طالبان سے متعلق ’بیان کو توڑ مروڑ‘ کر میرے خاندان کو خطرے میں ڈالا گیا: شہزادہ ہیری

ہیری

،تصویر کا ذریعہWPA POOL

برطانیہ کے شہزادے ہیری نے اس دعوے کو ایک ’خطرناک جھوٹ‘ قرار دیا ہے کہ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں افغانستان میں فرائض کی ادائیگی کے دوران 25 طالبان جنگجوؤں کے مارنے کے واقعے کو فخریہ انداز میں پیش کیا۔

شہزادہ ہیری پر ان کی کتاب ’سپیئر‘ میں ان ہلاکتوں کا ذکر کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ برطانوی فوجی اہلکاروں کے علاوہ طالبان بھی ہلاک ہونے والے افراد کو ان کی طرف سے ’شطرنج کے مہرے‘ کہنے کی مذمت کر رہے ہیں۔

لیکن شہزادہ ہیری نے یو ایس ٹی وی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پریس نے ان کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے خاندان کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

انھوں نے اپنے الفاظ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوجیوں کی خودکشی کے واقعات کو کم کرنا چاہتے تھے۔

اداروں نے جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا: شہزادہ ہیری

سپیئر منگل کو شائع ہوئی اور یہ برطانیہ میں سب سے تیزی سے بِکنے والی غیر افسانوی کتاب بن گئی ہے۔

کتاب کی باقاعدہ ریلیز سے پہلے ہی اخبارات میں اس کے کئی حصے لیک ہونے کے باوجود اس کی قریباً چار لاکھ جلدیں خریدی گئیں۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد اپنے پہلے مفصل انٹرویو میں ’دی لیٹ نائٹ شو‘ کے سٹیفن کولبرٹ سے بات کرتے ہوئے شہزادہ ہیری نے بتایا کہ ان کی کتاب کو کمزور کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ خراب تعلقات کا ذکر کیا اور برطانوی میڈیا کو ’متعصب‘ قرار دیا۔

ہیری نے کہا کہ کتاب لکھنا ’جذبات کے اظہار‘ کا تجربہ تھا اور ’میری زندگی میں اب تک کا سب سے کمزور ترین وقت ‘جبکہ اس نے  انھیں بہت مضبوط بھی محسوس کروایا۔

ہیری

،تصویر کا ذریعہCBS

لیکن انھوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ چند دن تکلیف دہ اور چیلنجنگ رہے ہیں، ان لیکس کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر پایا۔‘

میڈیا کوریج کی مذمت کرتے ہوئے ہیری نے دعویٰ کیا کہ اداروں نے جان بوجھ کر ان کے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا۔

انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے جو سب سے خطرناک جھوٹ بولا ہے وہ یہ ہے کہ ’میں نے افغانستان میں جن لوگوں کو مارا ان کی تعداد کو فخریہ بیان کیا۔‘

’اگر میں کسی کو اس طرح کی چیز پر فخر کرتا ہوا سنوں گا تو مجھے بھی غصہ آئے گا، لیکن یہ ایک جھوٹ ہے۔‘

شہزادہ ہیری نے کہا ’یہ واقعی پریشان کن ہے، میرے الفاظ خطرناک نہیں ہیں لیکن میرے الفاظ کو دیا گیا گھماؤ میرے خاندان کے لیے بہت خطرناک ہے۔ یہ سب انھوں نے خود چنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ افغانستان میں اپنے تجربے کے بارے میں ایمانداری سے بات کرنا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ سابق فوجی بھی ’کسی شرم کے بغیر‘ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔

انھوں نے مزید کہا ’یہ تفصیل بتا کر میری کوشش تھی کہ فوجیوں کی خودکشیوں کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔‘

ہیری نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بکنگھم پیلس نے برطانوی پریس کی مدد سے ان کی یادداشتوں میں بیان کردہ کہانیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن میزبان کولبرٹ نے پوچھا کہ کیا محل کی طرف سے کتاب کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تو تفصیل میں جائے کے بغیر ان کا جواب تھا ’یقینا، اور بنیادی طور پر برطانوی پریس کی طرف سے‘۔

اپنی کتاب سپیئر میں شہزادہ ہیری نے لکھا کہ سنہ 2012 اور 2013 کے دوران افغانستان میں ایک ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کی حیثیت سے انھوں نے چھ مشنز میں حصہ لیا۔

انھوں نے لکھا ’یہ میرے لیے قابلِ فخر اعداد و شمار نہیں لیکن میں ان پر شرمندہ بھی نہیں ہوں۔‘

’جب میں نے خود کو لڑائی کی شدت اور الجھن میں گھرا پایا تو میں نے ان 25 افراد کے بارے میں نہیں سوچا، وہ بس شطرنج کے مہرے تھے جو بساط سے ہٹا دیے گئے، برے لوگوں کو اچھے لوگوں کو مارنے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔‘

ہیری

،تصویر کا ذریعہtwitter

طالبان کی ہلاکتوں کے ذکر پر برطانونی فوجیوں، افغان طالبان کا ردعمل

ہیری کے ان دعوؤں کے بارے میں برطانوی فوج کے سابق کمانڈر ریچرڈ کیمپ نے بی بی سی سے کہا کہ ان کا یہ انکشافات کرنا ایک غلط فیصلہ ہے۔

انھوں نے کہا ایسا کر کے ہیری نے اپنی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالا ہے۔ ’ایسے دعوؤں کے بعد رد عمل میں ان سے بدلہ لینے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔‘

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی شہزادے ہیری کے اعتراف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ’بے گناہ لوگوں کے قتل اور ان کے قتل سے لطف اندوز ہونے کا اعتراف مغرب کے  انسانی حقوق کے بارے میں کیے جانے والے دعوؤں کے متضاد ہے ۔‘

ہیری

،تصویر کا ذریعہtwitter

افغان حکومت کے ترجمان بلال کریمی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ہیری کی جانب سے برطانوی جرائم کا اعتراف انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے ایک حقیقی چیلنج ہے۔

’ہیری جیسے حملہ آوروں نے جن انسانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا، کیا وہ ان انسانوں سے مختلف ہیں؟ انسانی حقوق کے محافظ خود ان  خلاف ورزیوں کو لے کر الجھن اور بے چینی کا شکار ہیں۔‘

افغان طالبان کے ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ امارت اسلامی اردو کی جانب سے شہزداہ ہیری کی تصویر ٹویٹ کی گئی جس کے ساتھ لکھا تھا ’یہ شہزادہ (بھگوڑا) ہیری ہے جو افغانوں کوشکست دینے ہلمند کے ضلع سنگین آیا تھا لیکن خود شکست کھا کر بھاگ گیا۔

’تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ایک عام افغان لڑکے اور گدھے سے کتنا خوف زدہ ہے۔ یہ وہ سنگین تھا جس کا نام برٹش فوج نے جہنم رکھا اور جہنم جلاتا ہے۔ تم کسی کو جہنم میں مار نہیں سکتے ہو۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ