’یہودی طالبان‘ سے فرار: ’میں نے روزانہ انھیں کم عمر لڑکوں کو اپنے کمرے میں لے جاتے دیکھا‘

  • مصنف, رفیع برگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز آن لائن
  • مقام مڈل ایسٹ ایڈیٹر

لیو طہور

،تصویر کا ذریعہEPA-EFE

،تصویر کا کیپشن

لیو طہور کینیڈا میں تفتیش کے بعد وسطی امریکہ آ کر میں آباد ہوگیا

جب میکسیکو کی پولیس نے ایک خود ساختہ یہودی فرقے پر چھاپہ مارا تو سابق ارکان کو امید تھی کہ اس سے اس گروہ کا خاتمہ ہو جائے گا، جس پر بچوں کے خلاف جرائم کا الزام ہے۔ لیکن ایسا ہونے کے بجائے، کیس ختم ہو گیا اور فرقہ بحال ہو گیا لیکن اس سے پہلے اس برادری کے بارے میں بڑے پیمانے پر زندگیاں قربان کرنے سمیت استحصال کی تفصیلات سامنے آئی تھیں۔

حال ہی میں فرار ہونے والے ایک سابق رکن نے بی بی سی کو خود پر گزرے مشکل حالات کی روداد سنائی۔

انتباہ: اس کہانی میں جسمانی اور جنسی استحصال کی تفصیلات شامل ہیں۔

جب یسرائیل امیر کی شادی ہوئی، تو وہ اور ان کی دلہن روایتی یہودی شادی کی چھتری چپہ کے نیچے کھڑے تھے، جس کے ارد گرد ان کی برادری کے افراد تھے۔ لیکن جوڑے کا سب سے خوشی کا دن ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔

یسرائیل اور اس کی بیوی مالکے (اس کا اصل نام نہیں)، دونوں 16 سال کے تھے اور وہیں پہلی بار ملے تھے۔ شادی کا اہتمام گروپ کے رہنماؤں نے کیا تھا جس میں وہ بچپن میں لائے گئے تھے۔ یہ گروپ لیو طہور ہے یعنی ’پاک دل‘ ہے۔ جو یہودیت کا ایک بنیاد پرست ورژن ہے۔ سابق ممبران اور ایک اسرائیلی عدالت کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک فرقہ ہے۔

’ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا‘ یسرائیل، جو اب 22 سال کے ہیں، انھوں نے مجھے بتایا۔ ہم تل ابیب کے بالکل جنوب میں، ان کی خالہ کے گھر کے پچھلے صحن میں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ربی نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور کہا، اگلے ہفتے آپ کی شادی ہو رہی ہے۔ اگر آپ انکار کرتے ہیں تو آپ کو سزا دی جائے گی۔‘

’میری بہن 13 سال کی تھی اور انھوں نے اسے ایک 19 سال کے لڑکے سے شادی کرنے پر مجبور کیا، وہ رو رہی تھی۔ وہ اتنا روئی کہ انھوں نے اس کے بولنے پر ایک سال کے لیے پابندی لگا کر اسے سزا دی۔ وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکتی تھی، نہ کھانے مانگنے کے لیے، نہ بیت الخلا جانے کے لیے کچھ نہیں۔‘

یہ گوئٹے مالا میں گروپ کے ایک کمپاؤنڈ میں زندگی کا معمول تھا، جہاں شادی کی قانونی عمر مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے 18 سال ہے۔ لیو طہور کے زیادہ تر افراد 2013 میں کینیڈا سے فرار ہونے کے بعد وسطی امریکی ملک میں آباد ہوئے تھے، جہاں انھیں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کا سامنا تھا۔ وہ ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔

یسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کی بہن ایک سال کی سزا ختم ہونے کے بعد ٹھیک سے بول نہیں سکتی تھی۔ یسرائیل اور دیگر سابق اراکین کے مطابق یہ سلوک رہنماؤں اور گروپ میں اختیارات کے حامل افراد کی طرف سے کی جانے والی مبینہ زیادتیوں میں سے ایک ہے۔

مبینہ طور پر ان میں معمولی خلاف ورزیوں پر مار پیٹ بھی شامل ہے، بچوں کو مارنے کے بعد انھیں اذیت دینے والوں کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

لیکن، یسرائیل کے مطابق، اس سے کہیں زیادہ بترین سلوک ہوتا۔

’میں نے ہر روز شلومو ہیلبرنس (لیو طہور کے بانی) اور ایک اور رہنما کو لڑکوں کو اپنے کمرے میں لے جاتے دیکھا، جو آٹھ سال کی عمر کے لڑکے تھے، پھر اس کے بعد انھوں نے انھیں میکوہ (طہارت کے لیے استعمال ہونے والے رسمی غسل) کے لیے بھیج دیا۔ تب مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ انھوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ اب میں جانتا ہوں۔‘

یسرائیل کا کہنا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں نے انھیں بتایا کہ ان کا جنسی استحصال اور ریپ کیا گیا۔

بی بی سی نے ریپ کا نشانہ بننے والے مبینہ بچوں سے بات کرنے کی کوشش کی جنھوں نے گروپ چھوڑ دیا تھا، لیکن کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ امریکہ میں مقیم ایک سپورٹ گروپ، لیو طہور سروائیورز (ایل ٹی ایس) نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے ممبران میں بچپن میں ریپ کا نشانہ بننے والے بھی ہیں، جب کہ سرکاری تحقیقات میں شامل ذرائع کا کہنا ہے کہ وسطی امریکی حکام کے پاس سابق اراکین کے حلفیہ بیانات ہیں کہ ریپ کیا گیا۔

یسرائیل کا کہنا ہے کہ ’ہیلبرنز نے اپنے آپ کو مسیحا جیسی شخصیت کے طور پر پیش کیا جو اپنی پسند کی چیزیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ ایک مقدس آدمی تھا۔‘

’اس نے ہمیں بتایا کہ وہ آسمان سے لوگوں کی اصلاح کے لیے آیا تھا اور اس کے پاس مافوق الفطرت طاقتیں تھیں اور اس کے پیروکار اس پر یقین کرتے تھے۔‘

یسرائیل کا کہنا ہے کہ گروپ کا اپنے ارکان پر کنٹرول کرنے کے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ بچوں کو ان کے والدین سے دور کر کے انھیں نئے ’خاندانوں‘ کے ساتھ رکھا جائے۔ حقیقی والدین کو ان کے ساتھ مزید رابطہ رکھنے سے منع کیا جاتا ہے۔

یسرائیل کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ 12 سال کی عمر میں انھیں اسرائیل میں ان کے گھر سے، اپنے چھ بہن بھائیوں کے ساتھ، گوئٹے مالا سٹی میں گروپ میں شامل ہونے کے لیے ان کے والد شاول لے گئے۔ یسرائیل کا کہنا ہے کہ لیو طہور نے ان کے خاندان سے جھوٹا وعدہ کیا تھا کہ گوئٹے مالا میں زندگی جنت ہوگی، بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے جانور ہوں گے۔

اس کے بجائے ’یہ ایک مکمل جھٹکا تھا‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سب کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا تھا۔ بچوں کو پتھر کے فرش پر سونا پڑتا تھا۔ ہم روزانہ صبح 3 بجے کے قریب بیدار ہوتے تھے، پھر دن بھر کی دعائیں، نہ کھانا، نہ پانی، نہ دوسرے بچوں سے بات کرنا۔ اگر ربی لیکچر دیتے تو یہ گھنٹوں چلتا رہتا، کبھی کبھی میں کھڑے کھڑے سو جاتا۔‘

’ہر ایک چیز کو کنٹرول کیا گیا تھا۔ آپ صرف ٹوائلٹ بھی اسی وقت جا سکتے تھے جب وہ کہیں تو۔‘

’ہمارے پاس کوئی تعلیم نہیں تھی۔ ہم نے تورات یا تلمود (قوانین کی ایک بنیادی کتاب) کا مطالعہ بھی نہیں کیا کیونکہ اس سے ہمارے ذہن کھل جاتے، صرف ہیلبرنس کی تحریریں، جو ہمیں دل سے سیکھنی تھیں۔ رات گیارہ بجے تک ہم سوتے نہیں تھے۔‘

یسرائیل کا کہنا ہے کہ ارکان کو صرف کچھ سبزیاں اور پھل کھانے کی اجازت تھی۔ رہنماؤں نے جینیاتی انجینئرنگ سے متاثر ہونے کے شبے کے باعث گوشت، مچھلی اور انڈوں پر پابندی لگا دی۔ انھوں نے کہا کہ اس نے انھیں غیرکوشر (یہودی غذائی قوانین کے تحت ممنوع) بنا دیا۔ یسرائیل کا خیال ہے کہ اصل وجہ صرف ارکان کو پروٹین سے محروم کر کے کمزور رکھنا تھا۔

لیو طہور

،تصویر کا ذریعہRAFFI BERG

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کی خالہ اوریٹ لیو طہور کے خلاف لڑائی میں شامل رہیں

’حالانکہ، ہیلبرنس وہ سب کچھ کھاتے تھے جو وہ چاہتے تھے انڈے، مچھلی، گوشت۔ وہ کہتے کہ یہ ان کی صحت کے لیے ہے، اور آپ کو اس پر سوال کرنے کی اجازت نہیں۔‘

ہیلبرنز 2017 میں میکسیکو میں دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کے بیٹے، ناچمن نے ان کی جگہ لی جو امریکی عدالتی دستاویزات میں اپنے والد کے مقابلے میں ’زیادہ انتہا پسند‘ بتائے گئے ہیں۔

یسرائیل کا کہنا ہے کہ ’جب مجھے بچپن میں وہاں لے جایا گیا تھا، میں صرف اتنا جانتا تھا کہ یہ سب کچھ غلط ہے لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا تھا، لیکن بعد میں مجھے صرف یہ پتا تھا کہ مجھے یہاں سے باہر نکلنا ہے۔‘

یہ موقع اس وقت ملا جب ان کی بیوی مالکے کے ہاں شادی کے دو سال بعد ایک لڑکا، نیوو پیدا ہوا۔

’وہ جانتے تھے کہ آپ ہر وقت کہاں ہوتے ہیں، لیکن ایک دن رہنماؤں نے مجھے قصبے میں کچھ پرنٹ کروانے کے لیے بھیجا (اوراتوریو، جہاں گروپ منتقل ہوا تھا)۔ یہ ایک انٹرنیٹ سٹور تھا، اور مجھے یاد آیا کہ کمپیوٹر کیسا لگتا ہے۔ میں بچپن میں اپنے گھر میں دیکھ تھا۔ میں اسے استعمال کرنے کا طریقہ نہیں جانتا تھا، اس لیے میں نے سٹور کے مالک سے مدد مانگی۔‘

گوگل کے بارے میں جاننے کے بعد یسرائیل نے مالک سے لیو طہور کو تلاش کرنے کو کہا اور اس نے جو پایا اس نے انھیں حیران کر دیا۔ ’اس فرقے کے بارے میں مضامین تھے، اور اس نے میری سوچ کی تصدیق کی۔‘

نتائج میں یہ رپورٹس بھی تھیں کہ ادھر اسرائیل میں اس کی خالہ اورٹ اس گروپ سے کیسے لڑ رہی تھیں۔

یسرائیل کا کہنا ہے کہ ’میں نے سوچا کہ اوریٹ ہمیں بھول گئی ہیں، میں نہیں جانتا تھا کہ وہ ہمارے خاندان کو بچانے کے لیے سب کچھ کر رہی ہے۔‘

یسرائیل نے ان کا ای میل ایڈریس تلاش کیا اور انھیں ایک پیغام بھیجا۔ اوریٹ کا کہنا ہے کہ وہ یہ پیغام پا کر حیران رہ گئی تھیں۔ انھوں نے بات چیت شروع کر دی، جب بھی یسرائیل کو کام پر بھیجا جاتا تھا تو وہ اسی دکان پر آتے۔ پھر چھپ کر کمائی ہوئی رقم کا استعمال کرتے ہوئے، یسرائیل نے ایک موبائل فون خریدا اور اپنی خالہ کو فون کیا۔

’جب انھوں نے میری آواز سنی تو وہ بہت خوش ہوئیں‘۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں ’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے باہر نکالنے کے لیے آئیں گی اور اس کے کچھ دنوں بعد میں فرار ہو گیا۔‘

’ایک رات میں گیٹ سے باہر نکلا اور جنگل میں 15 منٹ تک بھاگتا رہا یہاں تک کہ میں ایک ہائی وے پر آگیا۔ میں نے ایک بس روکی اور وہ مجھے گوئٹے مالا سٹی لے گئی، جو تقریباً دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ میں خوفزدہ تھا کہ ممبران مجھے ڈھونڈتے ہوئے آئیں گے۔‘

’اوریٹ میرا انتظار کر رہی تھیں لیکن میں نے انھیں پہچانا نہیں تھا اور پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اسے گلے لگاؤں یا نہیں کیونکہ وہ لیو طہور میں خواتین کی طرح لباس نہیں پہنتی تھیں، جہاں (شادی سے باہر) جنس مخالف کو چھونا سختی سے منع تھا۔‘

اس گروپ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی تین سال کی عمر کی خواتین کے لیے پورے جسم کا لباس پہننا ضروری ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ شائستگی کے لیے ہے۔ عوام میں، خواتین کو اپنی آنکھوں کے علاوہ اپنے چہرے بھی ڈھانپتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے میڈیا رپورٹس میں لیو طہور کو ’یہودی طالبان‘ کا نام دیا گیا۔

لیو طہور

،تصویر کا ذریعہRAFFI BERG

،تصویر کا کیپشن

باہر کی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے لیے یہ کمیونٹی جنگل میں رہتی تھی(نگرانی کی تصویر)

پہلے تو یسرائیل اپنے بیٹے کے بغیر جانا نہیں چاہتے تھے، لیکن اوریٹ نے وعدہ کیا کہ وہ بچے کے لیے واپس آئیں گے، اور وہ گوئٹے مالا سے اسرائیل کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس وقت 19 سالہ یسرائیل پانچ سال سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے اور انھیں ایڈجسٹ کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے صفر سے زندگی کا آغاز کرنا تھا، لوگوں سے ملنا، دوست بنانا، یہاں تک کہ زبان دوبارہ سیکھنا، یہ بہت مشکل تھا۔‘

وہ اور اوریٹ کئی بار گوئٹے مالا واپس آئے تاکہ یسرائیل کے بیٹے کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اس کے بعد گذشتہ ستمبر میں یسرائیل کی ایک چار رکنی ٹیم (بشمول موساد کے سابق ایجنٹس، ایک سابق پولیس افسر اور ایک وکیل) کے خفیہ آپریشن کے بعد ایک ایلیٹ پولیس یونٹ نے میکسیکو کی چیاپاس ریاست میں لیو طہور کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا، جہاں سے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ گروپ کو منتقل کر دیا گیا تھا۔

ایک ریاستی جج نے میکسیکو کے منظم جرائم کے خصوصی پراسیکیوٹر کی جانب سے جمع کردہ منشیات کی سمگلنگ اور عصمت دری سمیت مجرمانہ سرگرمیوں کے شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد اس چھاپے کی اجازت دی تھی۔

بی بی سی نے جو شواہد دیکھے ان میں ایک رہنما کی جانب سے جاری حکم نامہ بھی شامل ہے جس میں ماؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر فلاحی خدمات کے ادارے ان کے بچوں کو لینے آئیں تو وہ اپنے بچوں کو زہر دے دیں۔

دستاویز کے مطابق ’اگر کچھ لوگ ہمارے بچوں کو ہم سے چھیننے کے لیے آتے ہیں۔۔۔ ہمیں جانیں قربان کرنی پڑیں گی تاکہ ملعون ہمارے پاکیزہ بچوں کی روح کی بے حرمتی نہ کریں۔۔۔ جس طرح مرنے سے پہلے ہمارے مقدس (شلومو ہیلبرنس) نے ہدایت کی تھی۔۔۔یہ اس طرح کیا جانا چاہیے کہ بچوں کو تکلیف نہ پہنچے اور نہ ہی ان کے جسم کو بگاڑیں۔۔۔ اس لیے وہ (خواتین) استعمال کریں گی جو ہم تقسیم کریں گے جو بچوں کو فوری طور پر دیا جائے گا۔۔۔ انھیں سمجھائے بغیر یہ کیا ہے تاکہ وہ خوفزدہ نہ ہوں۔‘

اس کے بعد حکم نامہ میں عورتوں کو بچوں کو مارنے کے بعد خود کشی کرنے کی ہدایت کی گئی۔

یسرائیل

،تصویر کا ذریعہYISRAEL AMIR

،تصویر کا کیپشن

چھاپے میں بیٹے کی رہائی کے بعد یسرائیل نیوو کے ساتھ واپس اسرائیل چلا گیا

احتیاطاً بچوں کو بڑوں سے فوری طور پر الگ کر دیا گیا اور کمپاؤنڈ کو خالی کر دیا گیا۔

نیوو ان لوگوں میں شامل تھے جو باہر لائے گئے تھے اور یسرائیل کو ملے۔ یسرائیل کہتے ہیں ’میں رویا لیکن نیوو پرسکون تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے محسوس کیا کہ میں اس کا باپ ہوں۔‘

مالکے کو بھی نکالا گیا لیکن انھوں نے گروپ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ انھیں اور دو درجن دیگر افراد کو ایک سرکاری پناہ گاہ میں رکھا گیا تھا، لیکن پانچ دن بعد وہ فرار ہو گئے۔ انسانی سمگلنگ اور سنگین جنسی جرائم کے شبے میں ریاستی جج کے حکم پر گرفتار کیے گئے دو رہنماؤں کو مقامی جج نے رہا کر دیا۔

لیو طہور کے ہاتھوں بدسلوکی کے الزامات سے متعلق یسرائیل کے بیانات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی لیکن یہ دوسرے سابق اراکین کی گواہی سے مماثل ہے۔

لیو طہور کے ترجمان، یوریل گولڈمین نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہوں۔ ہمارے پاس سب سے بڑا ثبوت میکسیکو میں جج کے الفاظ ہیں۔ تمام ثبوت سننے کے بعد، جج نے فیصلہ کن طور پر کیس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

گولڈمین نے کہا کہ یہ گروپ ’ایک ظلم‘ کا شکار ہوا۔

ذرائع کے مطابق میکسیکو میں سرکاری پناہ گاہ سے فرار ہونے والے تمام افراد کے ساتھ ساتھ آزاد کیے گئے دو رہنما گوئٹے مالا واپس آ گئے ہیں۔

تقریباً 8,000 میل دور، یسرائیل اب تل ابیب کے مضافات میں اپنے نئے گھر میں نیوو کے ساتھ اپنی زندگی دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔ برسوں تک ٹیکنالوجی کے استعمال سے دور رکھے جانے کے بعد اب وہ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ سافٹ ویئر انجینئر بننا چاہتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ