ترکی زلزلہ: جھولتی عمارتوں کے دل دہلا دینے والے مناظر جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے

  • مصنف, کرسٹی بریوئر، پال کیرلے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ روز شام اور ترکی میں آنے والے زلزلے کے بعد تباہی کے مناظر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ عینی شاہدین اس بارے میں بات بھی کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اس دوران کیا ہوا تھا تاہم بی بی سی نیوز نے ان معلومات کی تصدیق کرنے کی کوشش کی ہے۔

زلزلے کے جھٹکے صبح چار بج کر 17 منٹ پر محسوس ہوئے اور یہ مرکز سے کئی سو میل تک محسوس کیے جاتے رہے۔

شہری بتاتے ہیں کہ کیسے وہ نیند سے جاگے اور بھاگ کر اپنی گاڑی میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

ایردیم نام ایک شہری نے کہا کہ ’اپنی 40 سالہ زندگی میں میں نے کبھی ایسے محسوس نہیں کیا۔ ہم تین مرتبہ بہت بری طرح جھنجھوڑے گئے، جیسے کسی بچے کو جھولے میں ہلایا جاتا ہے۔

بی بی سی نیوز کی جانب سے زلزلے کے جھٹکوں کے باعث ہونے والی تباہی کے حوالے سے معلومات کو جوڑا گیا ہے۔ اس میں عینی شاہدین کے بیانات اور سوشل میڈیا پوسٹس کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔

جنوبی ترکی میں ایک تصدیق شدہ ٹویٹ میں کیمرہ اچانک ایک تباہ شدہ عمارت کی جانب گھومتا ہے۔

بی بی سی ترکش نے زلزلے کے بعد محفوظ رہنے والے افراد سے بات کی ہے اور سب نے ہی کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انھوں نے اتنا شدید جھٹکا محسوس کیا۔

اسی طرح سینکڑوں عمارتیں پازارجیک میں تباہ ہوئی ہیں جو مرکز کے شمال میں واقع ہے۔ ویڈیو فوٹیج میں ٹوئٹر پر علاقے کا فضائی مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے رشتہ دار اب بھی ملبے تلے دے ہوئے ہیں۔

ویزل سروان نے کہا کہ ’میں نے بہت مشکل سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو عمارت سے نکالا۔ ہم باہر آ ہی رہے تھے کہ ہمیں ایک شخص کا ہاتھ نظر آیا جو ملبے کے نیچے سے مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ اس کو بچانے کے لیے جانے والے ہمارے دوست پر عمارت گر گئی۔ ہم بہت بری صورتحال میں ہیں۔

ایسی بھی سامنے آئی ہیں جن میں جنوبی ترکی میں لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ گیس پائپ لائن تباہ ہونے کی بعد وہاں آگ لگ گئی۔

بی بی سی نے حطائے میں ایک ویڈیو کی تصدیق کی ہے جو شہر کے باہر موجود گیس پائپ لائن سے بنائی گئی ہے اور یہ جگہ مرکز سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

حطائے کے اوپر ڈرون سے لی گئی تصاویر میں متعدد اپاٹمنٹ بلڈنگز دیکھی جا سکتی ہیں جو ایک علاقے میں زمین بوس ہو چکی ہیں۔

turkey

،تصویر کا ذریعہGetty Images

زلزلے کے باعث شہر کا ہسپتال ایک زاویے پر منہدم ہوا۔

غازی عنتیپ کے شہری رسل پیگرام نے اپارٹمنٹ بلڈنگز سے عمر رسیدہ ہمسایوں کو نکالنے کے حوالے سے امدادی کام کے بارے میں بتایا۔ اس وقت وہاں شدید ٹھنڈ ہے جو امدادی کاموں میں ایک رکاوٹ ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم سب نے مل کر کام کیا۔ اگر کوئی عمر رسیدہ خاتون یا مرد نیچے آ رہے تھے اور آپ کی گاڑی میں جگہ تھی تو ہر کوئی ساتھ دے رہا تھا، ہر کوئی کمبل شیئر کر رہا تھا۔‘

اس زلزلے کے باعث شہر میں موجود ایک قلعے اور شروان مسجد بھی تباہ ہوئی ہے۔ غازی عنتیپ قلعہ ملک میں موجود قلعوں میں سب سے بہتر حالت میں تھا اور یہ رومن دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے زلزلے کے مرکز کے جنوب اور مشرق میں آفٹرشاکس ریکارڈ کیے جاتے رہے ہیں۔

Here Turkish TV captured the moment the second earthquake struck in the city of Malatya.

یہاں ترکش ٹی وی نے وہ لمحات فلم بند کیے جب شہر مالاٹیا میں دوسرا زلزلہ آیا۔

شانلیعرفا میں ایک عینی شاہد نے اس لمحے کو فلم بند کیا جس میں ایک عمارت زمین بوس ہو رہی ہے۔ بی بی سی کے صحافیوں نے اس ویڈیو کی لوکیشن کی تصدیق کر لی ہے، اس سے قبل سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ شاید یہ ویڈیو شام کی ہے۔

ہم نے اس حوالے سے جیو لوکیشن ٹولز استعمال کرتے ہوئے تھمبنیلز کی تصدیق کی ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ ویڈیوز کب پوسٹ کی گئی تھیں۔

دوسری جانب غازی عنتیپ میں یہ لمحہ اس وقت فلمایا گیا جب زلزلہ آ رہا تھا اور یہ واضح ہو چکا تھا کہ یہ عمارت بھی گرنے والی ہے۔

شمالی شام میں سرحد پار صورتحال خاصی مخدوش ہے۔ شام کے شمال مغربی شہر اعزاز میں ایک شہری نے میڈیا کو بتایا کہ اس وقت وہاں صورتحال کتنی خوفناک ہے۔

’اس وقت یہاں 12 خاندان پھنسے ہوئے ہیں اور کوئی بھی باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔‘ الیپو شہر میں ایک خاتون ایک چھوٹے سے بچے کو اٹھائے ہوئے ہے اور وہ بھاگ رہی ہے اور اردگرد عمارتیں گر رہی ہیں۔

حارم کے قریب بیسنایا-بسینیہ گاؤں میں زلزلے سے پہلے اور بعد کے مناظر میں تباہی کی وسعت دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں اب بھی امدادی کام تیزی سے جاری ہے۔

نقشہ

تصدیق اور اضافی رپورٹنگ: رچرڈ ایوروائن براؤن، پال مائرز، اولگا سمرنووا، ڈینیل پالومبا، ٹام سپینسر، جوشوا چیتھم، شایان سرداریزادہ، روزینہ سینی۔

BBCUrdu.com بشکریہ