’کیوبا کی ملکہ‘: 16 برس تک امریکہ کی انتہائی حساس معلومات کیوبا پہنچانے والی جاسوس خاتون کی ناقابل یقین کہانی
’کیوبا کی ملکہ‘: 16 برس تک امریکہ کی انتہائی حساس معلومات کیوبا پہنچانے والی جاسوس خاتون کی ناقابل یقین کہانی
- مصنف, اینجل برموڈیز
- عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
اینا کو ستمبر سنہ 2002 میں گرفتار ہوئیں تھیں اور انھیں گذشتہ ہفتے رہا کیا گیا ہے
کیوبا کی جاسوس اینا مونٹیس کو امریکی انٹیلیجنس برادری ’دی کوئین آف کیوبا‘ یعنی کیوبا کہ ملکہ جیسے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور عملی طور پر ہوانا میں خفیہ اداروں کی طرف سے بھی انھیں یہی نام دیا جاتا تھا۔
مونٹیس امریکی دفاعی انٹیلیجنس ایجنسی (ڈی آئی اے) میں کیوبا کے متعلق سیاسی اور فوجی مسائل کے لیے وقف مرکزی تجزیہ کار بن گئیں، جہاں انھوں نے سنہ 1985 سے سنہ 2001 کے درمیان ایک کامیاب کیریئر بنایا۔
اس عرصے میں مونٹیس کو کئی بار ترقی ملی۔ ساتھ ہی ساتھ 10 خصوصی ایوارڈز بھی دیے گئے جن میں ’نیشنل انٹیلیجنس سرٹیفکیٹ آف ڈسٹنکشن‘ بھی شامل ہے۔ یہ ایوارڈ اس شعبے کا تیسرا سب سے بڑا اعزاز ہے اور اسے سنہ 1997 میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے پیش کیا تھا۔
بہرحال انھیں مونٹیس کی انمول خدمات کے لیے واقعی شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ انھوں نے ڈی آئی اے کی ملازمت میں برسوں جاسوس کے طور پر کام کیا لیکن اس دوران وہ فیدل کاسترو کے کیوبا کو انتہائی خفیہ معلومات تک رسائی بھی فراہم کرتی رہیں۔
امریکہ کی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی کے ایجنٹ پیٹر لاپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس دن وہ ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی میں پہلی بار داخل ہوئیں اس سے پہلے ہی مونٹیس کیوبا کی انٹیلیجنس سروس کے لیے کل وقتی طور پر کام کرنے والی ایجنٹ بن چکی تھیں۔ ہر روز جب وہ کام پر جاتیں تو ان کا مقصد تین اہم ترین چیزوں کو یاد رکھنا ہوتا جو ان کے خیال میں انھیں کرنے کی ضرورت تھی کہ کیوبا کو خود کو امریکہ سے بچانے کے لیے کیا جاننے کی ضرورت ہے۔‘
واضح رہے کہ پیٹر لاپ سنہ 2001 میں مونٹیس کے خلاف تحقیقات کے انچارج دو ایف بی آئی ایجنٹوں میں سے ایک تھے اور ان کی تحقیقات کے نتیجے میں مونٹیس کو جاسوسی کے الزام میں پکڑا گیا جس کے بعد انھیں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مسٹر لاپ نے مزید بتایا کہ ’وہ ان اہم جاسوسوں میں سے ایک تھیں جنھیں امریکہ کی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے گرفتار کیا ہے اور یہ اس ملک کی جدید تاریخ میں سب سے زیادہ نقصان دہ (جاسوس) تھیں۔‘
مسٹر لاپ سات مہینوں تک مونٹیس سے ہونے والے انٹرویوز کے انچارج بھی تھے۔ ان کی گرفتاری کے بعد وہ ہوانا میں ان کے کام کے دائرہ کار کے بارے میں گہرائی سے سمجھ حاصل کرنے کے لیے ان سے انٹرویو کرتے رہے تھے۔
اس تجربے کے نتیجے میں اور اس کے بعد کی تحقیق کی بنیاد پر مسٹر لاپ نے ’دی کوئین آف کیوبا‘ نامی ایک کتاب تصنیف کی ہے جو کہ رواں سال اکتوبر میں منظر عام پر آنے والی ہے۔
مونٹیس کو رواں سال 20 سال کی حراست کے بعد سات جنوری (دو روز قبل) کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے باوجود 65 سالہ خاتون پانچ سال تک زیر نگرانی رہیں گی اور ان کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھی جائے گی۔ انھیں حکومت کے لیے کام کرنے یا بغیر اجازت غیر ملکی ایجنٹوں سے رابطہ کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
لیکن اینا مونٹیس کون ہیں اور انھوں نے اتنے برسوں تک امریکہ کی حکومت کی کیسے جاسوسی کی؟
سنہ 1997 میں اینا مونٹیس کو اس وقت کے ایف بی آئی سربراہ جارج ٹینٹ سے تیسرا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا
مثالی طالب علم سے جاسوس بننے تک
پورٹو ریکن والدین کی بیٹی اینا سنہ 1957 میں جرمنی میں قائم ایک امریکی فوجی اڈے پر پیدا ہوئی، جہاں ان کے والد ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ خاندان کنساس، آئیوا اور آخر کار میری لینڈ منتقل ہو گیا، جہاں سے اینا نے ’اے‘ گریڈ کے ساتھ ہائی سکول مکمل کیا۔
یونیورسٹی آف ورجینیا میں انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری حاصل کرنے کے دوران انھوں نے سنہ 1977 میں سپین کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات ارجنٹائن کے بائیں بازو کے ایک طالب علم سے ہوئی۔
یہ باتیں سنہ 2013 میں واشنگٹن پوسٹ کو ان کی ایک سابق کلاس میٹ اینا کولون نے بتائيں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ارجنٹائن کے اس طالب علم نے ممکنہ طور پر امریکی حکومت کی طرف سے آمرانہ حکومتوں کو دی جانے والی حمایت کے متعلق ان کی ’آنکھیں کھول دیں۔‘
کولون بتاتی ہیں کہ ’اس کے بعد ہر احتجاج کے بعد اینا مجھے ان ’مظالم‘ کی وضاحت کرتی تھی جو امریکی حکومت نے دوسرے ممالک کے خلاف کیے تھے۔‘
بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مونٹیس پورٹو ریکو منتقل ہو گئیں جہاں وہ نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہیں لیکن بالآخر جلد ہی انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں محکمہ انصاف میں ملازمت کی پیشکش قبول کر لی۔
وہاں کام کرتے ہوئے انھوں نے جانز ہاپکنز یونیورسٹی سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں کیوبا کے جاسوسی کے نیٹ ورک نے ان کی صلاحیتوں کو دریافت کیا اور انھیں بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا۔
مسٹر لاپ نے بتایا کہ ’ان کی صلاحیتوں کو ان کی ایک ہم جماعت مارٹا ریٹا ویلیزکیز نے دریافت کیا اور انھیں جانچا پرکھا۔ وہ خود بھی ایک پورٹو ریکن تھیں۔ اینا نکاراگوا اور ایل سلواڈور میں امریکی پالیسی پر اپنے غصے اور عدم اطمینان کا کھل کر اظہار کرتی تھیں۔ مارٹا ریٹا نے ان سے دوستی کرلی اور اس طرح انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ محکمہ انصاف میں کام کرتی ہیں اور یہ کہ انھیں خفیہ معلومات تک رسائی حاصل تھی۔ چنانچہ، چند ماہ بعد مارٹا نے اینا کو ایک سفارتکار سے ملوایا جو اقوام متحدہ میں کیوبا کے مشن میں کام کرتا تھا۔‘
اور اس طرح مونٹیس کو کیوبا کے جاسوس کے طور پر بھرتی کیا گیا۔
انھوں نے جان ہاکنس جیسی اہم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور وہ نیٹو جنرل سیکریٹری آندرے فوگ راسموسین جیسے لوگوں سے ملتی رہتی تھیں
پیسہ اور نظریہ
مونٹیس نے کیوبا کے لیے کام کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی حالانکہ انھوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انھوں نے اس سے پہلے کبھی جاسوسی کرنے کے امکان کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔
اور اگرچہ یہ پرخطر، کل وقتی کام تھا لیکن اس کے لیے انھیں معاوضہ نہیں ملتا تھا۔
مسٹر لاپ نے کہا کہ ’اس کام کے لیے انھیں کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی تھی جس سے لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ نظریاتی وجوہات کی بنا پر جاسوسی کر رہی تھیں۔ درحقیقت، انھوں نے ہمیں بتایا کہ اگر کیوبا والے انھیں جاسوسی کے لیے پیسے دیتے تو وہ ناراض ہو جاتیں۔‘
درحقیقت، ایک بار پکڑے جانے اور حراست میں لیے جانے کے بعد مونٹیس نے یہ یقین دلایا کہ انھوں نے انصاف کے تقاضے کے تحت ایسا کیا تاکہ کیوبا کے باشندے خود کو امریکی پالیسیوں سے بچا سکیں۔
سنہ 2002 میں جب مونٹیس کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ کیوبا کے متعلق ہماری حکومت کی پالیسی ظالمانہ، غیر منصفانہ اور بہت زیادہ غیر دوستانہ ہے۔ اور میں نے اخلاقی طور پر خود کو اس کا پابند پایا کہ میں اس جزیرے کی مدد کروں تاکہ وہ ہمارے اقدار اور ہمارے سیاسی نظام کو مسلط کرنے کی ہماری کوششوں سے اپنا دفاع کر سکے۔‘
واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے سی آئی اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیوبا کے ایجنٹوں نے ان کی خودپرستی کو ہوا دے کر انھیں بہکایا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ ہوانا کو فوری طور پر اس کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔
سی آئی اے نے کہا کہ ’ان کے ہینڈلرز نے ان کی غیر رضاکارانہ مدد سے، ان کی کمزوریوں کا اندازہ لگایا اور ان کی نفسیاتی ضروریات، نظریے اور شخصیت کا فائدہ اٹھا کر انھیں بھرتی کیا اور ہوانا کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔‘
دوسروں کے برعکس لاپ کا یہ خیال نہیں کہ مونٹیس نے بائیں بازو کے نظریے اور اپنے ملک کی شدید تردید کی وجہ سے کام کیا۔
مسٹر لاپ نے کہا: ’میرے خیال میں وہ اس وقت ایل سلواڈور اور نکاراگوا میں جو کچھ امریکی حکومت کر رہی تھی، اور کیوبا کے بارے میں اس کی جو پالیسی تھی، اس سے بہت ناراض تھی اور بہت زیادہ امریکہ مخالف نظریات کی حامل تھی۔ میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ آئیڈیالوجی سے مغلوب ایک جاسوس تھی۔ وہ آئیڈیلسٹ تھی، لیکن وہ کیوبا نواز سے زیادہ امریکہ مخالف تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’وہ ریگن (اس وقت کے امریکی صدر) اور ہم جو کچھ کر رہے تھے اس سے بہت زیادہ ناراض تھیں۔ اور وہ واقعی ہمارے ملک سے نفرت کرتی تھیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ وہ آج بھی ہمارے ملک سے نفرت کرتی ہیں۔ تکنیکی طور پر وہ ایک امریکی ہیں، لیکن وہ خود کو پوری دنیا کی شہری سمجھتی ہیں۔ وہ کیوبا کے نظام، سوشلزم اور مارکسزم میں یقین رکھنے والے سے کہیں زیادہ حد تک امریکہ مخالف ہیں۔‘
واشنگٹن اور ہوانا میں کامیابیاں
سنہ 1985 میں مونٹیس نے خفیہ طور پر کیوبا کا اپنا پہلا سفر کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس طرح کے کئی دورے کیے۔ بعد میں وہ دوسروں کو بھی لے جانے لگیں، جن میں سے کچھ کے اخراجات تو امریکی حکومت خود ادا کرتی تھی۔
اس دوران وہ دن میں جزیرے پر (کیوبا میں) امریکی انٹرسٹس سیکشن کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتیں کرتیں اور رات کے وقت کیوبا کے باسز سے ملاقاتیں ہوتیں۔
بظاہر یہ کیوبا والے ہی تھے جنھوں نے انھیں ڈی آئی اے میں کام کرنے کے لیے درخواست دینے کی ترغیب دی تاکہ ان کے بڑھتے ہوئے کیریئر سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔
درحقیقت، گرفتاری سے پہلے وہ نیشنل انٹیلیجنس کونسل میں ایک عہدے پر ترقی پانے والی تھی۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو مشورہ دیتا ہے۔
لاپ بتاتے ہیں کہ مونٹیس ایک بہت اچھی تجزیہ کار تھیں۔ اس کی وجہ سے عملی طور پر واشنگٹن میں انھیں اپنے کیریئر میں فائدہ پہنچ رہا تھا اور ہوانا کو ان کا تعاون مل رہا تھا۔
مسٹر لاپ کہتے ہیں: ’اگر وہ اپنی میز پر گھنٹوں یوں ہی بیٹھ کر گزرنے دیتی تو وہ ’کوئین آف کیوبا‘ نہ بن پاتی۔ وہ ایک بہت اچھی تجزیہ کار تھی اور جتنا بہتر طور پر وہ اپنا کام کرتیں اتنے ہی زیادہ دروازے ان کے لیے کھلتے اور انھیں اتنی ہی زیادہ چیزوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس لیے اپنی دن کی نوکری میں وہ جتنا اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرتیں رات کی نوکری کے لیے انھیں اتنی ہی زیادہ معلومات حاصل کر سکتی تھیں۔‘
اینا نے امریکہ کے خلاف جاسوسی اس لیے کی کہ وہ امریکی پالیسی کے سخت خلاف تھیں
کلاسک جاسوسی
راز افشا ہونے سے بچنے کے لیے مونٹیس نے جاسوسی کے سب سے محفوظ آلات میں سے ایک استعمال کیا یعنی انھوں نے اپنی یادداشت پر بھروسہ کیا۔
گھنٹوں گھنٹوں وہ اپنی میز پر بیٹھ کر ان خفیہ معلومات کو پڑھتیں اور حفظ کر لیتیں جسے وہ ہوانا کی دلچسپی کا باعث سمجھتیں۔ بعد میں اسے وہ رات کے وقت گھر میں لیپ ٹاپ پر نقل کرتیں اور آخر کار انھیں فلاپی ڈسکوں پر منتقل کرتیں جس کے بعد انھں کیوبا پہنچا دیتیں۔ اس طرح انھیں کبھی بھی دفتر سے کوئی کاغذات لے جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔
ہر منگل، جمعرات اور سنیچر کو مونٹیس نام نہاد ’نمبر سٹیشنوں‘ میں سے ایک کو سننے کے لیے شارٹ ویو ریڈیو کا استعمال کرتی تھیں۔ یہ ایک ایسا ریڈیو سٹیشن تھا جس میں رات 9 اور 10 بجے کے درمیان ایک آواز اس قسم کی باتیں کرتی تھی: ’اٹینشن، اٹینشن، تھری ون فور فائیو۔۔۔‘
ان نمبروں کو ایک کوڈ شیٹ کے ذریعے سمجھنا ہوتا تھا جو کیوبا کے لوگوں نے انھیں دیا تھا اور یہ ایک ایسے کاغذ پر بنایا جاتا تھا جو پانی میں آسانی سے تحلیل ہو جائے تاکہ ہنگامی صورت حال میں اس کاغذ کو ٹوائلٹ میں پھینک کر شواہد غائب کر دیے جائیں۔
وہ اس طرح سے اپنی ہدایات حاصل کرتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم اکٹھا کی گئی معلومات فراہم کرتے وقت وہ دن کی روشنی میں اپنے کیوبن رابطے کے ساتھ لنچ پر جاتیں۔
لاپ کہتے ہیں کہ ’وہ صرف ان کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر جاتیں اور انھیں فلاپی ڈسک سونپ دیتی۔ یہ کافی آسان تھا۔ کوئی خفیہ چھپانے کی جگہ نہیں، کوئی برش پاس نہیں [اشیا کے تبادلے کے لیے مختصر جسمانی رابطہ]، کوئی جدید ترین جاسوسی تکنیک نہیں، یہ صرف ایک ہسپانوی مرد اور عورت کی ملاقات تھی۔ وہ اتوار کی دوپہر ایک چینی ریستوران میں دیر تک کھانا کھایا کرتے تھے۔‘
فوری معاملات کے لیے مونٹیس عوامی فون بوتھ سے اپنے کیوبا کے رابطوں کے پیجر یا پیجر نمبروں پر کال کرتیں۔ ان کے پاس انھیں خبردار کرنے کے لیے ایک کوڈ تھا کہ وہ خطرے میں ہے اور دوسرا کوڈ انھیں یہ بتانے کے لیے تھا کہ انھیں ان سے ملنے کی ضرورت ہے۔
مونٹیس کیوبا میں دن میں امریکی انٹرسٹس سیکشن کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتیں کرتیں اور رات کے وقت کیوبا کے باسز سے ملاقاتیں ہوتیں
انٹیلیجنس کا سودا
لاپ کے خیال میں مونٹیس کی جاسوسی کی سرگرمیوں نے امریکی انٹیلیجنس کو بہت نقصان پہنچایا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہر ایک فرد جسے وہ جانتی تھیں اور جو امریکی حکومت کے لیے کھلے طور پر یا چھپ کر کام کرتے تھے انھیں ہوانا پہلے سے ہی جانتا تھا اور کیوبا کے لوگ اپنے جزیرے پر کام کرنے والے ہر ایک امریکی حکومت کے ایجنٹ کو جانتے تھے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’انھوں نے بڑی مقدار میں خفیہ معلومات سے سمجھوتہ کیا جو ہمیں ان کے کمپیوٹر سے ملیں۔ انھوں نے چار امریکی انٹیلیجنس ایجنٹوں کی بھی نشاندہی کی جو کیوبا میں خفیہ طور پر دوسری ایجنسیوں کے حصے کے طور پر کام کرنے گئے تھے اور دوسرے نام استعمال کر رہے تھے۔‘
تاہم مسٹر لاپ کا خیال ہے کہ شاید ان کی وجہ سے سب سے بڑا نقصان کیوبا کو ایک انتہائی حساس سیٹلائٹ پروگرام کے بارے میں معلومات کی منتقلی تھا جس کا تعلق نیشنل ریکگنیشن آفس سے تھا اور یہ اتنا خفیہ تھا کہ اسے عوام میں جانے سے روکنے کے لیے عدالت میں مونٹیس کے خلاف اسے فرد جرم میں بھی شامل نہیں کیا جا سکا۔
سابق ایف بی آئی ایجنٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ ممکنہ طور پر مونٹیس کا ایل سلواڈور میں گرین بیرٹ (امریکی مسلح افواج میں سپیشل فورس ایجنٹ) کے قتل میں کوئی کردار ہو۔
انھوں نے کہا: ’ہم اسے ثابت نہیں کر سکتے، لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ اس نے شاید کیوبا کے باشندوں کو اس بارے میں مطلع کیا کہ وہ کون تھا، وہ کہاں تھا، وہ کیا کر رہا تھا اور اس کا مشن کیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ اس نے ہمیں اس مفروضے کے بارے میں جو بتایا اس سے یہ لگتا ہے اسے اس بات کی واقعی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ آیا وہ اس کے نتیجے میں مر گیا۔‘
مسٹر لاپ نے مزید کہا: ’میں یہ ثابت نہیں کر سکتا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ خون میں رنگے ہیں۔‘
احکامات کو جاننے کے لیے وہ ایک کوڈ شیٹ کا استعمال کرتی تھیں جسے کیوبا والوں نے انھیں دیا تھا۔
ایک اور متنازع واقعہ جس میں مونٹیس نے حصہ لیا وہ اس وقت پیش آیا جب فروری سنہ 1996 میں کیوبا کے جنگی طیاروں نے ہرمانوس ال ریسکیٹ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے دو طیارے مار گرائے۔
یہ طیارے کیوبا کے جزیرے سے رافٹس پر فرار ہونے والے کیوبا کے باشندوں کی مدد کے لیے وقف تھے اور اس کے نتیجے میں چار افراد اپنی جان سے گئے۔
اس وقت مونٹیس اس بحران کے سلسلے میں امریکی حکومت کی رسپانس ٹیم میں شریک تھیں اور اسی کے ساتھ وہ کیوبا کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے میں بھی بہت سرگرم تھیں۔
مسٹر لاپ کا کہنا ہے کہ ’اگلی رات، پینٹاگون سے واپس آنے کے بعد انھوں نے کیوبا کے لوگوں سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ ہم کس طرح سے کام کر رہے ہیں۔ اور وہ ان سے ہر رات ملتی رہی، جب تک انھوں نے چار امریکی شہریوں کو ہلاک نہیں کر دیا۔ یہاں، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں انھوں نے ٹریگر دبائے اور چار امریکی مارے گئے، لیکن وہ ان لوگوں کے ساتھ ضروری بیٹھی تھیں جنھوں نے ایسا کیا۔ یہ لوگ حکومت اور انٹیلیجنس سروسز کے تھے جنھوں نے اسے انجام دینے میں مدد کی۔ اور (مونٹیس نے) انھیں یہ بتا کر ان کے ساتھ تعاون کیا کہ امریکہ کا اس پر کیسا ردعمل ہوگا۔ یہ خوفناک تھا۔‘
حیرت انگیز طور پر گرفتاری سے پہلے مونٹیس کی ترقی ایک ایسے عہدے پر ہونے والی تھی جہاں سے وہ امریکہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتی تھیں کیونکہ انھیں افغانستان میں جنگ کے لیے امریکی فوجی منصوبوں تک رسائی حاصل ہونے والی تھی۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے بعد کیوبا کی حکومت کو بہت قیمتی معلومات فراہم ہوتی جو وہ طالبان یا افغان حکومت کو فراہم کر سکتی تھی۔
ایسا ہونے سے جس چیز نے روکا وہ یہ تھا کہ اس وقت مونٹیس کے خلاف تحقیقات 11 ماہ سے جاری تھیں اور 11 ستمبر کے حملوں کے بعد بڑے خطرات سے بچنے کے لیے ان کی گرفتاری میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ایک بار حراست میں لیے جانے کے بعد 21 ستمبر 2001 کو مونٹیس نے امریکی حکام کے ساتھ ایک معاہدے پر بات چیت کی جس میں وہ تفتیش کاروں کے ساتھ اس شرط پر مکمل تعاون کرنے کے تیار تھیں کہ انھیں 25 سال سے زیادہ قید کی سزا نہیں دی جائے گی۔
اس مکمل تعاون کے نتیجے میں پوچھ گچھ کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں مونٹیس سے ایف بی آئی کو مطلوبہ تمام تفصیلات حاصل کرنے کے لیے ساتھ ماہ تک ہفتے میں دو یا تین بار مونٹیس سے پوچھ گچھ کرتے رہے۔
لاپ کا خیال ہے کہ اس معاہدے نے حقیقت میں ایک کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ہوانا نے بظاہر ان کی رہائی میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔
انھوں نے کہا: ’میرا خیال ہے کہ وہ اس کے جرم کا اعتراف کرنے اور پھر مکمل جرح کے لیے امریکی حکومت کے سامنے بیٹھنے کے بارے میں زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ مجھے یہ احساس ہے کہ جب انھوں نے بات کی تو انھوں نے کیوبا کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ مجھے حیرت نہیں ہوگی اگر کیوبا والے اس پر تھوڑا غصہ ہوں۔‘
اگر ایسا ہے تو اینا مونٹیس کو نہ ہی کیوبا والے اور نہ ہی امریکہ والے ’دی کوئین آف کیوبا‘ تصور کریں گے۔
Comments are closed.