آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی خواتین: ’یہاں کوئی تاڑتا نہیں، آپ کے لباس پر بات یا آپ کو ہراساں نہیں کرتا‘
آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی خواتین: ’یہاں کوئی تاڑتا نہیں، آپ کے لباس پر بات یا آپ کو ہراساں نہیں کرتا‘
- مصنف, محمد صہیب
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سڈنی
ڈاکٹر کرن شہباز، ڈاکٹر عائشہ جہانگیر، عروج قاضی
ایک تو آپ خاتون ہیں اوپر سے پاکستانی بھی ہیں لیکن اپنے گھر سے نکلتے ہوئے آپ خوف محسوس نہیں کر رہیں۔
جیسے ہی آپ اپنے گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں تو کسی کی نظر آپ کا پیچھا نہیں کرتی، ایکسرے کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ کسی کو یہ تجسس نہیں کہ آپ کون ہیں، کیوں ہیں اور کہاں جہاں رہی ہیں۔
کسی کو یہ پرواہ نہیں کہ آپ نے کیا پہنا ہے، کتنا پہنا ہے۔ آپ کو کسی بھی جگہ پر اپنی موجودگی کی وجوہات کو ثابت نہیں کرنا پڑ رہا۔
تحفظ کا یہ احساس آپ کے لیے نیا ہے لیکن رفتہ رفتہ آپ کی سہمی ہوئی زِِخمی روح اس کی عادی ہو رہی ہے۔ نظام آپ کا مخالف نہیں بلکہ آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ سب خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے لیکن افسوس کہ یہ ملک اپنا نہیں۔
یہاں تکلیف کے موقع پر گلے لگانے کے لیے گھر والے موجود نہیں، اپنے شہر کے گول گپوں کی یاد ستائے تو قریب ترین انڈین ریستورانوں کے ذائقوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے اور یوں تو اجنبیت نے طویل عرصے سے اپنائیت کی جگہ لے لی ہے لیکن پھر بھی دل اپنوں کو غیروں میں تلاش کرنے کی کوشش نہیں چھوڑتا۔
یہ کہانی آسٹریلیا میں پڑھائی کی غرض سے جانے والی تین ایسی خواتین کی ہے جنھیں پاکستان سے آتے ہوئے مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کبھی کبھار یہ پدرشاہی سوچ ان کا پیچھا کرتے کرتے آسٹریلیا بھی پہنچ جاتی ہے۔
ان میں ڈاکٹر عائشہ جہانگیر اور ڈاکٹر کرن شہباز پی ایچ ڈی کی غرض سے آسٹریلیا آئی تھیں جبکہ عروج قاضی یہاں ماسٹرز کرنے آئی تھیں۔
آسٹریلیا کے ادارہ شماریات کے مطابق یہاں پچھلے پانچ برس میں پاکستانی طلبا کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہوا، جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔
ہم نے تعلیم کی غرض سے آسٹریلیا آنے والی ان تین خواتین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے ان کا پاکستان کے مقابلے میں آسٹریلیا میں رہنے کا تجربہ کیسے مختلف ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں عورت کے لیے بہت چھوٹی سی عمر میں حد قائم کر دی جاتی ہے کہ آپ اس لکیر سے آگے نہیں نکل سکتیں‘
اگر میاں نے، سسرال والوں نے اجازت دی تو پھر ہی۔۔۔‘
ڈاکٹر عائشہ جہانگیر کا تعلق یوں تو جنوبی وزیرستان سے ہے لیکن وہ لاہور میں پلی بڑھی ہیں۔ وہ سڈنی کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سینٹر فار میڈیا ٹرانزیشن میں بطور پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ فیلو کام کر رہی ہیں۔
ان سے ہماری ملاقات ان کی یونیورسٹی میں ہی ہوئی جہاں تقریباً چھ برس قبل وہ ذاتی طور پر انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے پی ایچ ڈی کرنے آئی تھیں۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں عورت کے لیے بہت چھوٹی سی عمر میں حد قائم کر دی جاتی ہے کہ آپ اس لکیر سے آگے نہیں نکل سکتیں۔‘
’ہاں اگر آپ کی شادی ہو جائے گی، اگر میاں نے اجازت دی، اگر سسرال والوں نے اجازت دی تو پھر ہی آپ آگے نکل سکتی ہیں۔‘
پی ایچ ڈی کی طالبعلم ڈاکٹر کرن شہباز بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کیونکہ ان کے لیے پڑھائی کے لیے بیرونِ ملک جانے سے پہلے شادی کی شرط ان کی والدہ کی جانب سے رکھی گئی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے لندن میں اپنا داخلہ ختم کروانا پڑا اور ایم فل کی تعلیم پاکستان میں کرنی پڑی کیونکہ نہ اس وقت کوئی موافق رشتہ تھا اور نہ مجھے وہ وقت ٹھیک لگ رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے لیے یہ شرط تھی کہ میں نے شادی کر کے جانا ہے، اگر میرے شوہر ہوتے تو ان کے ساتھ ایسا نہ ہوتا کیونکہ مردوں کے ساتھ یہ نہیں ہوتا۔‘
ماسٹرز کے لیے آنے والی عروج قاضی کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے اور ان کے والدین بھی انھیں آسٹریلیا ’اکیلے‘ بھیجنے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے۔
عروج کہتی ہیں کہ ’اس کا تعلق ہماری ثقافت سے ہے کہ زیادہ تر والدین ڈرتے ہیں اپنی بیٹیوں کو باہر بھیجنے سے۔ یہی سننے کو ملتا تھا کہ شادی کے بعد چلی جانا، شوہر کے ساتھ چلی جانا۔‘
تاہم عروج نے ایک عرصے تک پاکستان میں نوکری کی جس کے بعد ان والد کے نظریات تبدیل ہوئے اور انھیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی۔‘
’کوئی تاڑتا نہیں، آپ کے لباس پر بات نہیں کرتا‘
پاکستان سے اکیلے بیرونِ ملک جانے کا خوف لیے جب یہ تینوں خواتین آسٹریلیا پہنچیں تو ان کا خوف خوشگوار حیرت میں بدل گیا۔
ڈاکٹر کرن اس بار ے میں تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہاں پر سب سے پہلے تحفظ کا احساس بہت عیاں تھا۔ یہاں آنے کے بعد مجھے کسی کی نظروں کا ڈر نہیں تھا۔‘
’سب سے پہلے تو اس چیز کا احساس تھا کہ آپ کچھ بھی کھائیں، پہنیں یا اوڑھیں آسٹریلیا میں آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ اب جو میں کرنا چاہوں وہ کر سکتی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں کوئی آپ کو پینڈو نہیں کہے گا، کوئی آپ کے لباس پر بات نہیں کرے گا۔ کوئی آپ کے رنگ و نسل کو نہیں دیکھے گا، کالا گورا نہیں کہے گا۔‘
عروج سے جب ہم نے پوچھا کہ وہ سب سے پہلا فرق کیا تھا جو انھوں نے آسٹریلیا آ کر محسوس کیا تو انھوں نے فوراً کہا کہ ’تاڑتے نہیں ہیں لوگ۔‘
یہ بھی پڑھیے
عروج کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ بس میں یا ٹرین میں سفر کر رہے ہوں تو ہر کوئی اپنے کام میں مگن دکھائی دے گا، آپ کیا کر رہے ہو، آپ نے کیا پہنا ہوا ہے کوئی آپ کو دیکھ نہیں رہا یا آپ کے بارے کچھ برا سوچ نہیں رہا۔‘
ڈاکٹر عائشہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے آسٹریلیا کے معاشرتی اقدار پر بھی روشنی ڈالتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آسٹریلیا ایک بہت فیملی دوست ملک ہے، ایسا بالکل بھی نہیں کہ یہاں پر ننگ دھڑنگ عورت آدمی گھوم رہے ہیں، جو نہ شادیاں کرتے ہیں، بس نشہ کرتے ہیں بس شراب پیتے ہیں اور ناچتے رہتے ہیں جو ہمارے ہاں ایک سوچ ہے کہ یہاں خاندانی اقدار نہیں، ایسا بالکل نہیں۔‘
’یہاں عورت بھی اپنے کردار کو سمجھتی ہے، مرد بھی سمجھتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں اور یہاں میں یہ فرق ہے کہ مجھے یہاں کبھی براہ راست ہراساں نہیں کیا گیا۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان میں آپ کو ہر روز یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ بطور عورت میں یہاں کیسے آئی ہوں اور میں کیا کرسکتی ہوں۔ یہاں مجھے کبھی ایک دن بھی یہ نہیں بتانا پڑا۔‘
’اپنے ہی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے آن لائن ہراساں کیا‘
آسٹریلیا میں مقیم جتنے بھی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے بات ہوئی ان سب نے ہی کووڈ کے دوران ملک کی سرحدیں مکمل بند کرنے اور یہاں سخت لاک ڈاؤن کو ایک بھیانک خواب کے طور پر یاد کیا۔ اس دوران متعدد افراد کو ذہنی مسائل سے بھی نمٹنا پڑا۔
ڈاکٹر عائشہ بتاتی ہیں کہ ظاہر ہے آپ ایک نئے ملک میں ہیں، اپنے گھر والوں سے دور ہیں، آپ کو غیریقینی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ آپ کو نہیں پتا یہاں سے آگے کیا ہو گا، کیا آپ کو نوکری ملے گی، نہیں ملے گی۔ کیا میں ویزے کے میعاد کے دوران پی ایچ ڈی ختم کر پاؤں گی یا نہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کے تجربے کے مطابق اکثر دیسی خواتین پی ایچ ڈی کی تعلیم یا تو کئی سال کے عرصے میں مکمل کرتی ہیں یا پھر تین سال بعد ہی چھوڑ دیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’توقع کی جاتی ہے کہ وہ (پی ایچ ڈی کے ساتھ) بچے بھی سنبھالے گی، اگر نہیں تو پیدا کریں گی۔
’اکثر خواتین کے ساتھ ان کے شوہر ان کی ڈپینڈینٹ ویزے پر آتے ہیں، تو انھیں ساتھ ساتھ ویزا سے متعلق شرائط کو بھی پورا کرنا ہے۔‘
ڈاکٹر عائشہ آسٹریلیا میں مقیم غیر ملکی پاکستانیوں سے ہی آن لائن ہراساں ہو چکی ہیں۔ وہ اس تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی نظر میں اکیلی، ماڈرن عورت کا مطلب ہے کہ یہ صحیح عورت نہیں۔ گھر والوں نے اسے کھلا چھوڑا ہوا ہے، گھومتی پھرتی ہے، یہاں اسے آزادی ملی ہوئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہاں اپنے ہی وطن کے لوگوں سے آن لائن ہراساں ہوئی۔‘
عروج قاضی آسٹریلیا ماسٹرز کرنے آئے تھیں
’والدین بہت یاد آتے ہیں اور سوچتی ہوں کہ ان کی خدمت کی جائے‘
اپنے ملک سے دور رہنے والے تمام ہی پاکستانی دیارِ غیر میں ’گھر کی یاد‘ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کرن کو والدین کی شدت سے یاد آتی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ’سوچتی ہوں واپس جانا معمول بنایا جائے۔ ان کی خدمت کی جائے کیونکہ پی ایچ ڈی میں وقت لگ جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ اپنی فیملی سے دور رہتے ہو، ملک سے دور رہتے ہو لیکن وہ چیز (ملک کی محبت) تو کبھی ختم نہیں ہوتی۔
’وہاں جب آپ باہر نکلتے ہو تو آپ کو لوگ پہچانتے ہیں آپ سے بات کرتے ہیں۔ یہاں آپ ایک مشن پر لگے رہتے ہو، پیسے کماتے ہو شیئر بھی کرتے ہو لیکن وہ ایک کمی ضرور رہتی ہے کیونکہ آپ کو پھر گھر کی یاد آتی ہے اور لگاتار کام کرنے کے بعد آپ کی صحت خراب ہو جاتی ہے۔‘
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ ’اپنے کھانے کی یاد آتی تھی۔ آپ کو اپنے ماں باپ اور گھر کی قدرآتی ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ یہ تب ہی شروع ہو جاتی ہے جب آپ کی شادی ہوتی ہے لیکن جب آپ ملک چھوڑ کر جاتے ہیں تو آپ کو ملک کی بھی قدر آ جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پھر آپ یہاں چھوٹی چھوٹی فیملیز بنانا شروع کر دیتے ہیں، اپنے دوستوں میں ہی اپنی ماں اور بہن تلاش کرتے ہیں، سہیلیاں تلاش کرتے ہیں۔
’طویل عرصہ لگتا ضرور ہے لیکن بعد میں سب اپنی جگہ پر آ جاتا ہے۔‘
Comments are closed.