ترکی میں آنے والے زلزلے اتنے ہلاکت خیز کیوں ہوتے ہیں؟

ترکی میں زلزلے کی تباہی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پیر کی صبح شام کی سرحد کے قریب ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں شدید زلزلے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔

زلزلے کا مرکز غازی عنتیپ کے شہر کے قریب کا علاقہ تھا اور پہلے شدید جھٹکے کے کچھ ہی دیر بعد یہاں ایک اور زلزلہ آیا اور آفٹر شاکس کا سلسلہ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جاری رہا۔

یہ زلزلہ اتنا ہولناک کیوں تھا؟

یہ ایک شدید زلزلہ تھا۔ اس کی شدت 7 اعشاریہ 8 ریکارڈ کی گئی اور سرکاری حکام کے مطابق یہ ایک ’بڑا‘ زلزلہ تھا۔

زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی پر نہیں تھا اور حکام کے مطابق یہ گہرائی 18 کلومیٹر تھی، اسی لیے متاثرہ علاقے میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔

یونیورسٹی کالج لندن کے قدرتی آفات پر تحقیق کے شعبے ’رِسک این ڈیزاسٹر ریڈکشن‘ سے منسلک پروفیسر جوئنا فار واکر کے مطابق ’پچھلے تمام برسوں کے مہلک ترین زلزلوں کو دیکھا جائے تو گذشتہ دس برس میں ایسے صرف دو زلزلے آئے جن کی شدت پیر کے زلزلے کے برابر تھی اور اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تھے۔‘

تاہم کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی۔

یہ زلزلہ صبح سویرے اس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں۔

ترکی میں زلزلہ

یونیورسٹی آف پورٹسمتھ میں آتش فشاؤں پر تحقیق کی ماہر، ڈاکٹر کارمن سولانا کہتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے جنوبی ترکی اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہی ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔

’اسی لیے زلزلے سے تباہی سے بچنے کا انحصار امدادی کارروائیوں پر ہے۔ آئندہ 24 گھنٹے اس حوالے سے نہایت اہم ہیں کہ ان میں کتنے لوگوں کو زندہ نکال لیا جاتا ہے۔ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد زندہ بچنے والوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔‘

ترکی اور شام کی سرحد کے قریب کے اس علاقے میں گذشتہ سو سال میں کوئی شدید زلزلہ نہیں آیا اور کوئی ایسی علامات بھی نہیں دیکھی گئیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا کہ یہاں اتنا شدید زلزلہ آ سکتا ہے۔

اسی لیے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں زلزلے سے بچاؤ کا نظام بھی قدرے کم دکھائی دیتا ہے۔

زلزلے کا سبب کیا تھا
؟

ہماری زمین کی بیرونی سطح یا پرت مختلف سطحوں کے ملاپ سے بنتی ہے جنھیں پلیٹس یا تھالیاں کہا جاتا ہے۔

یہ تھالیاں پرندوں کے گھونسلوں کی مانند ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔ اکثر یہ پلیٹس حرکت کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن مختلف پلیٹس کے درمیان رگڑ کی وجہ سے ان میں حرکت نہیں ہو پاتی لیکن کبھی کبھار تھالیوں کے درمیان دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک تھالی اچانک اپنی جگہ سے کھسک جاتی ہے جس سے زمین کی سطح ہِل جاتی ہے۔

پیر کو آنے والے زلزلے میں شمالی کی جانب حرکت کرتی ہوئی ’عریبین پلیٹ‘ اور ’اناطولین پلیٹ‘ میں رگڑ پیدا ہو گئی تھی۔

اسکندرون

غازی عنتیپ

ماضی میں آنے والے بڑے بڑے زلزلوں میں بھی مختلف تھالیوں کے درمیان رگڑ سے تباہی ہوئی۔

13 اگست 1821 کو بھی اس علاقے میں سات اعشاریہ چار کی شدت کا زلزلہ آیا تھا تاہم اس کی شدت پیر کے زلزلے سے خاصی کم تھی۔

اس کے باوجود اس زلزلے کے نتیجے میں یہ علاقہ بری طرح متاثر ہوا تھا اور صرف حلب کے شہر میں سات ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ 19ویں صدی کے اس بڑے زلزلے کے ایک برس بعد تک اس علاقے میں آفٹر شاکس آتے رہے۔

پیر کی صبح کے زلزلے کے بعد بھی جھٹکوں کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ماضی کے شدید زلزلے کی طرح اب بھی یہ رجحان جاری رہے گا۔

نقشہ

زلزلوں کو ماپا کیسے جاتا ہے؟

زلزلوں کی پیمائش کے لیے آج کل جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے اسے ’مومنٹ میگنیچیوئڈ سکیل‘ کہا جاتا ہے۔

اس پیمانے پر دو اعشاریہ پانچ سے کم کی شدت کے جھٹکے کو محسوس نہیں کیا جا سکتا اور یہ آلہ اس کی پیمائش نہیں کر سکتا۔ تاہم پانچ تک کی شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا جا سکتا ہے اور اتنی شدت کے زلزلے سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔

سات اعشاریہ آٹھ کی شدت کے جھٹکے کو ایک ’بڑا‘ زلزلہ کہا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں عموماً خاصی تباہی ہوتی ہے۔

آٹھ سے زیادہ کی شدت کا جھٹکا انتہائی تباہ کن ہوتا ہے جس سے زلزلے کے مرکز کے ارد گرد کی آبادیاں مکمل ملیا میٹ ہو سکتی ہیں۔

سنہ 2011 میں جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں آنے والے زلزلے کی شدت نو تھی جس سے نہ صرف ساحلی علاقے میں بہت زیادہ تباہی دیکھنے میں آئی تھی بلکہ اس نے انتہائی بلند سمندی لہروں کے طویل سلسلے کو جنم دیا تھا۔

ان بلند لہروں میں سے ایک ساحل کے قریب واقع ایک جوہری پلانٹ سے ٹکرا گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔

دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا زلزلہ سنہ 1960 میں چلی میں آیا تھا جس کی شدت نو اعشاریہ پانچ ریکارڈ کی گئی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ