مارگریٹ سینگر: ’برتھ کنٹرول پل کی ماں‘ جن کی شخصیت اور نیت دونوں ہی متنازع رہیں

مارگریٹ سینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’کیا آپ ایک بڑے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھا سکتی ہیں؟ کیا آپ اور بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیوں پیدا کرتی ہیں؟ ان کی جان مت لیں لیکن احتیاط کریں۔ ماہر نرس آپ کو محفوظ طریقے کی معلومات فراہم کر سکتی ہیں۔۔۔‘

یہ 1916 میں امریکی شہر نیو یارک میں چھپنے والے ایک اشتہار کے الفاظ ہیں جو پہلے خاندانی منصوبہ بندی کے کلینک کی تشہیر کے لیے تھا۔ اس کی بانی مارگریٹ سینگر تھیں۔

اس زمانے میں یہ موضوع متنازع ہی نہیں بلکہ غیر قانونی بھی تھا۔ اس کلینک کو جلد ہی بند کر دیا گیا اور مارگریٹ سینگر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچیں لیکن تقریباً 50 سال بعد جب ان کی وفات ہوئی تو ان کا کام دنیا بھر میں خاندانی منصوبہ بندی سے جڑے خیالات کو بدل چکا تھا۔

میڈیا اور خاندانی منصوبہ بندی کے ماہرین ان کو ’برتھ کنٹرول پل کی ماں‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔

ایک متنازع شخصیت

مارگریٹ سینگر کے طریقے اور ان کی نیت دونوں ہی متنازع رہے۔ یوجینکس تحریک سے ان کی وابستگی نسلی امتیاز کے الزامات کی وجہ بنی۔

سنجم اہلووالیا امریکہ کی ناردرن ایریزونا یونیورسٹی میں تاریخ اور صنف کی پروفیسر ہیں۔ بی بی سی ورلڈ سروس ریڈیو پر دی فورم میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’سینگر کی تاریخ کو بغور پڑھنے کی ضرورت ہے۔‘

سینگر نیو یارک ریاست میں 1879 میں پیدا ہوئیں اور 11 بچوں میں سے چھٹے نمبر پر تھیں۔ ان کے والد ایک مزدور تھے۔ خاندان غربت کی زندگی جی رہا تھا۔ ان کی والدہ 18 بار حاملہ ہوئیں جن میں سات بار حمل ضائع ہو گیا۔

سینگر نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور نرس کیا۔ وہ ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں جو موت کے قریب ہوتے تھے۔ یہاں بھی انھوں نے حمل کی پیچیدگی سے عورتوں کی اموات ہوتی دیکھیں۔

مارگریٹ سینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایلین ٹائلر مے یونیورسٹی آف منیسوٹا میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ امریکی میں اس وقت خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کسی قسم کی دوائی یا معلومات پہنچانے کے لیے بھی ڈاکخانہ استعمال کرنا ممنوعہ تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب کیتھولک چرچ بھی منصوبہ بندی کو ایک گناہ تصور کرتی تھی۔

برتھ کنٹرول کا حق

مارچ 1914 میں سینگر نے ’باغی عورت‘ کے نام سے ایک کتاب چھاپی جس میں انھوں نے منصوبہ بندی کے حق کی بات کی۔ اس کتاب پر قانونی کارروائی شروع ہوئی تو گرفتاری سے بچنے کے لیے سینگر انگلینڈ چلی گئیں۔

انگلینڈ میں سینگر تھامس رابرٹ مالتھس کے کام سے متاثر ہوئیں جس کا ماننا تھا کہ زمین کے وسائل محدود ہیں جو آبادی میں اضافے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ انھوں نے شادی میں تاخیر کرنے اور خود پر قابو رکھنے کا مشورہ دیا تھا تاہم ان کے حامی سماجی کارکن اب منصوبہ بندی کے حق میں تحریک چلا رہے تھے۔

برطانوی مورخ ڈاکٹر کیرولین کہتی ہیں کہ ’سینگر نے ایک اور بیانیے کو فروغ دینا شروع کیا کہ منصوبہ بدی امن برقرار رکھنے اور غذائی قلت ختم کرنے کا راستہ تھا۔‘

پہلا کلینک

مارگریٹ سینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سینگر نے اپنی ملک بدری خود ہی ختم کی اور امریکہ واپس جا کر پہلا برتھ کنٹرول کلینک نیو یارک کے ایک ایسے علاقے میں کھول لیا جہاں کی اکثریت غریب افراد پر مشتمل تھی۔

چند دن بعد ہی اس کلینک پر چھاپہ پڑا اور سینگر کو گرفتار کر لیا گیا۔ رہا ہوتے ہی سینگر نے کلینک دوبارہ کھول لیا اور ایک بار پھر ان کو گرفتار کر لیا گیا۔

1917 میں ان کے خلاف مقدمے میں ان کو 30 دن کی جیل کاٹنے یا جرمانہ ادا کرنے کا کہا گیا تو انھوں نے جیل کا انتخاب کیا۔ اس مقدمے سے ان کو کافی شہرت ملی۔

ان کی زندگی پر کتاب لکھنے والی ایلین چیسلر کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے وہ امریکہ کی معروف شخصیت بن گئیں۔ ’ان کی بہن بھی جیل میں تھیں جس نے بھوک ہڑتال بھی کی۔‘

رہائی کے بعد سینگر نے سزا کے خلاف اپیل کی لیکن عدالت نے کہا کہ ڈاکٹرز صرف طبی وجوہات کی بنا پر برتھ کنٹرول تجویز کر سکتے ہیں۔

ایک سانحہ

ایک جانب قانونی لڑایاں تھیں تو دوسری جانب ان کی نجی زندگی بھی ایک گرداب کی زد میں تھی۔ 1914 میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی اور 1915 میں ان کی اکلوتی بیٹی پیگی پانچ سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔

سینگر نے متعدد مردوں سے تعلقات رکھے جن میں معروف مصنف ایچ جی ویلز بھی شامل تھے۔

1922 میں سینگر نے جیمز نواہ سے شادی کر لی جو تیل کی صنعت میں ایک بڑا نام تھے۔ سینگر کی تحریک کو پیسہ بھی انھوں نے ہی فراہم کیا۔

یوجینکس

سینگر نے اپنی تحریک کے لیے ایسے گروہوں سے بھی ہاتھ ملایا جن کے بارے میں آج گمان کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف نظریات رکھتے تھے۔

رسٹرہولز کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے یوجینکس سوسائٹی سے شراکت داری کی اور ان سے فنڈز لیے۔‘

امریکی نیشنل ہیومن جینوم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق یوجینکس ایک سائنسی طور ہر بے بنیاد نظریہ ہے کہ انسانیت مخصوص آبادی یا قومیت کی افزائش نسل کے ذریعے ترقی کر سکتی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن نازیوں کی جانب سے ہولوکاسٹ سے قبل ایسے نظریات کا پرچار بنا کسی مخالفت کے کیا جاتا تھا۔

رسٹرہولز کا کہنا ہے کہ ’وہ دراصل غربت کے خلاف لڑنا چاہتی تھیں لیکن اس نے چند متنازع طریقوں کا بھی ساتھ دیا جیسا کہ معزور افراد میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سائنسی طریقے سے ختم کرنا۔‘

مارگریٹ سینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایلین چیسلر کا ماننا ہے کہ سینگر کے اپنے خیالات تھے۔

کلاسیکل یوجینکس درمیانی آمدن کے طبقے میں برتھ کنٹرول کا مخالف تھا۔ ’ان کو نسل، رنگ اور رتبے میں دلچسپی تھی لیکن سینگر تو صرف یہ چاہتی تھی کہ سب خواتین کو حق ہو کہ وہ کم بچے پیدا کرنا چاہیں تو ان کو روکا نہ جائے۔‘

1920 اور 1930 کی دہائی میں سینگر نے دنیا بھر کا سفر کیا اور چین، جاپان، کوریا، انڈیا جیسے ممالک میں منصوبہ بندی کا پرچار کیا۔

انڈیا میں سینگر نے ایک ایسے پاؤڈر کی حمایت کی جو مردوں میں سپرم کم کرتا تھا تاہم اس پاؤڈر کے بارے میں کافی شکایات آئیں کیونکہ اسے کسی ماہر کے بغیر استعمال کرنا مشکل تھا۔

مارگریٹ سینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سینگر نے گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی معروف شخصیات سے بھی ملاقات کی۔ ٹیگور خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں تھے لیکن گاندھی نفس پر قابو پانے کے حمایتی تھے۔ سینگر بھرپور کوشش کے باوجود گاندھی کو اپنے خیالات کے حق میں قائل نہیں کر سکیں۔

اس اثنا میں دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی تو خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک وقتی طور پر پس منظر میں چلی گئی لیکن جنگ کے بعد آبادی میں اضافے کے خطرے نے تحریک کو جیسے ایک نیا جنم دیا۔

یہ بھی پڑھیے

جادو کی گولی

خاندانی منصوبہ بندی کے مروجہ طریقوں کی ناکامی سے مایوس ہونے کے بعد سینگر نے کسی آسان طریقے کی ضرورت پر زور دیا۔

انھوں نے ایک جادوئی گولی کے بارے میں لکھا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ان کو مدد کی ضرورت ہے۔

ایک امیر بیوہ خاتون کیتھرین مککورمک نے ان کو فنڈز فراہم کیے اور متنازع سائنس دان ڈاکٹر گریگوری پنکس کو بھی پراجیکٹ میں شامل کرنے پر آمادہ کیا۔

مککورمک نے 40 ہزار ڈالر فراہم کیے جو بڑھتے بڑھتے ایک ملین ڈالر تک جا پہنچے۔ 10 سال میں جادو کی یہ گولی تیار تھی لیکن ایک مسئلہ درپیش تھا۔

مارگریٹ سینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ میں اسقاط حمل غیر قانونی تھا۔ 1950 میں پراجیکٹ ٹیم نے پورٹو ریکو اور ہیٹی کا رخ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس گولی کو وہاں ٹیسٹ کیا گیا لیکن چند اخلاقی پہلو نظر انداز بھی ہوئے۔

ایلین ٹائلر کہتی ہیں کہ ’یقینی طور پر کچھ غلط کام ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔‘

1965 میں امریکہ میں یہ گولی شادی شدہ خواتین کے لیے قانونی ہو گئی اور 1972 میں تمام خواتین کے لیے۔

1966 میں اپنی موت سے قبل سینگر اس گولی کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ چکی تھیں جس کے اثرات بھی سامنے آتھے۔

مارگریٹ سینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم ان پر نسلی امتیاز کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں جس کی وجہ یوجینکس اور افریقی امریکیوں کے ساتھ ان کا کام ہے جس کے دوران انھوں نے جنوبی امریکہ میں غریب سیاہ فام علاقوں میں اسقاط حمل کو فروغ دیا۔

ساتھ ہی ساتھ انھوں نے امریکہ میں خاندانی منصوبہ بندی کی بنیاد رکھی اور ان کی ایجاد کردہ گولی دنیا بھر میں برتھ کنٹرول کا سب سے عام استعمال ہونے والا طریقہ ہے۔

اب تک یہ گولی 150 ملین سے زیادہ عورتیں استعمال کر چکی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ