میانمار: بی بی سی کے زیرِ حراست صحافی کو رہا کر دیا گیا، فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج جاری
بی بی سی نے حکام سے کہا تھا کہ وہ آنگ تھورا کو ڈھونڈنے میں مدد کریں
میانمار میں بی بی سی برمیز سروس کے رپورٹر آنگ تھور کو کئی روز تک حراست میں رکھے جانے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
19 مارچ کو آنگ تھور دارالحکومت نیپی ڈاؤ میں ایک عدالت کے باہر رپورٹنگ کر رہے تھے جب انھیں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
مینمار میں جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد سے عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 40 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ فوجی حکومت نے پانچ میڈیا کمپنیوں کے لائسنس بھی منسوخ کر دیے ہیں۔
میانمار میں کئی شہروں میں جاری احتجاج کی نئی لہر میں اب تک کم از کم آٹھ افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد بی بی سی کے آنگ تھور کے ساتھ تھان آنگ نامی ایک دوسرے رپورٹر کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ تھان آنگ مقامی میڈیا کے ایک ادارے میزیما کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس ادارے کا لائسنس اس مہینے کے شروع میں فوجی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد ایک عام وین میں دوپہر کے وقت وہاں پہنچے اور انھوں نے ان صحافیوں سے ملنے پر اصرار کیا۔
اس کے بعد سے بی بی سی کی کوشش کے باوجود آنگ تھور سے رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔ پیر کے روز بی بی سی نے ان کی رہائی کی تصدیق کی ہے۔
ملک کی رہنما آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنما زیرِ حراست ہیں۔
سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فروری میں فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں اب تک 232 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ چار مارچ سب سے خونی دن ثابت ہوا جب 38 افراد ہلاک ہوئے۔
جمعے کو رنگون میں مظاہرین سڑکوں ہر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے پاس موجود ہیں
گذشتہ ہفتے بھی مظاہروں کے دوران اطلاعات کے مطابق کئی لوگ ہلاک ہوئے۔
ملک بھر میں مظاہرین نے ویک اینڈ پر موم بتیاں جلا کر احتجاج کیا اور کئی جگہ پر بودھ راہبوں نے بھی ان مظاہروں میں شرکت کی۔
پیر کے روز مزید مظاہروں کا اعلان کیا گیا۔
اس دوران یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ کے سفارت خانوں کے مشترکہ بیان میں ‘سکیورٹی فورسز کی جانب سے غیر مسلح شہریوں کے خلاف بے رحمانہ تشدد’ کی مذمت کی گئی۔
بیان میں فوج سے مارشل لا اٹھانے، قیدیوں کو رہا کرنے، ایمرجنسی ختم کرنے اور جمہوریت بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
Comments are closed.