زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کتنے وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں؟
- مصنف, شیگل کیساپوگلو
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
ترکی اور شام میں پیر کے روز 7.8 شدت کا زلزلہ آنے کے بعد تاحال ملبے تلے دبے افراد کے بچنے کی امید ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔
دونوں ممالک اور دنیا بھر سے امدادی کارروائیوں میں شامل ہونے والی ٹیمیں آرام کیے بغیر کام کر رہی ہیں اور جیسے ہی انھیں کہیں زندگی کی رمق محسوس ہوتی ہے وہ اس جگہ سے ملبہ ہٹانے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ ملبے تلے دبے افراد آخر کب تک زندہ رہ سکتے ہیں؟
بی بی سی نے اس بارے میں جب ماہرین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں متعدد عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ان میں متاثر ہونے والے شخص کی پوزیشن، اس جگہ ہوا کا گزر، پانی کی فراہمی، موسمی حالات اور ان کی اپنی جسمانی صحت سب ہی اس بات تعین کرتے ہیں کہ ایک شخص کتنی دیر تک ملبے تلے زندہ رہ سکتا ہے۔
زیادہ تر افراد کو کسی بھی سانحے کے 24 گھنٹوں کے اندر بچایا جاتا ہے لیکن ایسے کیسز بھی سامنے آ چکے ہیں جن میں کئی دن بعد بھی لوگوں کو ملبے سے نکالا گیا۔
اقوامِ متحدہ کی ریسکیو ٹیموں کی جانب سے پانچ سے سات دن کے بعد امدادی کارروائیاں بند کر دی جاتی ہیں۔ یہ فیصلہ اس صورت میں کیا جاتا ہے جب ایک یا دو دن تک ملبے سے کوئی بھی شخص زندہ نہ نکالا گیا ہو۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو متاثرہ افراد کو زندہ رہنے میں مدد کرتے ہیں؟
تیاری اور آگاہی
یہ پیشگوئی کرنا تو بہت مشکل ہے کہ زلزلہ کب آ سکتا ہے یا اس کے باعث کوئی عمارت فوری طور پر گرے گی یا نہیں لیکن ماہرین کے مطابق ایمرجنسی میں آپ جس پوزیشن میں ہوتے ہیں وہ آپ کو زندہ رکھنے میں اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر آپ ایک زلزلے کے دوران کسی موزوں جگہ کا انتخاب کرتے ہیں تو آپ ہوا کا راستہ بنانے اور اپنے آپ کو جسمانی طور پر محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ترکی کی سب سے بڑی سول سوسائٹی امدادی تنظیم اے کے یو ٹی کے ساتھ منسلک مرات ہارون کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ ’ڈراپ، کور اور ہولڈ‘ کی مشق کریں تو یہ پوزیشن آپ کے لیے بچاؤ کا ذریعے، ہوا کا ذریعہ بن سکتی ہے۔‘
ڈراپ کور اور ہولڈ کا مطلب یہ ہے کہ آپ زمین پر گھٹنوں کے بل گریں، کسی ٹیبل کے نیچے بیٹھ جائیں اور مضبوطی سے وہیں جمے رہیں جب تک یہ جھٹکے بند نہیں ہوتے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کسی بھی آفت سے پہلے فوری طور پر کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں پڑھائی، ٹریننگ اور آگاہی بہت اہم ہے اور اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘
’یہ تمام چیزیں آپ کے ملبے تلے بچنے کے امکانات کا تعین کرتی ہیں۔‘
ڈاکٹر جیٹری ریگمی عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی پروگرام میں ٹیکنیکل آفیسر ہیں اور وہ بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اس حوالے سے تیاری بہت اہم ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کسی بھی مضبوط میز تلے بیٹھ جانا آپ کے بچنے کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی بات وثوق سے تو نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ہر آفت دوسری سے مختلف ہوتی ہے لیکن آغاز میں ہونے والی ریسکیو کی کارروائیوں کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ مقامی آبادیاں کس حد تک تیار تھیں۔‘
ہوا اور پانی تک رسائی
اگر آپ کسی عمارت کے ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں تو ایسے میں زندہ رہنے کے لیے ہوا کا گزر اور پانی کی موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے تاہم اس بات کا دارومدار بھی آپ کو پہنچنے والے زخموں پر ہے۔ اگر آپ کا خون ضائع ہوا ہے تو آپ کے 24 گھنٹے سے زیادہ زندہ رہنے کے امکانات تقریباً ختم ہو جاتے ہیں۔
اس لیے اگر متاثرہ شخص کو زیادہ چوٹیں نہیں آئیں اور اسے سانس لینے کے لیے ہوا میسر ہے تو ماہرین کے مطابق اگلی سب سے اہم چیز پانی پینا ہے۔
امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی میں انتہائی نگہداشت کے ماہر پروفیسر رچرڈ ایڈورڈ مون کا کہنا ہے کہ ’زندہ رہنے کے لیے سانس اور پانی کی کمی انتہائی اہم ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہر شخص کے جسم سے روزانہ کی بنیاد پر ایک اعشاریہ دو لیٹر پانی نکلتا ہے یعنی پیشاب، سانس لینے کے عمل کے دوران، پسینہ اور پانی کے بخارات وغیرہ۔‘
کچھ اندازوں کے مطابق لوگ پانی کے بغیر تین سے سات دن تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
زخموں کی نوعیت
اگر کسی شخص کو سر پر چوٹیں آئی ہوں اور اس کے پاس سانس لینے کے لیے جگہ نہ ہو تو اس کے آفت کے اگلے روز تک بچنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ریگمی کے مطابق زخم کی نوعیت کو جانچنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جن افراد کو ریڑھ کی ہڈی، سر اور چھاتی پر زخم آتے ہیں ان کے بچنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں جب تک انھیں مخصوص طبی سہولیات میسر نہ ہوں۔
خون ضائع ہونا، ہڈیوں کا ٹوٹنا یا اہم جسمانی اعضا کا زخمی ہونا زندہ رہنے کے امکانات کو کم کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر ریگمی کے مطابق ریسکیو کے بعد بھی احتیاط برتنا انتہائی اہم ہے۔
’جن لوگوں کو ملبے سے زندہ بچا بھی لیا جائے وہ بھی ’کرش سنڈروم‘ کے باعث ہلاک ہو سکتے ہیں۔ یہ زلزلے جیسی آفت میں بہت زیادہ ہوتا ہے اور ان افراد کے ساتھ ہوتا ہے جو ملبے تلے دب جاتے ہیں۔‘
عالمی ادارہ صحت کے ٹیکنیکل افسر کے مطابق کرش سنڈروم اس وقت ہوتا ہے جب پٹھے ملبے کے بوجھ کے باعث زہریلا مواد خارج کرتے ہیں تاہم جب ملبہ ہٹایا جاتا ہے تو یہ زہریلا مواد پورے جسم میں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کے آپ کی صحت پر سنگین اثرات ہو سکتے ہیں۔
موسم اور ماحولیاتی صورتحال
علاقے کا موسم بھی اس بات کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہو سکتا ہے کہ متاثرہ شخص کتنی دیر تک زندہ رہے گا۔
پروفیسر مون کے مطابق ترکی میں موسمِ سرما کے باعث امکانات مزید کم ہو گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی بالغ شخص 21 ڈگری سیلسیئس تک کے درجہ حرارت میں اپنے جسم کی گرمی برقرار رکھنے کی سقت رکھتا ہے تاہم اگر سردی زیادہ ہو تو صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔‘
اس موقع پر جسم کا درجہ حرارت آس پاس کے درجہ حرارت کے حساب سے تبدیل ہوتا ہے۔
پروفیسر مون کہتے ہیں کہ ’کسی شخص کو کتنی تیزی سے ہائپوتھرمیا ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے وہ شخص کتنا اکیلا ہے یا وہ کس قسم کے مقام پر موجود ہے تاہم اکثر بدقسمت افراد ایسی صورتحال میں ہائپوتھرمیا کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
موسمِ گرما میں اس کے برعکس اگر وہ جگہ بہت گرم ہو تو متاثرہ شخص کے جسم سے تیزی سے پانی ضائع ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے ان کے بچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ذہنی طاقت
ماہرین کے مطابق ایک پہلو جو عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ کسی شخص کی ذہنی صحت اور کنٹرول ہے۔
ماہرین کے مطابق اعصاب پر قابو رکھنا اور اپنے ذہن کو بچنے کے امکانات کی طرف ہی لگائے رکھنا زندہ رہنے کے لیے اہم ہوتا ہے۔
اونگورن کہتے ہیں کہ ’خوف فطری طور پر ہم پر سوار ہوتا ہے لیکن اس دوران ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ ہمارا زندہ بچنے کے لیے ذہنی طور پر مضبوط رہنا اہم ہے۔‘
اس کے لیے قوتِ ارادی بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ ’یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ آپ خوف کے احساس کو خود پر طاری نہ ہونے دیں اور خود پر قابو کرنے کی کوشش کریں کہ اب میں یہاں ہوں، مجھے زندہ رہنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈنا ہے۔ اس سے آپ کم چیخیں گے اور کم حرکت کریں گے۔ آپ اپنے اعصاب اور جھنجھلاہٹ پر قابو پا کر اپنی توانائی کو بچا سکتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
ملبے تلے طویل وقت گزارنے والی کی کہانیاں
سنہ 1995 میں جب جنوبی کوریا میں زلزلہ آیا تھا تو ایک شخص کو ملبے سے 10 دن بعد نکالا گیا تھا۔ اس شخص نے بارش کا پانی پی کر ایک گتے کا ڈبہ کھا کر گزارا کیا تھا۔ اس دوران انھوں نے ایک کھلونے سے کھیل کر اپنے ذہن کو متحرک رکھا۔
مئی 2013 میں ایک خاتون کو بنگلہ دیش میں ایک فیکٹری کے ملبے سے 17 روز بعد زندہ نکالا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے ریسکیو کے بعد بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں کئی روز تک امدادی کارکنان کی آوازیں سنتی رہی۔ میں ملبے کو ڈنڈوں سے مار کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرتی رہی لیکن کسی کو میری آواز نہ آئی۔‘
’میں سوکھا ہوا کھانا کھا کر 15 دن تک گزارا کرتی رہی۔ آخری دو دنوں میں میرے پاس صرف پانی تھا۔‘
جنوری سنہ 2010 میں ہیٹی میں زلزلے سے دو لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور ایک شخص 12 روز تک ایک دکان کے ملبے تلے دبا رہا تھا۔ ایک اور شخص کو مبینہ طور پر 27 روز کے بعد ملبے سے نکالا گیا تھا۔
اکتوبر 2005 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آنے والے زلزلے کے دو ماہ بعد ایک 40 سالہ خاتون نقشہ بی بی کو ان کے کچن سے ریسکیو کیا گیا تھا۔
ان کے پٹھے بہت کمزور ہو چکے تھے اور وہ اتنی کمزور ہو چکی تھیں کہ بات بھی بہت مشکل سے کر پا رہی تھیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کے کزن نے بتایا تھا کہ ’پہلے ہم سمجھے کہ وہ مر چکی ہیں لیکن جب ہم انھیں باہر نکال رہے تھے تو انھوں نے اچانک اپنی آنکھیں کھول دیں۔‘
Comments are closed.