وہ تصویر جو ترکی اور شام میں زلزلے کے بعد تباہی اور درد کی داستان سناتی ہے

ترکی

،تصویر کا ذریعہADEM ALTAN/AFP/GETTY

پہلی نظر میں یہ تصویر ان ہزاروں تصاویر جیسی لگتی ہے جو ان دنوں ترکی اور شام میں زلزلے سے آنے والی تباہی کے بعد متاثرہ افراد کی حالت دکھاتی ہیں۔

اس تصویر میں ایک شخص دکھائی دے رہا ہے جس نے نارنجی رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی ہے۔ اس کے چہرے سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ کہیں کھویا ہوا ہے۔

وہ ایک عمارت کے ملبے میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ عمارت جو کبھی زندگی سے بھرپور تھی اب ملبے کا ڈھیر ہو چکی ہے۔

اس شخص کا دایاں ہاتھ اس کی جیکٹ کی جیب میں ہے تاکہ منفی درجہ حرارت میں بے رحم سردی سے محفوظ رہ سکے جو زلزلے میں اپنا سب کچھ کھو دینے والے لوگوں کے لیے ایک اضافی پریشانی کا باعث ہے لیکن اتنی سردی میں بھی اس شخص کا ایک ہاتھ ملبے کے ڈھیر میں ہے۔

تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بائیں ہاتھ سے اس شخص نے ملبے میں ایک ہاتھ تھاما ہوا ہے۔

یہ ہاتھ ایک نوجوان عورت کا ہے۔

اے ایف پی فوٹوگرافر جنھوں نے یہ تصویر کھینچی بتاتے ہیں کہ یہ شخص میست ہانسر ہیں جنھوں نے اپنی پندرہ سالہ بیٹی ارمک کا ہاتھ تھاما ہوا ہے لیکن ان کی بیٹی ہلاک ہو چکی ہیں۔

ارمک اسی بستر میں لیٹی ہوئی ہیں جس میں وہ سوئی ہوئی تھیں۔ اب ان کی لاش کنکریٹ کے دو بلاکس اور لوہے کی چادر میں مقید ہے۔

میست ہانسر کچھ بولتے نہیں لیکن وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ چھوڑنے سے انکار کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ جنوبی ترکی اور شمالی شام میں سوموار کو آنے والے زلزلے کے بعد اب تک کم از کم 15 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہADEM ALTAN/AFP/GETTY

ایک تباہ شہر

یہ تصویر ترکی کے جس شہر کی ہے اس کا نام کاہرامانماراس ہے۔ تقریباً دس لاکھ آبادی پر مشتمل ترکی کے جنوب مغرب میں واقع یہ شہر زلزلے سے شدید متاثر ہوا۔

یہ شہر ان دو زلزلوں کے مرکز کے عین درمیان میں واقع تھا جنھوں نے جنوبی ترکی اور شمالی شام میں تباہی مچائی۔

فضائی تصاویر کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے سینکڑوں رہائشی عمارات زلزلے کی وجہ سے زمین بوس ہو چکی ہیں۔

یہاں ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن کے پاس سونے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کئی لوگ اس خوف سے گھروں میں نہیں جاتے کہ ان کی عمارتیں کسی بھی وقت گر سکتی ہیں۔

سال کے اس وقت شدید سردی نے ملبے تلے دبے افراد کے زندہ بچ جانے کے امکانات کو اور کم کر دیا ہے کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ ملبے تلے زندہ بچ جانے والے لوگ سردی کی وجہ سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔

زلزلے کے بعد ملبے تلے زندگی کے آثار

ترکی

تاہم ایسی کہانیاں بھی سننے کو مل ر ہی ہیں جن میں ملبے تلے سے تین دن بعد بھی لوگوں کو زندہ نکالا جا رہا ہے۔

دوسری جانب بدھ کے دن ترکی کےجنوبی شہر سکندرون میں ریسکیو حکام نے اس وقت خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی جب ان کو ملبے تلے زندگی کے آثار سنائی دیے۔

یہ ایک عمارت کا ملبہ تھا جو سوموار کو ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے سے متاثر ہو کر گر گئی تھی اور متاثرہ عمارت کے مکینوں کے دوست احباب اور ہمسائے اس امید پر آس پاس ہی موجود تھے کہ شاید کوئی زندہ بچ گیا ہو۔

ریسکیو حکام کی اس درخواست پر یہ سب لوگ خاموش ہو گئے اور تمام مشینری کو بھی بند کر دیا گیا۔

چند منٹ کی خاموشی کے بعد ریسکیو حکام نے ایک ایمبولنس بلوائی اور تصدیق کی کہ ایک خاتون کو زندہ پایا گیا ہے۔

یہ خبر سنتے ہی ہجوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ریسکیو حکام نے بتایا کہ اس چھ منزلہ عمارت کے ملبے سے پہلی بار کسی کو زندہ نکالا گیا ہے۔

مقامی افراد نے بتایا کہ یہ ایک 50 سالہ خاتون تھیں جو عمارت میں اکیلی رہتی تھیں تاہم دیکھنے والوں کے مطابق اس پیش رفت نے ان کو ایک نئی امید دی کہ شاید ان کے رشتہ دار بھی ملبے تلے اب تک زندہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

’اتنے وسیع پیمانے پر تباہی کی پیشگی تیاری ممکن نہیں تھی‘

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے زلزلے پر ریاست کے ردِ عمل پر بڑھتی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اتنے وسیع پیمانے پر آنے والی تباہی کی پیشگی تیاری ممکن نہیں ہے۔‘

رجب طیب اردوغان نے حطائے کے دورے کے دوران بتایا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نو ہزار 57 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

حطائے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اُنھوں نے سکیورٹی فورسز کو بالکل بھی نہیں دیکھا وہ ‘اشتعال’ پھیلا رہے ہیں۔

صدر نے کہا کہ ’یہ اتحاد اور یکجہتی کا وقت ہے۔ اس طرح کے وقت میں میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ سیاسی مفاد کے لیے منفی مہم چلائی جائیں۔‘

واضح رہے کہ آج تباہی کے شکار علاقوں کے دورے میں اُنھوں نے کچھ ابتدائی مسائل کا اعتراف کیا تھا تاہم کہا تھا کہ صورتحال اب ’کنٹرول میں ہے۔‘

دوسری جانب عوام اور اپوزیشن کی جانب سے تنقید بڑھ رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہنگامی کوششیں بہت سست رہی ہیں اور ان کے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں زلزلوں کے خطرے کی زد میں موجود اس علاقے کے لیے کچھ نہیں کہا گیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ