
کراچی میں گیس کی فراہمی کی صورتحال سے شہری بہت پریشان ہیں، پہلے مہنگا سلنڈرخریدیں پھر اس میں مہنگی گیس ڈلوائیں، دونوں کام نہیں کرسکتے تو ہوٹل سے مہنگا کھانا خریدیں، کراچی والے کریں تو کیا کریں۔
گیس کی شدید قلت نے عوام کا بھرکس نکال دیا، نیوکراچی، نارتھ کراچی اور شادمان ٹاؤن میں کئی ہفتوں سے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ گیس صبح 6 سے 9 نہ دوپہر 12 سے 2 اور نہ ہی شام 6 سے 9 کے دوران آرہی ہے۔
نیو کراچی، نارتھ کراچی اور شادمان ٹاون کے عوام شکوے، شکایتیں کرتے تھک گئے، مگر سوئی گیس دفتر کے ملازمین آئیں بائیں شائیں کرتے نہ تھکے، سلنڈر بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی، جبکہ تنخواہ اور دیہاڑی دار طبقے کی جیبیں خالی ہوگئیں۔
ایل بی جی کی دکانوں پر کھڑکی توڑ رش ہے، 200 روپے کلو گیس میں صرف دو وقت کا کھانا اور چائے ناشتہ بنتا ہے۔ نوجوان، بزرگ، مرد وخواتین سب کام دھندے چھوڑ کر دن بھر لائنوں میں لگے گیس سلنڈر بھروانے پر مجبور ہیں۔
اگر سلنڈر خریدنے اور گیس بھروانے کا خرچہ نہیں کرنا تو ہوٹلوں سے مہنگے اور غیر معیاری کھانے پر سمجھوتہ کرنا ہوگا، آنکھوں میں آنسو نہیں لیکن لہجے بتارہے ہیں کہ گیس کی قلت شہریوں کیلئے کڑا امتحان ہے۔
ہوٹل مالکان کہتے ہیں کہ کمرشل بلوں کی ادائیگی کے باوجود سلنڈر اور لکڑی کا خرچہ اٹھا رہے ہیں، اس لئے کھانا مہنگا فروخت کرنا مجبوری ہے، مطلب یہ بوجھ بھی عوام کی جیب پر ہی پڑ رہا ہے۔
سوئی سدرن گیس کمپنی حکام سے پوچھا کہ جہاں ایک منٹ بھی گیس نہیں وہاں بنیادی ضرورت کب فراہم کی جائے گی تو کوئی جواب نہ آیا۔
Comments are closed.