لندن: سائنس دانوں نے ایک نئی قسم کی برف بنائی ہے جو نہ ہی تیر سکتی ہے اور نہ ہی ڈوب سکتی ہے جبکہ یہ جمے ہوئے پانی کے بجائے مائع پانی سے مشابہت رکھتی ہے۔
برف کی یہ نئی قسم بغیر کسی شکل کی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ عمومی کرسٹل کی شکل کی برف جیسی نہیں ہوتی بلکہ اس کے مالیکیول میں ترتیب کی بے قاعدگی اس کی شکل مائع پانی جیسی کردیتی ہے۔
محققین کا ماننا ہے کہ مشتری جیسے نظامِ شمسی کے باہری حصوں میں موجود سیاروں کے برف کے چاندوں پر عام برف کو چیر دینے والی طاقتوں کا سامنا ہوسکتا ہے جن کا سبب ان سیاروں پر موجود لہری طاقتیں ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) اور کیمبرج کے سائنس دانوں نے ان حالات کی نقل کی تاکہ نئے تجرے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر یہ برف وہاں موجود ہے تو ممکنہ طور پر برف کی چادروں میں پڑی دراڑوں میں خلائی زندگی کے آثار ہوسکتے ہیں جس کی وجہ اس نئی برف کی کئی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے کہ یہ برف بننے کے عمل کے دوران اپنے اندر بڑی مقدار میں توانائی ذخیرہ کر لیتی ہے جس کی بڑی مقدار برف کی تلفی کے دوران خارج ہوجاتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن سے تعلق کھنے والے سینئر مصنف پروفیسر کرسٹوف سیلزمن کا کہنا تھا کہ پانی زندگی کی بنیاد ہے، ہمارا وجود اس پر انحصار رکھتا ہے، اس کی تلاش کے لیے خلائی مشن روانہ کیے گئے لیکن سائنسی نقطہ نظر سے اس کو صحیح نہیں سمجھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سائنس دان برف کی 20 کرسٹل اقسام جانتے ہیں لیکن بے شکل برف کی اب تک صرف دو اقسام ہی معلوم ہوسکی تھیں جن کو زیادہ کثافت اور کم کثافت والی برف کے طور پر جانا جاتا ہے۔
برف کی اس نئی قسم کو درمیانی کثافت والی بے شکل برف (میڈیم ڈینسٹی ایمورفس آئس) کا نام دیا گیا ہے۔
Comments are closed.