چیٹ جی پی ٹی: مصنوعی ذہانت کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے سیم آلٹمین کون ہیں؟
ہم نے سوچا کیوں نہ سیم آلٹمین کی زندگی کے بارے میں معلومات کے لیے اس انقلابی مصنوعی ذہانت کے نظام ،چیٹ جی پی ٹی، سے ہی سوال کیا جائے جو انھوں نے 2015 میں اوپن اے آئی نامی کمپنی بنانے کے بعد ایجاد کیا۔
30 نومبر کو لانچ ہونے والے چیٹ جی پی ٹی نامی ورچوئل روبوٹ نے ہمیں بتایا کہ ’سیم آلٹمین ایک امریکی کاروباری ہیں جو اوپن اے آئی نامی کمپنی کے صدر ہیں اور لووپٹ نامی کمپنی کے سی ای او رہ چکے ہیں۔‘
اپنے جواب میں اس روبوٹ نے ہمیں آگاہ کیا کہ ’سیم آلٹمین ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک بااثر شخصیت مانے جاتے ہیں جو مصنوعی ذہانت پر لیکچر بھی دیتے ہیں۔‘
اس روبوٹ نے ہمیں جو معلومات فراہم کیں وہ حقائق پر مبنی تھیں کیونکہ اس سسٹم کا کہنا ہے کہ یہ کسی فرد کی ذات یا کردار پر کوئی بیان نہیں دیتا تاہم چیٹ جی پی ٹی جیسی تکنیکی جدت کے ذریعے دنیا کو بدلنے کا خواب دیکھنے والے سیم آلٹمین کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ہم نے روایتی ذرائع کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
سیموئیل ایچ آلٹمین کے دی نیو یارکر کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے مطابق انھوں نے آٹھ سال کی عمر میں ایپل کے پہلے کمپیوٹر میکنٹوش کی پروگرامنگ سیکھ لی تھی۔
اسی انٹرویو میں سیم آلٹمین نے کہا تھا کہ کمپیوٹرز نے ان کو اپنی جنسی شناخت کی دریافت میں بھی مدد دی کیونکہ وہ کمپیوٹر کے ذریعے نوجوانی میں لوگوں سے بات چیت کر سکتے تھے۔
16 سال کی عمر میں سیم آلٹمین نے اپنے والدین کو مطلع کیا کہ وہ ہم جنس پرست ہیں۔ بعد میں انھوں نے اپنے سکول میں بھی یہ اعلان کیا۔
سیم آلٹمین نے کمپیوٹر سائنس پڑھنے کے لیے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن اپنی ڈگری مکمل نہیں کی۔
چند دوستوں کے ساتھ انھوں نے ایک ایسی ایپ پر کام کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ذریعے لوگ اپنا موجودہ مقام کسی کو بتا سکتے ہوں۔
یہ 2005 کی بات ہے جب واٹس ایپ نہیں تھا اور ابھی فیس بک منظر عام پر آیا تھا۔
ان کی اس ایپ، جس کا نام لووپٹ تھا، کو زیادہ کامیابی نہیں ملی لیکن اس نے سیم آلٹمین کے کاروباری کیریئر کا آغاز کیا اور ان کے لیے ٹیکنالوجی کی دنیا میں سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیے۔
لووپٹ کی حمایت کرنے والی کمپنی وائے کومبینیٹر نئے تصورات میں سرمایہ کاری کرتی تھی۔
سیم آلٹمین نے اپنا پہلا پراجیکٹ 40 ملین امریکی ڈالر کے عوض فروخت کیا اور وائے سی کمپنی کی چھتری تلے نئے خیالات کا پیچھا کرنا شروع کیا۔
2014 سے 2019 تک انھوں نے وائے سی کی سربراہی بھی کی۔ اسی عرصے میں انھوں نے ایلون مسک کے ساتھ مل کر اوپن اے آئی نامی کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ یہ ایک ایسی دنیا میں پہلا قدم تھا جس نے ان کو اپنی جانب کھینچا لیکن وہ اس سے اتنے ہی خوفزدہ بھی تھے؛ یہ مصنوعی ذہانت کی دنیا تھی۔
اوپن اے آئی ایک تحقیقی کمپنی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ مصنوعی ذہانت تمام انسانیت کے کام آئے تاہم آلٹمین کا ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کے خلاف ایک خطرناک ہتھیار بھی بن سکتی ہے۔
2016 میں دی نیو یارکر میں ٹیڈ فرینڈ نے ایک تفصیلی رپورٹ تحریر کی جس میں سیم آلٹمین نے کہا کہ ’یا تو ہم مصنوعی ذہانت کو اپنا غلام بنا لیں یا پھر یہ ہمیں اپنا غلام بنا لے گی۔‘
2018 میں ایلون مسک اوپن اے آئی سے الگ ہو گئے تھے تاہم وہ اب بھی اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
ایلون مسک، جو اپنی کمپنی نیورا لنک کے ذریعے انسانی ذہن کو کمپیوٹر سے منسلک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اب ٹوئٹر بھی خرید چکے ہیں۔
مستقبل کے اس تصور نے ہی ایلون مسک اور سیم آلٹمین کو مصنوعی ذہانت کے میدان میں کودنے کی ترغیب دی۔
چند ہفتے قبل سیم آلٹمین نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے سسٹمنز کو رفتہ رفتہ معاشرے میں متعارف کروانا ہی ذمہ دارانہ طریقہ ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس طرح انسان اور ادارے اس نظام کو جان سکیں گے، اس کے اثرات پر غور کر سکیں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس کے ذریعے کیا ممکن ہو سکے گا اور کیا نہیں، بجائے اس کے کہ ایک طاقت ور نظام اچانک دنیا میں متعارف کروا دیا جائے۔‘
ڈاٹ سی ایس وی نامی چینل، جو مصنوعی ذہانت سے منسلک امور میں مہارت رکھتا ہے، نے سیم آلٹمین کے ان الفاظ پر تبصرے میں کہا کہ عام طور پر سیلیکون ویلی میں مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنیاں تیزی دکھانے کی کوشش کرتی ہیں اور اپنی مصنوعات جاری کرنے سے پہلے ان کے اثرات پر غور نہیں کرتیں۔
اس چینل کا مزید کہنا تھا کہ سیم کے کیس میں معاملہ الٹ ہے اور وہ جلدی نہیں کرنا چاہتے بلکہ ایسی مصنوعات سامنے لانا چاہتے ہیں جن سے معاشرہ رفتہ رفتہ مانوس ہو سکے۔
چیٹ جی پی ٹی اور ڈال ای کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تاہم ان پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔
آلٹمین نے دسمبر میں ٹوئٹر پر جاری بیان میں اعتراف کیا کہ چیٹ جی پی ٹی ابھی کافی محدود ہے۔
’لیکن اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ ایک عظیم چیز ہونے کا دھوکہ دے سکے۔ اس وقت کسی اہم چیز کے لیے اس پر اعتماد کرنا غلطی ہو گی۔‘
یہ بھی پڑھیے
آلٹمین نے کہا کہ چیٹ جی پی ٹی پر ابھی کافی کام ہونا باقی ہے اور اس کی موجودہ شکل آنے والے دور میں ترقی کی صرف ایک جھلک ہے۔
سیم آلٹمین اپریل میں 38 سال کے ہو جائیں گے۔ تین سال قبل انھوں نے پیشگوئی کی تھی کہ 2025 تک ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم کامیابیاں حاصل ہوں گی۔
اس بیان میں انھوں نے مصنوعی ذہانت کو اکثریت تک پہنچانے، ایک اہم بیماری کا جینیاتی علاج ممکن بنانے اور جوہری فیوژن کا پروٹو ٹائپ تیار کرنے کو ان کامیابیوں میں شمار کیا تھا۔
واضح رہے کہ آلٹمین کئی سال سے ہیلیون انرجی نامی کمپنی کے ذریعے پانی سے بنے ایندھن کے ذریعے سستی توانائی اور بجلی پیدا کرنے کی مہم میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
آلٹمین کی پیشگوئی درست ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ابھی دو سال انتظار کرنا ہو گا لیکن کم از کم مصنوعی ذہانت کے میدان میں ان کی پیشگوئی درست ثابت ہوتی نظر آ رہی ہے۔
اوپن اے آئی کمپنی کے ذریعے آلٹمین ایک ایسا عالمی تصور تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں معاشرتی اقدار میں کوئی ردو بدل نہیں ہو گا۔
انھوں نے حال ہی میں کہا تھا کہ ’امریکہ دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے‘ اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جمہوریت اسی صورت میں زندہ رہ سکتی ہے اگر معاشی ترقی ہوتی رہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ معاشی ترقی کے بغیر جمہوریت کا تجربہ ناکام ہو جائے گا۔
اپنے کیریئر کے دوران سیم آلٹمین کی ایک بڑی کامیابی سرمایہ کاروں کو اپنے منصوبوں میں پیسہ لگانے پر راضی کرنا تھا۔
ان کی دولت کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں تاہم چند اندازوں کے مطابق وہ ثابت قدمی سے ارب پتی افراد کے محدود گروہ میں شمولیت کی جانب گامزن ہیں۔
چند ہفتے قبل امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اوپن اے آئی کی مالیت 29 ہزار ملین امریکی ڈالر ہے۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد کمپنی نے مائیکروسوفٹ کے ساتھ ایک ملٹی بلین ڈالر معاہدہ کیا جس کے تحت آنے والے دور میں کمپیوٹنگ، انٹرنیٹ، سمارٹ ڈیوائسز اور کلاؤڈ پر اہم اثر پڑے گا اور رواں ماہ چیٹ جی پی ٹی کا پلس ورژن امریکہ میں ٹیسٹ ہونے جا رہا ہے جس کے لیے ماہانہ 20 ڈالر کی فیس ادا کرنا ہو گی۔
Comments are closed.