ماحولیات اور صحت کے ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں دو نمبر ایندھن کا استعمال بند کیا جائے، کراچی میں آلودگی ناپنے کے پیمانے لگائے جائیں، آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو بند کیا جائے، کچرے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگایا جائے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے اور کراچی جو مختلف اداروں کے مابین تقسیم ہے اسے ایک ادارے کے ماتحت کیا جائے۔
ماہرین نے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ شہری علاقوں میں صنعتوں کے قیام کی اجازت ہرگز نہ دی جائے، شہر میں وسیع پیمانے پر شجر کاری کی جائے۔
ماہرین نے ان خیالات کا اظہار پیر کو پی ایم اے ہاؤس میں کراچی سٹیزنز فورم اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اشتراک سے "ہم کراچی کی بڑھتی ہوئی زہریلی ہوا کے معیار کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟” کے موضوع پر منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مقررین میں کنوینر، کراچی سٹیزنز فورم نرگس رحمان، شریک کنوینر کراچی سٹیزنز فورم ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد، این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈین آف آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد، ماہر ماحولیات ڈاکٹر کلثوم احمد، شعبہ ماحولیاتی انجینئرنگ کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفار، سابق صدر سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ شارق وہرہ، سیکرٹری جنرل پی ایم اے ڈاکٹر عبدالغفور شورو، سی ای او ایئر کوالٹی صوفیہ حسنین اور ماحولیاتی کارکن یاسر حسین شامل تھے۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ کراچی کے جتنے بھی مسائل ہیں وہ حل نہیں ہورہے بلکہ دن بدن بڑھ رہے ہیں سر کاری افسران آتے ہیں لیکن اپنی مصروفیات کی وجہ سے مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔
نرگس رحمان نے کہا کہ کراچی کی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ایک لاکھ 28 ہزار افراد اس میں مبتلا ہو کر ختم ہوگئے، یہ آلودگی ہماری سانسوں کو پھیپھڑوں اور خون کو متاثر کر رہی ہے اور تو اور پیدا ہونے والے بچوں پر بھی اس آلودگی کا اثر پڑ رہا ہے۔ ہم اس آلودگی کو کم کرسکتے ہیں اس سے سب سے زیادہ متاثر غریب افراد ہیں۔
صوفیہ حسنین نے کہا کہ ہم نے ملک میں 50 سے زیادہ ایئر کوالٹی مانیٹر لگا رکھے ہیں۔ جب کہ کراچی میں یہ 20 ہیں، پشاور بہت آلودہ شہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایندھن کا معیار سب سے بڑا مسئلہ ہے اور پھر تعمیراتی کام آلودگی پھیلانے کا بڑا ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا جب کراچی کی سمندری ہوا چلتی ہے تو وہ شہر میں اور آلودگی بڑھا دیتی ہے پھر کچرا جلانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، یہ ماحول کو آلودہ کرتا ہے۔ ایک ملین کی آبادی میں 10 ایئر کوالٹی مانیٹر ہونے چاہئیں جب کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زائد ہے اور یہاں صرف 20 ایئر کوالٹی مانیٹر ہیں۔
یاسر حسین نے کہا کہ ہم ایک زہر کے پیالے میں رہ رہے ہیں ہمارے شہر کی ہوا خراب ہوچکی ہے۔ ٹاور اور گلشن چلیں جائیں جہاں ہوا انتہائی آلودہ ہے۔ جس حساب سے ڈیزل پیٹرول جلتا ہے وہ سب فضاء میں آجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت سے کوئی توقع نہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ موٹر سائیکلوں اور کاروں کو برقی کیا جائے، ملک کو شمسی توانائی کی طرف لے جایا جائے اور بجلی شمسی توانائی سے پیدا کی جائے۔
پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا کہ کراچی کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب یہاں ترقیاتی کام شروع ہوئے تو طے کیا گیا کہ قدرتی ماحول کو محفوظ رکھا جائے لیکن اس کے برعکس ہوا درخت ختم کردیے گئے 70 کی دہائی میں کراچی کی مضافات کا 19 فیصد درختوں سے ڈھکا ہوا تھا، لیکن اب ڈیڑھ فیصد بھی نہیں رہا۔
انہوں نے کہا گٹر باغیچہ کی مثال سامنے ہے، فضائی آلودگی روز بڑھ رہی ہے کیونکہ ہر روز 13 سو موٹرسائکلیں اور 11 سو گاڑیاں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں۔ کچرے کا نظام بہت خراب ہے کچرے کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا ہے بلکہ جلا دیا جاتا ہے، ہمیں اس شہر کی عملی حدود کا تعین کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر عبدالغفار نے کہا کہ پاکستان میں 490 آرٹیکل آلودگی پر آچُکے ہیں، کراچی کو کنکریٹ کا جنگل کہا جاتا ہے۔ فیول کی کارکردگی کو بہتر کریں، گاڑیوں کی چیکنگ کو یقینی بنایا جائے، کچرے کو جلنے سے روکا جائے۔ دو اسٹروک گاڑیاں بند کی جائیں، سائیکل کا استعمال کیا جائے، زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے۔
ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے کہا کہ گاڑیوں کا دھواں پھیپھڑوں پر براہ راست متاثر اثر انداز ہوتا ہے، ہم تحقیق نہیں کرتے اگر ہم تحقیق پر کام کریں تو ہمیں مسئلے کا درست طور پر پتہ چلے گا۔ اگر ہم شہریوں کو صاف پانی فراہم کریں 40 فیصد آبادی بیماریوں سے بچ جائے گی ۔گاڑیوں کی فٹنس کا شعبہ کام ہی نہیں کرتا۔
شارق وہرہ نے کہا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم درست نہیں ہوئی، ماحولیات کی وفاقی وزارت ہے اس نے فنڈنگ سے تعلق رکھنے والی چیزیں اپنے پاس رکھ لیں، باقی چیزیں صوبوں کے حوالے کردیں۔
انہوں نے کیا ہم دنیا کی بہت چھوٹی صنعتیں رکھنے والے لوگ ہیں ہم تو ضرورت کے مطابق مکھن بھی تیار نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس پیسے نہیں تربیت یافتہ لوگ نہیں، کراچی کی آلودگی کی بڑی وجہ اربنائزیشن جبکہ دوسری وجہ ٹرانسپورٹیشن ہے، ہم 31 ارب ڈالر کا سالانہ فیول برآمد کرتے ہیں اور 40 فیصد ضائع کرتے ہیں یعنی ہوا میں اڑا دیتے ہیں اور آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کلثوم احمد نے کہا آلودگی سے صحت متاثر ہوتی ہے اور پھر جب صحت خراب ہو تو کام پر نہیں جاتے جس کا اثر ترقی پر پڑتا ہے، نمونیا سے ہر سال 10 لاکھ لوگ مرتے ہیں مگر ان کی اکثریت چار ملکوں میں ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
Comments are closed.