شمالی کوریا: کِم جونگ اُن کی بیٹی ہی ان کی جانشین ہے؟
- مصنف, جین مکنزی
- عہدہ, بی بی سی نامہ نگار، سیول
کِم جونگ اُن اپنی بیٹی کے ہمراہ میزائل پریڈ کا معائنہ کر رہے ہیں
بدھ کی رات شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ میں مونسٹر میزائلوں کی قطاریں گزر رہی تھیں۔ لیکن یہ صرف ان کے ہتھیار نہیں تھے جنھیں کم جونگ اُن ملاحظہ کر رہے تھے۔ ہتھیاروں کے اس مظاہرے میں ان کی بیٹی بھی موجود تھی۔
جب شمالی کوریا کے رہنما نے اپنی معمول کی پریڈ کی پوزیشن سنبھالی تو بالکونی کے وسط میں ان کے ساتھ غیر معمولی طور پر سیاہ لباس میں ملبوس ایک نوجوان لڑکی بھی موجود تھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی دوسری بڑی اولاد ہے، اور ان کا نام کم جو-اے، اورعمر تقریباً 10 سال ہے۔
تین ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ پانچویں بار ہے کہ وہ کسی عوامی اجتماع میں نظر آئی ہیں۔
اس مختصر عرصے کے دوران وہ ایک قابل ذکر تبدیلی سے گزری ہیں، جس سے اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ انھیں شمالی کوریا کے مستقبل کے رہنما کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔
جب وہ پہلی بار گزشتہ سال نومبر میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کے لانچ کے موقع پر نمودار ہوئیں تو قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں۔ بہت سے لوگوں نے سرگوشی کی: کیا یہ لڑکی ایک دن دنیا کی سب سے خفیہ ریاست کی قیادت کرے گی؟
لیکن اس وقت یہ سوچنا ذرا دور کی کوڑی لانے کے مترادف تھا۔
اپنے والد کا ہاتھ تھامے ہوئے، وہ بہت چھوٹی لگ رہی تھیں۔ شاید مسٹر کم صرف اپنے آپ کو ایک اچھے والد کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے یا یہ جتلانا چاہتے تھے کہ ان کا خاندان اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ یہاں رہنے کے لیے موجود ہے۔
لیکن ہر بار سامنے آنے کے بعد لگا کہ نوجوان کِم کا قد کاٹھ بڑھا ہے۔
منگل کی رات پریڈ سے پہلے انھوں نے شمالی کوریا کے اعلی فوجی عہدیداروں کے لیے ایک ضیافت میں شرکت کی۔ یہ تصاویر شمالی کوریا پر نظر رکھنے والے بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھیں۔ ہر تصویر میں وہ مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، اپنی ماں اور والد کے درمیان بیٹھی ہیں، اور فوجی افسران میں گھری ہوئی ہیں۔
ایک اور دلچسپ بات نوجوان مس کم کا تعارف کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب ہے۔
انھیں سب سے پہلے سرکاری میڈیا میں کم جونگ اُن کی ’پیاری‘ بیٹی کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ منگل کی فوجی ضیافت تک انھیں ’قابل احترام‘ بیٹی کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ یہ حیثیت صرف سب سے زیادہ قابل احترام افراد کے لئے مخصوص ہے۔ کم جونگ ان کی مستقبل کے رہنما کے طور پر حیثیت مستحکم ہونے کے بعد ہی انہیں ’قابل احترام کامریڈ‘ کہا جانے لگا۔
اپنے قیام سے لے کر اب تک شمالی کوریا پر کم خاندان کی تین نسلوں کی حکومت رہی ہے۔ اس کے شہریوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ خاندان ایک مقدس نسب سے تعلق رکھتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ صرف وہی ملک کی قیادت کر سکتے ہیں۔ کم جونگ ان اس بات کو یقینی بنانا چاہیں گے کہ وہ چوتھی نسل کو یہ ذمہ داری سونپیں۔
لیکن اگر محترمہ جوئے وارث ہیں بھی، تو انھیں اتنی جلدی اور اتنی تیزی سے متعارف کیوں کرایا جا رہا ہے؟ کم جونگ کی عمر صرف 39 سال ہے اور ان کی بیٹی ابھی ایک بچی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کم جونگ ان کو ان کے والد کم جونگ ال کے جانشین کے طور پر اس وقت ظاہر کیا گیا تھا جب وہ آٹھ سال کے تھے، لیکن وہ صرف فوجی رہنماؤں کے ساتھ نجی طور پر بات چیت کرتے تھے۔
عوامی سطح پر یہ ان کے والد کی موت سے تقریباً ایک سال پہلے ہی واضح کیا گیا تھا۔ اس سے انھیں کام کا مشکل آغاز ملا، کیونکہ انھوں نے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے بے رحمی سے کام کیا۔
شاید وہ اپنی بیٹی کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنا کر کہ جب وہ عہدہ سنبھالے گیں تو ان کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہو گی۔ شاید ان کی اپنی صحت اچھی نہیں ہے، اور ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
اپنے والد اور ماں درمیان بیٹھی ہوئی کم سن بیٹی فوجی افسران کے ہمراہ ضیافت میں شریک
کم جونگ ان کو زیادہ وقت اس لیے بھی چاہیے کہ وہ انتہائی پدرشاہی معاشرے کے تعصبات پر قابو پا سکیں۔ شمالی کوریا کی قیادت کبھی بھی کسی خاتون نے نہیں کی، اگرچہ کہ کچھ خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اور اس کی نمایاں مثال کم جونگ ان کی بہن کم یو جونگ ہیں۔
شمالی کوریا کے مانیٹرنگ پلیٹ فارم این کے نیوز کے تجزیہ کار جیمز فریٹویل کے خیال میں یہ نا ممکن بھی نہیں ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ شمالی کوریا مردوں کے غلبے والا معاشرہ ہے لیکن یہ کِم کے تابع بھی ہے۔ کسی بھی چیز سے بڑھ کر ان کا شجرۂ نسب انھیں ممکنہ قائدانہ امیدوار بنا دے گا۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہو گی کہ اگر حکمراں کم خاندان سے باہر کوئی مرد یا عورت ہو جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک عورت کو سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہوگی عوام، فوج اور اشرافیہ انھیں صحیح معنوں میں قبول کر لے۔
اس بات کی کوئی ضمانت تو نہیں دی جا سکتی کہ کم جو ای ہی شمالی کوریا کی آیندہ رہنما ہوں گی، مگر عوامی منظر نامے میں ہر بار ان کی موجودگی سے لگتا ہے کہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔
اضافی رپورٹنگ: کیلی این جی
Comments are closed.