مسجد اقصیٰ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے اہم کیوں؟
- مصنف, دیپک منڈل
- عہدہ, بی بی سی نامہ نگار
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ملک کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر کا مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ بہت زیادہ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’بے مثال اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے۔
یروشلم تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ کو مکہ کی مسجد الحرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
یہودی مسجد کے احاطے میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن انھیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں۔
ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا ایتامر بین گویر نے وہاں عبادت کی یا نہیں لیکن فلسطینی اسے مسجد اقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
آخر اسرائیلی وزیر کا مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جانا اتنا متنازع کیوں بن گیا اور مسجد اقصیٰ اتنی اہم کیوں ہے کہ اسرائیلی وزیر کے وہاں جانے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ چین نے بھی شدید اعتراض کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے؟
عالمی ثقافتی ورثہ
درحقیقت مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ یہودیوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے اور اسے اسلام میں تیسرا مقدس ترین مقام بھی سمجھا جاتا ہے۔
مقدس مقام، جسے یہودیوں کے لیے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ اور مسلمانوں کے لیے ’الحرم الشریف‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں ’مسجد اقصیٰ‘ اور ’ڈوم آف دی راک‘ شامل ہیں۔
’ڈوم آف دی راک‘ کو یہودیت میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے اور مسلمان بھی پیغمبر اسلام محمد کی نسبت سے اسے مقدس مقام مانتے ہیں۔
اس مذہبی مقام پر غیر مسلموں کے عبادت کرنے پر پابندی ہے۔
مسجد اقصیٰ گول گنبد والی مسجد کا نام ہے جو 35 ایکڑ کے احاطے میں موجود ہے۔ مسلمان اسے الحرم الشریف بھی کہتے ہیں۔ یہودی اسے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔
یہ کمپلیکس یروشلم کے پرانے علاقے میں ہے جسے یونیسکو سے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ مل چکا ہے۔
مسجد اقصیٰ اور اس کے پس منظر پر تنازع
یہ علاقہ سنہ 1967 میں غربِ اردن، غزہ کی پٹی اور اولڈ سٹی سمیت مشرقی یروشلم کے اسرائیل کے الحاق کے بعد سے متنازع ہے تاہم اس حوالے سے تنازع اسرائیل کے وجود سے پہلے سے جاری ہے۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے ایک علیحدہ فلسطینی علاقے کے لیے تقسیم کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت فلسطین برطانیہ کے قبضے میں تھا۔
اس منصوبے کے مطابق دو ممالک بنائے جانے تھے، ایک یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لیے اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے۔ یہودیوں کو 55 فیصد زمین اور باقی 45 فیصد زمین فلسطینیوں کو دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سمیت 72 فیصد زمین پر قبضہ کر لیا اور خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا۔
دراصل 1967 میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی یروشلم شہر پر قبضہ کر لیا اور اس طرح شہر کے پرانے علاقے میں واقع الاقصیٰ کمپلیکس بھی اس کے قبضے میں آ گیا۔
اسرائیل نے اسے اردن سے چھین لیا تھا لیکن مقدس مقامات کے کنٹرول کے تنازع کے بعد جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نظام بنایا گیا۔
اس انتظام کے تحت اردن کو اس جگہ کا نگہبان بنایا گیا تھا جبکہ اسرائیل کو سکیورٹی کے نظام کو سنبھالنے کی ذمہ داری ملی تھی لیکن یہاں صرف مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔
یہودی یہاں آ سکتے تھے لیکن انھیں عبادت کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
الاقصیٰ کی مذہبی اہمیت
مسجد اقصیٰ اور ’ڈوم آف دا راک‘ جو ساتویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا، مسلمانوں کے لیے یروشلم کے ’الحرم الشریف‘ کے نام سے مشہور مقدس مقام میں شامل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام محمد یہاں سے معراج پر گئے تھے۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ بائبل میں مذکور یہودی مندر یہاں واقع تھے لیکن یہودیت کے عقائد کے مطابق یہ جگہ اتنی مقدس ہے کہ لوگوں کو یہاں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ اس کمپلیکس کی مغربی دیوار کو ’ویلنگ دیوار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ یہودی مندر کا حصہ ہے جبکہ مسلمان اسے ’دیوار البراق‘ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پیغمبر اسلام محمد نے ’البراق‘ نامی جانور باندھا تھا اور معراج کا سفر کیا اور وہاں خدا سے مکالمہ کیا۔ اسی لیے اسے مسلمانوں کے لیے بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے بارے میں تنازعات کیوں؟
الاقصیٰ کمپلیکس کے حوالے سے اسرائیل اور اردن کے درمیان 1967 کے معاہدے کے مطابق اردن کے وقف بورڈ کو مسجد کے اندر کے انتظام کی ذمہ داری ملی۔
اسرائیل کو بیرونی سکیورٹی کے انتظامات کی ذمہ داری ملی۔ غیر مسلموں کو اس کمپلیکس میں جانے کا حق حاصل تھا لیکن انھیں عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اس دوران ٹیمپل انسٹیٹیوٹ نے، جو ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ پر یقین رکھتا ہے، کمپاؤنڈ کے اندر اسرائیلیوں کے جانے پر پابندی ہٹانے کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ وہ اس جگہ پر ایک تیسرا یہودی مندر بنانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی حکومت ایسے گروپس کو پیسے بھی دیتی ہے حالانکہ حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ وہ اپنا جمود برقرار رکھنا چاہتی ہے لیکن آہستہ آہستہ یہاں تعینات اسرائیلی فوجی فلسطینی علاقوں میں آباد یہودیوں کو یہاں جانے کی اجازت دیتے رہے۔
الجزیرہ کے مطابق ان افراد کو پولیس اور فوج کی حفاظت میں کمپاؤنڈ کے اندر لایا گیا۔ اس سے فلسطینیوں میں خوف پیدا ہو گیا کہ کہیں اسرائیلی اس پر قبضہ نہ کر لیں۔
الجزیرہ کے مطابق سنہ 1999 میں، ٹیمپل ٹاؤن کے عہدیدران نے اعلان کیا کہ وہ ’ڈوم آف دی راک‘ کی جگہ پر تیسرے مندر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔
اس کے بعد اس علاقے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپ ہوئی۔ جس میں 20 فلسطینیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
Comments are closed.