئرز اینڈ آرکیٹیکٹس چیمبر آف سٹی پلانرز کے سربراہ کے مطابق جنوبی ترکی میں تقریباً 75 ہزار عمارتوں میں تمعیرات میں ایمنسٹی دی جا چکی ہے۔ جنوبی ترکی وہ علاقہ ہے جو زلزلے سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوا ہے۔
اس آفت کے آنے سے چند روز قبل ہی ترک میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ ایک نیا قانون پاس کیا جا رہا ہے جس سے حالیہ تعمیرات پر مزید ایمنسٹی دی جا سکتی ہے۔
جیولوجسٹ سیلال سینگور نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ ایک ایسے ملک میں تعمیراتی ایمنسٹی جہاں فالٹ لائنز ہوں ایک ’جرم‘ سے کم نہیں۔
جب سنہ 2020 میں زلزلے نے مغربی صوبے ازمیر کو متاثر کیا تھا کہ تو بی بی سی ترکی نے رپورٹ کیا تھا کہ چھ لاکھ 72 ہزار عمارتوں کو ایمنسٹی دی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وزارت ماحولیات اینڈ اربنائزیشن کے مطابق سنہ 2018 میں ترکی میں 50 فیصد عمارتیں جو تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہیں میں ان قواعد کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
جب اس وزارت سے ان قواعد کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی ایسی عمارت نہیں گری جو ہماری جانب سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس حوالے سے نقصان کا جائزہ لیا جاتا رہے گا۔‘
اضافی رپورٹنگ: اولگا سمرنووا، الیکس مرے، رچرڈ اروائن- براؤن اور دلے یالسین۔
Comments are closed.