پولیس سٹیشن میں 50 سالہ بوائے فرینڈ کے ہاتھوں 17 سالہ لڑکی کا قتل جس نے کیوبا کو ہلا کر رکھ دیا
کیوبا میں ایک 17 سالہ لڑکی کے قتل کی واردات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک پولیس تھانے میں ہوا۔
یہ واقعہ کیوبا کے وسطی صوبے کاماگوئے کے شہر نویویتاس میں اتوار کو پیش آیا جو دارالحکومت ہوانا سے تقریباً پانچ سو کلومیٹر دور مشرق میں واقع ہے۔
کیوبا کی وزارت داخلہ کی جانب سے اس واقعے کے بعد صرف اتنا بتایا گیا کہ مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ایک 50 سالہ شخص نے تیز دھار آلے سے اپنی 17 سالہ پارٹنر کو قتل کر دیا جو کمیونٹی نیشنل ریوولوشنری پولیس کے سب سٹیشن میں پناہ لیے ہوئے تھی۔
بی بی سی منڈو نے مقامی صحافی ہوزے لوئی سے اس واقعے کی مذید تفصیلات حاصل کی ہیں۔
ان کے مطابق خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم الیسوان ہڈالگو کا مقتولہ کے ساتھ قریبی تعلق تھا تاہم مقتولہ لیڈے ہفتے کی رات ایک پارٹی میں موجود تھی جب ہڈالگو نے اسے ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں جس پر لیڈے مدد کے لیے ایک قریبی پولیس سٹیشن کی جانب دوڑی جبکہ ہڈالگو نے ایک تیز دھار آلے کے ہمراہ اس کا پیچھا کیا۔
صحافی ہوزے لوئی کا کہنا ہے کہ ’اس واقعے کی مکمل تفصیلات کا علم نہیں ہو سکا لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ شخص پولیس سٹیشن میں داخل ہوا اور اس نے لڑکی کو قتل کر دیا۔‘
پولیس کی نااہلی اور جنسی تشدد
کیوبا کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ترجمان نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک پولیس سٹیشن میں ایسا واقعہ ہونا بہت سے سوالات اٹھاتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین نے ایک کم عمر لڑکی کی حفاظت میں ناکامی پر پولیس کی مبینہ نااہلی پر تنقید کرتے ہوئے ایسے کیسز میں قوائد و ضوابط کی کمی کی نشاندہی کی ہے۔
دوسری جانب اس واقعے نے کیوبیا میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد اور قتل کے واقعات کو اجاگر کیا ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال ملک میں چھ خواتین کو قتل کیا گیا جبکہ 2022 میں یہ تعداد مجموعی طور پر 36 تھی۔ 2021 اور 2020 میں بالترتیب 36 اور 32 خواتین کو قتل کیا گیا۔
تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے مطابق کیوبا میں حکام خواتین کے قتل پر باقاعدگی سے معلومات فراہم نہیں کرتے۔
تشدد اب ڈھکا چھپا نہیں رہا
چند سال پہلے تک کیوبا میں حکومت اور سرکاری میڈیا ایسے واقعات کو رپورٹ تک نہیں کرتا تھا اور یہ عوامی نظروں سے اوجھل رہتے تھے تاہم سوشل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ایسے جرائم کو چھپانا ناممکن ہو چکا ہے۔
یوسی ٹی کریو نامی تنظیم کے ترجمان کا کہان ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمیں معلومات فراہم کرتے ہیں اور اب خاموشی ختم ہو چکی ہے۔
بہت سے لوگ اس نکتے پر متفق ہیں کہ کیوبا میں تبدیلی آ رہی ہے۔
ستمبر 2022 میں ایک نیا فیلمی کوڈ منظور کیا گیا جس نے معاشرتی اور نجی تعلقات پر نئے فریم ورک کو لاگو کیا۔
اس قانون کے ذریعے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور تشدد کا راستہ روکنے کے لیے قوانین کو مضبوط کیا گیا ہے تاہم یوسی ٹی کریو نامی تنظیم کے مطابق یہ کوشیں ناکافی ہیں۔
تنظیم کے ترجمان کے مطابق مناسب اقدامات کی کمی ہے جس کی وجہ انصاف تک رسائی میں مشکلات ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
بیکوئیر کیس
تمام تر تنقید کے باوجود میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں کی وجہ سے ایسے نتائج حاصل ہوئے ہیں جن کے بارے میں چند سال پہلے تک سوچنا بھی مشکل تھا۔
اس کی ایک اہم اور تازہ مثال فرنینڈو بیکوئیر کیس ہے۔
2021 میں بیکوئیر نامی آرٹسٹ کے خلاف جنسی تشدد کے الزامات سامنے آنے پر کیوبا کی ایک می ٹو مہم کا آغاز ہوا۔
بیکوئیر کیوبا کے حکومت کے قریب سمجھے جاتے تھے اور خیال کیا جاتا تھا کہ ان کو قانونی طور پر چھوا تک نہیں جا سکے گا تاہم ان پر الزمات میں اضافہ ہوتا چلا گیا جن کے مطابق انھوں نے متعدد خواتین کے خلاف جنسی جرائم کیے تھے۔
اکتوبر 2022 میں بیکوئیر کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی تاہم بیکوئیر نے سزا کے بعد ایسا مواد چھاپا جس میں متاثرین کا مذاق اڑایا گیا جس کے بعد کیوبا کے نظام انصاف پر دباؤ بڑھا کہ بیکوئیر کی سزا پر ازسرنو غور کیا جائے۔
Comments are closed.