مردوں کے سٹرپ کلبز کی سلطنت کے ’بادشاہ‘ بننے والے انڈین شہری جن کی کہانی سنسنی خیز افسانے سے کم نہیں

فلم

،تصویر کا ذریعہHULU

کلبز میں خواتین کی تفریح کے لیے بو ٹائی اور جی سٹرنگ (مختصر زیر جامہ) پہننے والا مرد ایک ایسی روایت نہیں جسے عام طور پر کسی انڈین نژاد امریکی تارکِ وطن کے ساتھ جوڑا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ممبئی میں پیدا ہونے والے سٹیو بنرجی نے 1979 میں لاس اینجلس میں مردوں کے سٹرپ کلب ’چیپنڈیلز‘ کی بنیاد رکھی تھی۔

باقی سب تاریخ  کا حصہ ہے۔ بنرجی نے ایک انتہائی کامیاب فرنچائز سے قسمت بنائی۔ اس میں سیکس، منشیات اور قتل کو شامل کریں تو بنرجی کی کہانی سنسنی خیز افسانوں کا سامان بن جاتی ہے۔

انڈیا میں بنرجی اور ان کے کام کے بارے میں کوئی زیادہ نہیں جانتا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میں ’چیپنڈیلز‘ برانڈ نے اپنے متنازع بانی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، مگر اب یہ اب بدل رہا ہے۔

ان کی موت کے تقریباً تین دہائیوں بعد ایک پوڈ کاسٹ اور متعدد ٹی وی شوز بشمول ’ہولو‘ کی نئی ڈراما سیریز ’ویلکم ٹو چیپنڈیلز‘ جس میں کمیل ننجیانی نے اداکاری کی، بنرجی کی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔

سنہ 2014 میں شائع ہونے والی کتاب ’ڈیڈلی ڈانس: دی چیپنڈیلز مرڈرز‘ کے شریک مصنف سکاٹ میکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر لوگ یہ سوچیں گے کہ چیپنڈیلز کا بانی پارٹیوں کا شوقین تھا جو خواتین کا پیچھا کرتا تھا، منشیات استعمال کرتا تھا اور بہت زیادہ شراب پیتا تھا۔‘

’بنرجی کم گھلنے ملنے والا اور اپنے آپ پر قابو رکھنے والا شخص تھا جس کا واضح مقصد ڈزنی، پلے بوائے یا پولو کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عالمی برانڈ بنانا تھا۔‘

بنرجی

تاریخ دان نتالیا مہلمین پیٹرزیلا کہتی ہیں کہ ’وہ کہانی کا ایک انوکھا حصہ ہیں، جن کے پوڈ کاسٹ ’ویلکم ٹو یور فینٹسی‘ نے چیپنڈیلز کی وراثت میں نئی دلچسپی پیدا کی ہے۔

چشمہ لگائے، گندمی رنگت اور بھرے جسم والے بنرجی اپنی فرنچائز کی جانب سے فروخت کیے جانے والے ’سفید فام، گورے، کیلیفورنیا مین‘ کے تصور کے برعکس تھے۔

پیٹرزیلا کہتی ہیں کہ بنرجی کا تعلق پرنٹرز کے خاندان سے تھا اور وہ 1960 کی دہائی کے اواخر میں 20 سال کی عمر میں انڈیا چھوڑ کر کینیڈا چلے گئے تھے۔

وہ جلد ہی کیلیفورنیا پہنچ گئے جہاں وہ لاس اینجلس میں ایک گیس سٹیشن کے مالک بنے تاہم بنرجی کے عزائم اس سے بھی بڑے تھے۔

’جب لوگ اپنی فینسی گاڑیوں میں ایندھن بھرنے کے لیے آتے تو وہ کہتے میں اس گاڑی کو چلانا چاہتا ہوں۔‘

1970 کی دہائی میں بنرجی نے اپنی بچت سے لاس اینجلس میں ایک بار خریدی جسے انھوں نے ’ڈیسٹینی ٹو‘ کا نام دیا اور گیمز، جادو کے شو اور خواتین کے درمیان مٹی کی کشتی کے مقابلوں کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔  

سنہ 1979 میں نائٹ کلب کی تشہیر کرنے والے پال سنیڈر نے تجویز دی کہ بنرجی خواتین کے ایک شو کے لیے مرد سٹرپرز کو شامل کریں جو عام طور پر ہم جنس پرستوں کے کلبز میں ہی دیکھے جاتے تھے۔

پھر ایک بہترین تجربہ تجویز کرنے کے لیے بار کا نام تبدیل کر کے ’چیپنڈیلز‘ رکھ دیا گیا۔

پیٹرزیلا اپنی پوڈ کاسٹ میں کہتی ہیں کہ پورے مغربی لاس اینجلس میں سٹرپ شوز کی تشہیر کی گئی تھی۔ جہاں بھی خواتین جمع ہوتی تھیں، سیلون سے لے کر خواتین کے ریسٹ روم تک، چیپنڈیلز نے جلد ہی ہر رات خواتین کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

مرد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہیو ہیفنر کے ’پلے بوائے بنیز‘ سے متاثر ہو کر رقص کرنے والے کالے رنگ کی چست پتلون کے ساتھ کف اور کالر پہنتے تھے۔

پیٹرزیلا کہتی ہیں کہ 1980 کی دہائی کے امریکہ کے لیے ’یہ حیران کن تھا‘ لیکن 1970 کی دہائی کے جنسی انقلاب کے تناظر میں، بنرجی کا چیپنڈیلز بھی ایک ایسے وقت میں آیا جب خواتین کو با اختیار بنانے اور جنسی آزادی کو تسلیم کیا جا سکتا تھا۔

اے اینڈ ای ڈوکو سیریز ’سیکریٹس آف دی چیپنڈیلز مرڈرز‘ میں کلب کی تشہیر کرنے والی باربرا لیگیٹی کہتی ہیں کہ خواتین کو ایک ایسی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ’وہ بھرپور لطف لے سکیں اور انھیں ایسا کرنے پر معاف کیا جا سکے۔‘

‘وہ ایک دوسرے سے مل سکتی تھیں، کچھ جام پی سکتی تھیں، ایک خوش شکل  شخص کی جی سٹرنگ (مختصر زیر جامہ) میں 20 ڈالر ڈال سکتی تھیں۔‘

بنرجی ’بالغوں کے لیے ڈزنی لینڈ‘ بنانا چاہتے تھے، ایک ایسا برانڈ جو اتنا بڑا ہو کہ اس کے ہیروز ہیفنر اور والٹ ڈزنی کا مقابلہ کر سکیں۔

80  کی دہائی کے اوائل میں ان کی ملاقات ایمی ایوارڈ یافتہ ہدایتکار اور کوریوگرافر نک ڈی نویا سے ہوئی جنھوں نے انھیں قائل کیا کہ شو کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

چیپنڈیلز کے رقاصوں اور پروڈیوسرز نے کرداروں اور کہانیوں کا استعمال کرتے ہوئے شو کو مزید پرکشش اور تھیٹر پروڈکشن میں تبدیل کرنے کا سہرا ڈی نویا کو دیا۔

یہ بھی پڑھیے

ڈی نویا نے چیپنڈیلز کو نیو یارک شہر لے جانے میں مدد کی۔ اس کامیاب دورے کے ذریعے یہ پروڈکشن پورے امریکہ میں پھیلی لیکن جلد ہی دونوں کے درمیان معاملات اس وقت تلخ ہوئے جب کوریوگرافر ڈی نویا اس برانڈ کا چہرہ بننے لگے جبکہ بنرجی پس منظر میں جانے لگے۔

ڈی نویا اور بنرجی نے آخر کار شراکت داری ختم کر دی اور ڈی نویا نے اپنی کمپنی ’یو ایس میل‘  شروع کرنے کا پروگرام بنایا۔

ڈوکو سیریز میں، چیپنڈیلز کے ایک سابق ایسوسی ایٹ پروڈیوسر، جنھوں نے ڈی نویا کو ان کے نئے منصوبے میں مدد کی، کا کہنا ہے کہ اس بات نے بنرجی کی برداشت ختم کر دی۔

بنرجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بنرجی

بنرجی کو جاننے والے بہت سے لوگ انھیں ایک ’پاگل‘ شخص سمجھتے تھے۔ پیٹرزیلا کہتی ہیں کہ ’انھیں لگتا تھا کہ اگر دوسرے کامیاب ہیں تو لازمی طور پر انھوں نے اُن کی کامیابی ہتھیا لی ہے۔‘

جیسے ہی حریف سٹرپ کلب ابھرے، بنرجی نے حریفوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے اپنے دوست رے کولون کی خدمات حاصل  کیں۔

سنہ 1987 میں بنرجی کے حکم پر کولون نے ایک ساتھی کو بھرتی کیا جس نے ڈی نویا کو ان کے دفتر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اگرچہ دوستوں اور ساتھیوں کو اس قتل میں بنرجی کے ملوث ہونے کا شبہ تھا لیکن ایف بی آئی کے تفتیش کاروں کو یہ تعلق جاننے میں کئی سال لگے۔ بنرجی کے وکیل بروس ناہین نے کہا کہ ’اس قتل سے برانڈ پر کوئی اثر نہ پڑا۔‘

چیپنڈیلز کے کام میں اضافہ ہوا اور یہ برانڈ آسٹریلیا اور یورپ پہنچا۔ سنہ 1991 میں چیپنڈیلز کے دورے کے دوران جب بنرجی برطانیہ میں تھے تو انھوں نے کولون سے کہا کہ وہ اپنے کلب کے سابق ڈانسروں کی جانب سے شروع  کی گئی کمپنی کے ممبرز کو مار دیں۔

ایف بی آئی کے شواہد کے مطابق ان کا منصوبہ ان افراد کو سائنائیڈ انجکشن لگانے کا تھا جو کولون نے سٹرابیری نامی ساتھی کو فراہم کیا تھا لیکن خوفزدہ سٹرابیری نے ایف بی آئی کو کولون کے بارے میں اطلاع کر دی۔

کولون کو گرفتار کیا گیا اور کرائے کے قتل کی سازش کا الزام عائد کیا گیا۔ ایجنسی کے مطابق کولون کے گھر پر چھاپے کے دوران 46 گرام سائنائیڈ برآمد کیا گیا۔ گرفتاری کے بعد کئی مہینوں تک کولون بنرجی کے وفادار رہے اور خود کو بے قصور کہتے رہے۔

میکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ’جب سٹیو بنرجی نے وکیل کے لیے پیسے دے کر کولون کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تو انھوں نے آخر کار سٹیو سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘ 

سنہ 1993 میں ایف بی آئی نے آخر کار کولون کا استعمال کرتے ہوئے گفتگو کو خفیہ طور پر ریکارڈ کر کے بنرجی کے خلاف کافی ثبوت جمع کیے۔ بنرجی کو دیگر الزامات کے علاوہ دھوکہ دہی، سازش اور قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن انھوں نے الزامات سے انکار کیا۔

کچھ مہینوں تک مقدمے کی سماعت جاری رہنے کے بعد بنرجی 26 سال قید اور امریکی حکومت کو چیپنڈیلز کی ملکیت ضبط کروانے پر راضی ہو گئے۔

پیٹرزیلا کا کہنا ہے کہ بنرجی کے وکیلوں نے انٹرپرائز کو ضبط کرنے سے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اکتوبر 1994 میں سزا سنائے جانے سے ایک دن پہلے بنرجی نے اپنی جیل کی کوٹھری میں خود کشی کر لی تھی۔

برکلے میں جنوبی ایشیائی بنیاد پرست تاریخ کے واک ٹور کا اہتمام کرنے والے انیروان چٹرجی کہتے ہیں کہ ’بہت کم انڈین امریکی ان کی کہانی جانتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بنرجی کی زندگی کمیونٹی کے بارے میں ہر دقیانوسی تصور کے برعکس تھی۔‘

اپنی تحقیق میں پیٹرزیلا کو معلوم ہوا کہ بنرجی نے کیلیفورنیا کی ایک حقیقی کاروباری شخصیت بننے کی بہت کوشش کی تھی لیکن ان کے انٹرویو دینے والوں کی یاد میں ان کا انڈین لہجہ نمایاں تھا۔

’یہ واضح ہے کہ دوسرے لوگوں نے ہمیشہ انھیں غیر ملکی اور انڈین کے طور پر دیکھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ موت کے بعد بھی لوگوں نے ان پر تبصرہ کرتے وقت سب سے پہلے ان کے لہجے کی نقل کرنا شروع کر دی۔

BBCUrdu.com بشکریہ