برطانیہ میں دہشت گردی کی طرف راغب افراد کی اصلاح کیلئے بنائی گئی اسکیم پریونٹ (prevent) کے جائزے کے بعد اس میں متعدد اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے۔
مسلم تنظیموں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جائزے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں دہشت گردی کے انسداد کیلئے بنائی جانےوالی اسکیم پریونٹ حملہ آوروں کی نشاندہی میں ناکام رہی ہے، اس بات کا اظہار وزرا کی ہدایت پر اسکیم کے حوالے سے جائزہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
ہوم سیکرٹری سویلا بریورمین نے جائزہ رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ پریونٹ اسکیم میں اہم اصلاحات کی ضرورت ہے جبکہ چند اراکین پارلیمنٹ سمیت ایمنسٹی انٹرنیشنل اور متعدد اسلامی تنظیموں نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
پریونٹ اسکیم برطانیہ میں دہشت گردی کے انسداد کیلئے متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت عوامی اداروں بشمول پولیس اور اسکولوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ایسے افراد جو شدت پسندی کی طرف راغب ہو سکتے ہیں ان کی نشاندہی کریں تاکہ ان کے نظریات کو بدلنے کیلئے انہیں پریونٹ اسکیم میں شریک کیا جائے۔
2021 میں وزراء نے چیریٹی کمیشن کے سابق چیئرمین اور یورپ میں اسلام پسند سیاسی رسوخ کے نقاد ولیم شاکراس کو پریونٹ اسکیم کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
اپنی جائزہ رپورٹ میں مسٹر شاکراس نے کہا کہ اسکیم نے کچھ لوگوں کو دہشت گردی سے دور رہنے میں مدد کی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی میں ایسے افراد بھی ملوث پائے گئے جو کہ پریونٹ اسکیم کا حصہ رہ چکے تھے۔
پریونٹ ایسے افراد کے معاملےمیں خطرے کو محسوس کرنے میں ناکام رہا اور اس جائزے میں یہ سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ مستقبل میں ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
پریونٹ جس کا مقصد قومی سطح پر دہشت گردی کو شناخت کرنا ہے اس نے ایک ایسے گروپ کو بھی مالی مدد فراہم کی جس کا سربراہ طالبان کا ہمدرد تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پریونٹ کو اپنے بنیادی مقصد کی طرف لوٹنا ہوگا جس کے تحت لوگوں کو دہشت گرد بننے یا دہشت گردوں کی حمایت کرنے سے روکنا ہے۔
مسٹر شاکراس کے مطابق وہ مسلسل اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہے کہ پریونٹ کے 49 ملین پاؤنڈ کا بجٹ کا حصہ جن تنظیموں کو ملا، انہوں نے کمیونٹی پر کیا اثر ڈالا۔ فنڈنگ اکثر ایسے عام منصوبوں کو دی گئی جو کہ کمیونٹی کو یژن یا بیٹ کرائم کے حوالے سے کام کر رہے تھے۔ حکومت کو ایسے گروپوں کی امداد بند کر دینی چاہئے جو کہ انتہا پسندی میں ملوث افراد کے ساتھ رابطوں میں ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکیم کے انتہاپسندی کی وجوہات سے نمٹنا اور دہشت کی طرف مائل افراد کے نظریات کو تبدیل کرنے کے بنیادی مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اسکیم غیر متشدد اسلامی انتہاپسندی کا مقابلہ کیلئے بھی ناکافی ہے۔ جائزے میں 34 سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ ایسے اسلامک گروپ یا دیگر گروپس کی فنڈنگ روک دی جائےجو انتہاپسندی کو روکنے کیلئے ہونے والے کام میں براہ راست ملوث نہیں۔
ہوم سیکرٹری سویلا بریورمین نے کہا کہ پریونٹ میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور وہ جائزے میں پیش کردہ تمام سفارشات پر عمل کرکے آئندہ برس اس حوالے سے رپورٹ پیش کرینگی۔ پریونٹ نے اسلاموفوبیا کے الزام کے خوف سے اسلام ازم سے نمٹنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، جبکہ اس کی تمام توجہ سیاست کی بجائے سیکورٹی پر ہونی چاہئے۔
سابق لیبر لیڈر جیریمی کوربن نے ہوم سیکرٹری کو مشورہ دیا کہ وہ مسلم کونسل آف برٹین سے ان کی خدمات کے بارے میں بات کریں۔ محترمہ بریورمین نے جواب میں کوونٹری ساؤتھ سے رکن پارلیمنٹ زارا سلطانہ نے کہا کہ جب حکومت نے ولیم شاکراس کو جائزہ کیلئے سربراہی کیلئے مقرر کیا تھا تو 450 سے زائد مسلم تنظیموں کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کابائیکاٹ کیا تھا، کیونکہ مسٹر شاکراس کے مسلم مخالف رویہ سےسب واقف ہیں وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’یورپ اور اسلام ہمارے مستقبل کیلئے خوفناک مسئلہ ہیں‘‘۔
اس کے جواب میں ہوم سیکرٹری نے کہا کہ ان کے پاس مسٹر شاکراس کا شکریہ اداکرتی ہوں جنہوں نے اتنی اعلیٰ معیار کی رپورٹ پیش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس ایسی مثالوں کی طویل فہرست ہے کہ لیبرپارٹی کے ارکان یا کونسلرز انتہاپسند گروپوں کی حمایت یا ان کے ساتھ کام کرتے رہے، لیبر پارٹی کا اس حوالے سے ٹریک ریکارڈ شرمناک ہے اور اس مسئلہ کو فوری طور پر حل کرنا چاہئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ اس جائزے کی ’’کوئی قانونی حیثیت نہیں‘‘ہے۔ دائیں بازو کے انتہاپسند کے ہاتھوں قتل کر دی جانے والی رکن پارلیمنٹ جوکاکس کے شوہر برینڈن کاکس نے کہا کہ اس جائزے سے اسکیم کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچے گا۔ لیبر شیڈو ہوم سیکرٹری یووہٹ کوپر نے کہا کہ مختلف قسم کی انتہاپسندی کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا نقصان دہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لیبر پارٹی انتہاپسندی سے نمٹنے کیلئے ایک ایسی وسیع البنیاد حکمت عملی کا مطالبہ کر رہی ہے جس میں نفرت انگیز انتہاپسندی، آن لائن انتہاپسندی، جیلوں میں یا جس جگہ بھی یہ پائی جائے اس سے نمٹنا شامل ہے۔جبکہ یہ جائزہ رپورٹ اس حوالے سے ناکام نظر آتی ہے۔
Comments are closed.