جمعرات 17؍رجب المرجب 1444ھ9؍فروری 2023ء

اسلام آباد کی عدالت نے شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی

اسلام آباد کی عدالت نے شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے عوامی مسلم لیگ کے گرفتار سربراہ، سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سِپرا نے شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت کی۔

دورانِ سماعت شیخ رشید کے وکلاء سردار عبد الرازق، انتظار پنجوتھہ، پراسیکیوٹر عدنان اور مدعی کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

شیخ رشید کے وکیل سردار عبد الرازق نے ضمانت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید کی جانب سے سازش اور 2 سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم کرانے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، مقدمے میں لگائی گئی دفعات وفاقی یا صوبائی حکومت لگا سکتی ہے، شہری نہیں، شیخ رشید نے مذہبی گروپوں، لسانی گروپوں یا کسی قومیت پر ایسا بیان نہیں دیا جس پر ایسی دفعات لگیں۔

وکیل سردار عبدالرازق نے کہا کہ شیخ رشید عمران خان سے ملاقات کر کے آئے اور انہوں نے عمران خان کے بیان کا ذکر کیا، عمران خان نے بیان دیا لیکن ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی، آصف زرداری کی جانب سے صرف عمران خان کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کیا گیا۔

اس موقع پر شیخ رشید کے وکیل سردار عبد الرازق نے عدالت سے درخواستِ ضمانت منظور کرنے کی استدعا کر دی۔

شیخ رشید کے دوسرے وکیل انتظار پنجوتھہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید کے خلاف دفعات کے مطابق کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا، انہوں نے کسی گروپ کو نشانہ نہیں بنایا، بے نظیر بھٹو شہید نے بھی ایسا بیان دیا تھا اور بعد میں ان پر حملہ کر دیا گیا، شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔

اس کے ساتھ ہی شیخ رشید کے وکلاء سردار عبدالرازق اور انتظار پنجوتھا نے درخواستِ ضمانت پر دلائل مکمل کر لیے۔

پراسیکیوٹر عدنان نے شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس معطل کیا، مقدمہ درج کرنے سے نہیں روکا، دورانِ مقدمہ تفتیش کرنا قانون کے مطابق ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے روکا بھی نہیں، شیخ رشید کے وکلاء نے کیس سے ملزم کو خارج کرنے کے مطابق دلائل دیے۔

جج نے کہا کہ ملزم کے وکیل کی جانب سے کیس سے خارج کرنے کے مطابق دلائل دیے ہی جاتے ہیں۔

پراسیکیوٹر عدنان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری سابق صد رہے، پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں، عمران خان سابق وزیرِ اعظم ہیں، پی ٹی آئی کے سربراہ ہیں، یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر ہیں، شیخ رشید کا بیان میں کہنا کہ آصف زرداری عمران خان کو مروانا چاہتے ہیں کوئی چھوٹی بات نہیں، شیخ رشید کا بیان انتہائی اشتعال پھیلانے پر مبنی ہے، شیخ رشید نے کوئی عام جرم نہیں کیا، اس جرم کی سزا 7 سال تک ہے، موجودہ صورتِ حال میں ایسا بیان دینا ملک میں اشتعال پھیلانا ہے، ایسے بیانات کے باعث عالمی جنگ دوم کے دوران ایک شہزادے کا قتل ہوا، شیخ رشید نے اپنے جُرم کو کئی بار دہرایا، بار بار ایک ہی بیان دیا۔

اس کے ساتھ ہی پراسیکیوٹر عدنان نے شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت پر دلائل مکمل کر لیے۔

جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ دفعات کے مطابق شیخ رشید کے بیان کا اثر پوری قوم پر ہے، ایسا ہی ہے؟ آصف زرداری کہہ رہے ہیں کہ بیان شیخ رشید نے نہیں دیا، عمران خان نے دیا۔

جج نے ملزم شیخ رشید کے وکیل سے استفسار کیا کہ معلومات سے متعلق تفتیش کے لیے پولیس نے شیخ رشید کو بلایا؟

شیخ رشید کے وکیل سردار عبدالرازق نے جواب دیا کہ انفارمیشن پولیس ریکارڈ میں موجود ہے جو شیخ رشید نے شیئر کر دی ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ ٹرانسکرپٹ میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ عمران خان نے شیخ رشید کو قتل کی سازش کا بتایا؟ شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان سے میٹنگ ہوئی جس میں قتل کی سازش سے آگاہ کیا گیا، اس مرحلے پر صرف پولیس ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، کیا شواہد تھے جن پر شیخ رشید نے بیان دیا؟ انہوں نے تو کہا کہ شواہد موجود نہیں۔

شیخ رشید کے وکیل نے جواب دیا کہ عمران خان نے جو کہا اس پر شیخ رشید یقین رکھتے ہیں، ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا، آصف زرداری پر الزام لگایا گیا، ان پر مرتضیٰ بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش تک کا الزام ہے، پولیس کو ان کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے تھی جنہوں نے سازش کی۔

شیخ رشید کے وکیل انتظار پنجوتھہ نے کہا کہ شیخ رشید نے کہا کہ جو عمران خان نے انہیں بتایا وہی انہوں نے بیان میں کہا، شیخ رشید کہتے ہیں کہ عمران خان کا فالوور ہوں تو ان پر یقین رکھتا ہوں، عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ 2 بندے ہیں جن سے آصف زرداری نے عمران خان کے قتل کے لیے رابطہ کیا، سیاسی بیانات پر مقدمات نہیں ہوتے، جھوٹے الزام لگانے والوں پر مقدمہ درج ہونا چاہیے۔

شیخ رشید کے وکیل سردار عبدالرازق نے کہا کہ شیخ رشید کے خلاف صرف ہتکِ عزت کا مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔

جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ شیخ رشید کی جس کے ساتھ میٹنگ ہوئی ان کو تفتیش میں شامل کیا؟ کیا پولیس نے عمران خان کو تفتیش میں شامل کیا؟

تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ شیخ رشید نے کہا کہ ثبوت نہیں ہیں اس لیے عمران خان کو شاملِ تفتیش نہیں کیا۔

جج نے سوال کیا کہ شیخ رشید نے تو کہا کہ عمران خان نے انہیں بتایا ہے تو عمران خان کو شاملِ تفتیش کیوں نہیں کیا؟

جج نے وکیلوں سے ہنستے ہوئے استفسار کیا کہ میں کوئی شرارت تو نہیں کر رہا ناں؟

اس موقع پر مدعی وکیل کی جانب سے عمران خان کو شاملِ تفتیش کرنے کی استدعا کر دی گئی۔

جج نے کہا کہ پولیس نے چالان بنایا ہے کہ عمران خان پر جھوٹے الزامات پر تفتیش ہو گی۔

جج نے ریمارکس میں کہا کہ عمران خان پر سازش کے لیے تفتیش نہیں بنتی۔

عوامی مسلم لیگ کے گرفتار سربراہ، سابق وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کو کچھ دیر میں سول جج مری محمد ذیشان کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

مدعی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور شیخ رشید مل کر آصف زرداری کے خلاف سازش کر رہے ہیں، بیرونِ ملک بھی ان بیانات کا اثر پڑ رہا ہے کیونکہ سیاسی کارکن سمندر پار بھی ہیں، سیاسی جماعتوں کے درمیان نفرت پیدا ہو سکتی ہے، شیخ رشید دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اشتعال پیدا کر رہے ہیں، شیخ رشید معاشرے کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں، شیخ رشید وزیر رہ چکے، انہیں معلوم نہیں کہ ان کے الفاظ کا کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ شیخ رشید نے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر مسخرہ پن کیا اور اشتعال ہی پھیلایا ہے۔

تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.