ایڈاہو میں چار طلبہ کا قتل: مشتبہ قاتل کرمنالوجی کا طالب علم، ڈی این کی مدد سے گرفتار

متقول

،تصویر کا ذریعہsocial media

،تصویر کا کیپشن

قتل ہونے والوں میں 20 سالہ ایتھان چیپن، 21 سالہ کیلی گونکلیوز، 20 سالہ ژاناکرنوڈل اور 21 سالہ میڈیسن موگن شامل ہیں۔

امریکہ کی شمال مشرقی ریاست ایڈاہو میں چار یونیورسٹی طلبا کے قتل کے واقعے میں چھ ہفتوں کے بعد ہونے والی پیش رفت میں بالاخر ایک مشتبہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔

28 سالہ برائن کوہبرگر نامی مشتبہ شخص کو گذشتہ ہفتے پنسلوانیا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر فرسٹ ڈگری قتل اور سنگین ڈکیتی کے چار الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

حکام کی جانب سے عدالت کو فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق ملزم کا ڈی این اے جائے وقوعہ پر پایا گیا ہے۔

کوہبرگر نے جمعرات کو ایڈاہو میں عدالت میں پیشی کے دوران الزامات سے انکار کیا ہے۔

 دستاویزات کیا کہتی ہیں؟

ملزم کی عدالت میں پیشی سے کچھ دیر پہلے ہی ان دستاویزات کو سیل کیا گیا تھا۔

ان دستاویزات میں کرمنالوجی کے مضمون میں گریجوایشن کرنے والے طالب علم کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ ایڈاہو کالج ٹاؤن میں ہونے والے قتل کی واردات کی تفصیلات شامل تھیں۔

ان کی گرفتاری کی ممکنہ وجہ اس اپارٹمنٹ میں پائے گئے چاقو پر موجود ڈی این اے کے نمونے کی کوہبرگر کے ڈی این اے سے مماثلت ہے جہاں یونیورسٹی آف ایڈاہو کے طلبہ زانا کرنوڈل، ایتھن چیپین، کیلی گونکالویس اور میڈیسن موگن گذشتہ برس نومبر میں مارے گئے تھے۔

دستاویزات کے مطابق جائے وقوعہ پر پولیس موگن کی لاش کے ساتھ والے بیڈ پر پائے جانے والے بھورے چمڑے کے کیس سے مردانہ ڈی این اے کا نمونہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

بعد میں حکام نے اس نمونے کا پینسلوینیا میں کوہبرگر فیملی ہوم میں کچرے سے لیے گئے ڈی این اے پروفائل سے موازنہ کیا۔

کوہبرگر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

مشتبہ ملزم

 گواہوں نے کیا دیکھا؟ 

قتل کے وقت دو دیگر روم میٹ گھر میں موجود تھے لیکن حملے میں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

پولیس کے دستاویزات میں جن میں گرفتاری کے شواہد اور حالات کا خلاصہ کیا گیا ہے، یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ان دو لوگوں میں سے ایک نے قتل کی صبح گھر میں سیاہ لباس میں ملبوس ایک نقاب پوش شخص کو دیکھا تھا۔

روم میٹ میں سے ایک، جس کی شناخت ڈی ایم کے نام سے کی گئی ہے، نے بتایا کہ وہ مقامی وقت کے مطابق صبح 4:00 بجے بیدار ہوئیں۔ انھوں نے سوچا کہ گونکالوز اوپر والے کمرے میں اپنے کتے کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

جب انھوں نے دروازہ کھولا تو لگا کہ انھوں نے کرنوڈل کے کمرے سے رونے کی آواز سنی اور ایک مردانہ آواز کو یہ کہتے ہوئے سنا، ’ٹھیک ہے، میں تمہاری مدد کروں گا۔‘

تیسری بار روم میٹ نے دروازہ کھولا تو ان کے بقول انھوں نے سیاہ لباس میں ملبوس ایک شخص کو دیکھا۔

ایک سفید سیڈان، ایک ہنڈائی ایلانٹرا کے بارے میں بھی نئی معلومات حاصل ہوئیں جو جائے وقوعہ کے قریب دیکھی گئی ہے۔ اسے تفتیش میں ایک پیش رفت قرارد یا جا رہا ہے کیونکہ قتل کے واقعے کے چھ ہفتے بعد کوئی مشتبہ شخص یا آلۂ قتل نہیں ملا تھا۔

حکام واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں ان تفصیلات کی حامل کار تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں کوہبرگر زیر تعلیم تھے۔ گاڑی ان کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔

دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ مشتبہ شخص کا موبائل فون ماسکو نامی قصبے کے ٹیلی فون ٹاورز میں ان اوقات میں رجسٹرڈ نہیں تھا جب جرم ہوا تھا، لیکن یہ شہر کے جنوب میں ایک ہائی وے پر صبح 4:48 بجے کے قریب پایا گیا جو اس کالج کیمپس کا راستہ ہے جہاں مشتبہ شخص گریجوایشن کا طالب علم تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ آلہِ قتل جو ’فکسڈ بلیڈ چاقو‘ بتا گیا ہے، ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔

تفتیش کاروں نے قتل کے محرکات نہیں بتائے اور نہ یہ کہ مشتبہ ملزم متاثرہ افراد کو جانتا تھا یا نہیں۔

کوہبرگر کو 30 دسمبر کو البرائٹس وِل، پنسلوانیا میں اپنے والدین کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

قتل کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے حوالگی پر رضامندی کے بعد انھیں بدھ کے روز ایڈاہو منتقل کر دیا گیا۔  

متقول

،تصویر کا ذریعہMAD GREEK

مشتبہ ملزم نے کرمنالوجی کی تعلیم حاصل کی

کیس کی بہت سی تفصیلات ابھی تک نامعلوم ہونے کے باعث جو بات سب سے زیادہ توجہ حاصل کر رہی ہے وہ کوہبرگر کا کرمنالوجی سٹڈیز میں گریجوایشن کرنا ہے۔  حکام نے جمعے کو تصدیق کی کہ مشتبہ شخص واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں فوجداری انصاف اور جرائم میں پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا۔

اس سال کے شروع میں پنسلوانیا کے کیتھولک سکول ڈی سیلز یونیورسٹی سے انڈرگریجویٹ سائیکالوجی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ حال ہی میں ایڈاہو چلا گیا تھا۔

امریکہ میں سماجی معاملات پر بحث کرنے والی ایک ویب سائٹ ریڈت کی ایک پوسٹ میں جسے ملزم کی گرفتاری کے بعد ہٹا دیا گیا تھا، ایک شخص نے اپنی شناخت برائن کوہبرگر کے نام سے کروائی اور شرکا سے ایک تحقیقی پروجیکٹ میں شرکت کے لیے کہا کہ وہ ’یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ جرم کرتے وقت جذبات اور نفسیاتی خصلتیں فیصلہ سازی پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں۔‘ 

پوسٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’خاص طور پریہ مطالعہ آپ کے حالیہ مجرمانہ فعل کے پیچھے کی کہانی کو سمجھنے کے لیے ہے، جس کا مقصد پورے تجربے میں آپ کے خیالات اور احساسات جاننا ہے‘۔

نہ ہی پولیس اور نہ ہی یونیورسٹی نے تصدیق کی ہے کہ پوسٹ مشتبہ شخص نے کی تھی۔

کوہبرگر نے 2012 میں بروڈ ہیڈس وِل، پنسلوانیا کے پلیزنٹ ویلی ہائی سکول سے گریجویشن کیا، اور بعد میں وہ وہاں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام پر واپس آئے۔ 2018  کی ایک مقامی نیوز رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم نے وہاں ایک فیکلٹی ممبر کو دمے کا دورہ پڑنے پر اس کی جان بچانے میں مدد کی۔

مشتبہ شخص کے ایک وکیل جیسن لابر نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ کوہبرگر کے والد دسمبر میں واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں سمسٹر ختم ہونے کے بعد ان کے ساتھ واپس پنسلوانیا جانے کے لیے ایڈاہو گئے تھے۔

انھوں نے این بی سی کو بتایا کہ کوہبرگر نے دورانِ سفر والد سے بات کی۔ ’سب کچھ عام تھا، اور انھوں نے اس میں کوئی غیر معمولی چیز نہیں دیکھی۔‘

ان کے سابق ہم جماعتوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ کوہبرگر اپنے گریجویٹ پروگرام کی ’کالی بھیڑ‘ تھے اور اس نے کچھ ساتھی طالب علموں کو بے چین کر دیا ہے۔

اتوار کو ایک بیان میں کوہبرگر کے اہل خانہ نے کہا کہ وہ ایڈاہو کے متاثرین کے خاندانوں کا دکھ محسوس کرسکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے بیٹے اور بھائی سے پیار کرتے ہیں اور ان کے خیال میں وہ بے قصور ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ