ترکی کے سنسان شہروں کی خاموشی کو چیرتی آہیں: ’تم نے بہت دیر کر دی۔۔۔ کاش پہلے آ گئے ہوتے‘
- مصنف, فندانور اوزترک
- عہدہ, نامہ نگار بی بی سی، ترکی
’تم نے بہت دیر کر دی، بہت دیر کر دی۔‘
آرزو دیدیوگلو نے ایک ریسکیو ورکر کو چیختے ہوئے مخاطب کیا۔ یہ امدادی کارکن کچھ ہی دیر قبل ترکی کی بندرگاہ اسکندرون پہنچے تھے۔
جنوبی ترکی میں واقع اسکندرون زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں علاقوں میں سے ایک ہے۔ آرزو کی دو بھانجیاں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ ان کے رونے کی آواز ضلع نومیون پر چھائی گہری خاموشی کو چیر دیتی ہے۔
ریسکیو ورکر ان کی بات سن ایک لمحے کے لیے رکتے ہیں لیکن لڑکی کا خاندان ان سے نہ رکنے کی درخواست کرتا ہے۔
یہاں لوگوں میں خاصا غصہ موجود ہے۔
آرزو دراصل ترکی کے آفات سے نمٹنے والے ادارے (اے ایف اے ڈی) کے سست ردِ عمل کے بارے میں شکایت کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ملبے ہٹانے کے لیے مشین اپنی مدد آپ کے تحت منگوائی ہے لیکن حکام انھیں ملبہ ہٹانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے شام ہونے تک کا انتظار کیا، لیکن کوئی نہیں آیا۔ ہم نے مشین بھی منگوائی لیکن وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم اسے استعمال رکیں، انھوں نے ہمیں روک دیا۔ ہمارے دو بچے اس ملبے تلے دبے ہیں۔ یہ میری بہن کی دو بیٹیاں عیسیگل اور علیدہ ہیں۔ اب وہ ہمیں چھوڑ کر جا چکی ہیں، جا چکی ہیں۔‘
’کاش یہ دوپہر سے پہلے آ گئے ہوتے۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت جنریٹر لیا ہے۔ ہم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن ہمیں آفٹر شاکس کے باعث فلیٹ چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ اس وقت تک بھی ہمیں بچوں کے بچ جانے کی امید تھی۔ اگر تمھارے پاس سارے وسائل موجود تھے، تو جلدی کیوں نہیں آئے۔؟‘
’کل کیوں نہیں آئے‘
اسی سڑک پر کچھ دور جا کر ہمیں کچھ اور لوگ ملے جو گلیریز اپارٹمنٹ بلڈنگ کے ملبے کے ساتھ موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 24 گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن اے ایف اے ڈی کے امدادی کارکن ابھی تک نہیں آئے۔
یہاں ایک اور ریسکیو ٹیم لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ میں نے ایک خاتون کو امدادی کارکنان پر چیختے سنا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ’تم کل کیوں نہیں آ سکے، ہمیں کل اس ملبے سے آوازیں آ رہی تھیں۔‘
متاثرہ افراد نے مجھے بتایا کہ وہ زلزلے کے دن امداد کا انتظار کر رہے تھے لیکن 24 گھنٹے گزرنے کے بعد ملبے سے آنے والی آوازیں بھی خاموش ہو گئیں اور اندھیرا چھا گیا۔
ایک اور خاتون روتے ہوئے کہتی ہے کہ ’اگر تم کل آ جاتے تو ہم انھیں بچا سکتے تھے۔‘
’جنھوں نے ہمیں تنہا چھوڑا انھیں اب ہم سے ووٹ مانگنے نہیں آنا چاہیے‘
ایک عمارت کے اوپر دھواں اٹھ رہا ہے اور متاثرہ خاندان اپنے پیاروں کو ریسکیو کرنے کے منتظر ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں کل سے ایک بھی فائر فائٹرز کی ٹیم نہیں پہنچ سکی۔ اگر ملبے تلے موجود لوگ زلزلے سے بچ گئے ہوں گے تو اب تک دھوئیں کے باعث ہلاک ہو گئے ہوں گے۔‘
شہری علی اوندر کیمرہ دیکھ کر اس کی طرف بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اس عمارت میں میری آٹھ لوگ موجود ہیں۔ کوئی نہیں آیا۔ اے ایف اے ڈی ابھی تک نہیں آئی۔ جنھوں نے ہمیں آج تنہا چھوڑا ہے وہ کل ہم سے ووٹ مانگنے نہ آئیں۔ کبھی نہ آئیں۔‘
ترکی میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات 14 مئی کو منعقد ہوں گے اور انھیں ترک صدر طیب اردوغان کے لیے ایک امتحان سمجھا جا رہا ہے۔
اوندر خود بھی پیر کو ڈھائی گھنٹے تک ملبے تلے دبے ہوئے تھے لیکن پھر اپنی مدد آپ کے تحت وہ اس سے باہر نکلے۔ اس دوران ان کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
یہ بھی پڑھیے
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس عمارت میں 15 فلیٹ تھے۔ دوسرے بچنے والے افراد کے ساتھ مل کر میں نے 10 لوگوں کی ملبے سے نکلنے میں مدد کی۔ یہاں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ریاست کی نمائندگی کر رہا ہو۔ ہر کسی نے اپنے رشتہ داروں کو باہر نکالنے کے لیے خود سے ہی کوشش کی۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے کھدائی کی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’یہاں ایک کوسٹ گارڈز کی ٹیم آئی وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہمارے پاس لوہا کاٹنے والے مشین یا ڈرل موجود ہے۔ تو پھر آپ یہاں کیوں آئے ہیں اگر آپ ہم سے ہی سامان مانگ رہے ہیں؟ ہم سے کیوں سامان مانگ رہے ہیں؟ مجھے دلاسہ دینے کی بجائے وہ میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔‘
یہ قصبہ ایک سنسان شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔
یہاں زندگی صرف اس الاؤ کے گرد جمع افراد کی صورت میں نظر آتی ہے جو خود کو گرم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Comments are closed.