’قیامت کا منظر تھا، میں سوچنے لگا اپنے بیٹے کو ملبے سے کیسے نکالوں گا؟‘

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سبھی والدین کے لیے یہ ایک برے خواب کی طرح ہے کہ ان کا بچہ بیمار ہو اور اُنھیں اسے ہسپتال لے جا کر داخل کروانا پڑے۔

آپ اس وقت سکون کا سانس لیتے ہیں اور ایک منٹ کے لیے باہر نکل جاتے ہیں۔

شمالی شام کے صوبے ادلب کے رہائشی ایک صحافی اسماعیل کے لیے زندگی نے ایک انتہائی برا موڑ لیا۔

مقامی وقت کے مطابق صبح کے چار بج کر 18 منٹ (عالمی وقت کے مطابق رات ایک بج کر 18 منٹ) پر 7.8 شدت کا ایک خوفناک زلزلہ آیا۔ ان کے اردگرد موجود ہر چیز دو منٹ تک ہلتی رہی۔

اُنھوں نے مجھے فون پر بتایا کہ ’پھر زلزلہ شدید ہو گیا۔‘

’بجلی چلی گئی اور شیشے کا بنا ہوا ہسپتال کا داخلی دروازہ بھی بجنے لگا۔

اُنھوں نے تقریباً 150 میٹر دور دو رہائشی عمارتوں کو گرتے ہوئے دیکھا اور اچانک پھیلنے والے اندھیرے کی وجہ سے اُنھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل قیامت کے جیسا تھا۔ میں نے یہ تصور کرنا شروع کر دیا کہ میں اپنے بیٹے کو ملبے کے نیچے سے کیسے نکالوں گا۔‘

ترکی زلزلہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک منٹ بعد انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا مصطفیٰ چیختا اور روتا ہوا ان کی طرف آرہا تھا۔ اس نے اپنا آئی وی ڈرپ نوچ پھینکا تھا، اور اس کے بازو سے خون بہہ رہا تھا۔

تقریبا ایک گھنٹے تک کوئی بھی منہدم عمارتوں تک نہیں پہنچ سکا۔ بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے وہ سول ڈیفنس یونٹس کو بھی کال نہیں کر سکے۔

ال دانہ ترکی کی سرحد کے قریب حزب اختلاف کے زیر قبضہ ایک قصبہ ہے۔

کسی بھی سرکاری خدمات کی عدم موجودگی میں سول ڈیفنس یونٹس سے ہی ہنگامی طور پر سب سے پہلے رابطہ کیا جاتا ہے۔ لیکن تباہی اس قدر وسیع پیمانے پر تھی کہ ان کے لیے ہر متاثرہ شخص تک پہنچنا ناممکن تھا۔

چند گھنٹے بعد اسماعیل صوبہ ادلب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے نکلے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘نقصان ناقابل بیان ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے وہ ہیں جن پر پہلے شامی حکومت یا روسی افواج نے بمباری کی تھی۔’

سنہ 2011 میں شام کی بغاوت ایک تلخ خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی جہاں روس کی حمایت یافتہ شامی حکومت نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر حملہ کیا۔

اور یہ تعطل پر ختم ہوا۔ اب شمال مغربی شام، شامی اپوزیشن فورسز یا دمشق میں قائم حکومت کے زیر کنٹرول مختلف ٹکڑے والے علاقوں میں تقسیم ہے۔

اسماعیل نے حلب کے شمال میں واقع عطارب قصبے میں درجنوں رہائشی عمارتوں کو تباہ دیکھا۔

وہ کہتے ہیں: ‘بہت سی عمارتیں اور محلے ہیں جہاں امدادی ٹیمیں سامان کی کمی کی وجہ سے نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔

‘ہمیں واقعی بین الاقوامی تنظیموں کی مدد کی ضرورت ہے۔’

قیمتی وسائل

ترکی زلزلہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹر اسامہ سلوم سیریئن امریکن میڈیکل سوسائٹی (SAMS) فاؤنڈیشن کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ تنظیم شمال مغرب میں حزب اختلاف کے زیر قبضہ متعدد ہسپتالوں کی مدد کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘میں زلزلے کے چند گھنٹے بعد اطاریب کے ایس اے ایم ایس ہسپتال میں تھا۔

‘جب میں ہسپتال سے نکلا تو وہاں تقریبا 53 میتیں تھیں۔ میں زخمیوں کی تعداد کو نہیں گن سکا۔

ان کا کہنا ہے کہ اب صرف اسی ہسپتال میں 120 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر سلوم کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کے پاس ایسی تباہی سے نمٹنے کے لیے بہت کم وسائل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ملبے سے بچائے گئے زیادہ تر لوگوں کو گہرے زخم اور چوٹیں آئي ہیں جن کے لیے خصوصی علاج اور جدید آلات کی ضرورت ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ عطاریب ہسپتال میں صرف ایک پرانی سی ٹی سکینر مشین ہے۔

زیادہ تر امداد ترکی کے راستے آتی ہے جو کہ سخت سرحدی چیکنگ سے مشروط ہے۔

ترکی کو خود ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ شام میں حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقوں تک کون سی سپلائی پہنچے گی۔

ڈاکٹر سلوم کہتے ہیں کہ ‘اگر ہمارے پاس موجودہ طبی سامان ختم ہو گیا تو ہمیں نقصان ہو گا۔’

صدمے سے مفلوج

turkey

زلزلے نے شمال میں بشار حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

آیا اپنے پہلے نام سے پکارا جانا چاہتی ہیں۔ وہ زلزلے کے بعد لاذقیہ شہر میں اپنے خاندان کے حال احوال جاننے کے لیے وہاں گئیں۔

26 سالہ شیف اپنی ماں اور تین بہن بھائیوں کے ساتھ سو رہی تھی جب اچانک بجلی چلی گئی۔

انھوں نے کہا: ‘میں بستر سے اٹھ بیٹھی لیکن کہ نہیں سکتی کہ مجھے کس چیز نے جگا دیا۔

‘مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے جب تک کہ میں نے اپنے باقی خاندان کو بھی جگا ہوا نہیں دیکھ لیا۔’

ان کا خاندانی گھر ایک مرکزی سڑک پر ہے اور ان کی گھر میں ہر طرف شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘زلزلے کی شدت کی وجہ سے ہم حرکت نہیں کر سکے۔ ہم جہاں تھے وہیں پر جمے رہے۔’

آیا کی والدہ کو پارکنسن کی بیماری ہے۔ وہ ڈر گئیں اور گھبراہٹ کا شکار ہو گئيں۔

آیا کہتی ہیں: ‘میں صدمے میں تھی اور ہل نہیں سکتی تھی۔ میں دیکھتی رہی کہ دیواریں کیسے ہل رہی ہیں اور آگے پیچھے ہو رہی ہیں۔

‘میں آپ کو بیان نہیں کرسکتی کہ صورتحال کتنی عجیب تھی۔’

26 سالہ ماہر تعمیرات حنین بھی لاذقیہ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے محلے کے نوجوانوں نے بارش سے بچنے کے لیے لوگوں کے لیے خیمے لگائے ہیں۔

خیمے عام طور پر جنازے کے دوران سوگواروں کی میزبانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ حنین کے لیے بہت پریشان کن صورت حال ہے۔

ان کی ماں اپنے آبائی گاؤں میں تھیں اور محفوظ ہیں، لیکن حنین صدمے سے دوچار ہیں۔

حنین کہتی ہیں: ‘مجھے پتا نہیں ہے کہ میں نے اپنی بہن کی مدد کی یا خود ہی گھر سے نکلی۔ میں اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔’

انھوں نے گھر واپس آنے سے پہلے مقامی بیکری کے سامنے پناہ لی۔

آیا کے لیے حالات زیادہ مشکل تھے کیونکہ طوفان میں آدھی رات میں انھیں ٹیکسی یا کوئی پناہ گاہ نہیں مل سکی تھی۔

آیا اور ان کا خاندان بالآخر دمشق پہنچنے میں کامیاب ہو گیا لیکن انھیں یقین نہیں ہے کہ وہ لاذقیہ میں اپنے گھر واپسی کی ہمت بھی رکھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘ہم نے جنگ دیکھی اور 2012 میں اپنے گھر سے زبردستی نکال دیے گئے۔ زلزلے کے دوران جو احساس ہوا وہ اس سے بہت مختلف تھا جو میں نے جنگ کے دوران محسوس کیا تھا۔’

ہوکہتی ہیں: ‘میں نے محسوس کیا کہ اس وقت، میرے ارد گرد کی ہر چیز گر سکتی ہے۔

‘میں اپنی ماں یا اپنی بہن کو کھو سکتی ہوں۔ یہ بہت بھاری اور مشکل احساس تھا۔؛

حتیٰ کہ دمشق کے محفوظ مقام تک پہنچنے سے بھی پوری طرح انھیں اطمینان نصیب نہ ہوا۔

آیا کو گھنٹوں تک چکر آتے رہے جیسے کہ زلزلہ ابھی جاری ہو۔

وہ ایک دہائی سے زیادہ کی خانہ جنگی کی عکاسی کرتی ہوئی کہتی ہیں: ‘یہ ایک زخم کے دوبارہ تازہ ہونے کی طرح تھا۔ ایک بڑا زخم جو آہستہ آہستہ بھر رہا تھا لیکن دوبارہ تازہ ہو گیا ہے۔

‘یہ زخم شام میں بغیر کسی استثنا کے ہر ایک کے لیے دوبارہ کھل گیا تھا۔’

خدشہ ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ شمالی شام کے کچھ حصوں کا کسی نے ابھی تک اندازہ نہیں لگایا ہے۔

ڈاکٹر سلوم کا کہنا ہے کہ زلزلے نے انھیں جنگ کے بدترین دنوں میں واپس پہنچا دیا ہے۔ وہ اس وقت حزب اختلاف کے زیر قبضہ مشرقی حلب میں رہتے تھے جب اس پر بمباری کی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں : ‘میں نے محسوس کیا کہ موت قریب ہے۔ میں عمارتوں اور پتھروں کے گرنے کی آوازیں سن رہا تھا۔’

وہ زلزلے کے ان ابتدائی چند لمحوں میں پھیلی افراتفری کو بیان کر رہے تھے جہاں لوگوں کی چیخ و پکار اور ان کی گھبراہٹ کو سن سکتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں سمجھ نہیں سکا کہ کیا ہو رہا ہے۔

‘یہ ایک مشکل دن تھا اور اس میں کہیں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ