گھانا میں ماہی گیری: چینی جہازوں پر بدسلوکی، بدعنوانی اور موت کے الزامات

  • مصنف, جارج رائٹ اور تھامس نادی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، لندن اور اکرا

برائٹ سائی

،تصویر کا ذریعہBRIGHT TSAI KWEKU

،تصویر کا کیپشن

برائٹ سائی کویکو نے تین دن تک سوئے بغیر کام کرنے کے بعد یہ تصویر کھینچی ہے

جب گھانا میں چینی ماہی گیری کے جہازوں پر بدسلوکی اور بدعنوانی کی بات آتی ہے تو برائٹ سائی کویکو نے یہ سب کچھ دیکھا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے چینی عملے کو مقامی ماہی گیروں کے ساتھ ’غلاموں‘ جیسا سلوک کرتے دیکھا ہے۔

کویکو کا کہنا ہے کہ ’وہ انہیں پیٹتے ہیں، ان پر تھوکتے ہیں، انھیں لاتیں مارتے ہیں۔ میں یہ سب پہلے بھگت چکا ہوں۔‘

کویکو سازوسامان اور عملے کے انچارج (بوسن) کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں تین دن تک بغیر سوئے کام کرنے پر مجبور کیا گیا، ان سے کھانا چھینا گیا اور گندا پانی پینے پر مجبور کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے کچھ ساتھی ماہی گیروں کے حالات اس سے بھی بدتر ہو ہیں۔

کویکو کا کہنا ہے کہ ان کے ایک ساتھی کو چینی جہاز پر ہیضہ ہو گیا لیکن عملے نے اسے علاج کے لیے ساحل پر واپس لانے سے انکار کر دیا۔ اور وہ زندہ واپس نہیں آیا۔

ان کا ایک دوسرا ساتھی اس وقت بری طرح سے جھلس گیا تھا جب جہاز میں آگ لگی۔ ایک اور ساتھی کو پروپیلر نے پکڑ لیا۔ کویکو کا کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا اور نہ ہی ان کے گھروالوں کو مناسب معاوضہ دیا گیا۔

چینی ماہی گیر جہاز

،تصویر کا ذریعہEJF

،تصویر کا کیپشن

ای جے ایف کا کہنا ہے کہ گھانا میں چینی ٹرالوں کی خاصی بڑی تعداد غیر قانونی سرگرمیوں میں مصروف ہے

برطانیہ میں قائم اینوائرمنٹل جسٹس فاؤنڈیشن (ای جے ایف) کا کہنا ہے کہ گھانا میں کام کرنے والے کم سے کم 90 فیصد صنعتی ٹرالر چینی کارپوریشنوں کی ملکیت ہیں، جو مقامی ماہی گیر بحری جہازوں کی ملکیت سے متعلق گھانا کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ای جے ایف کا کہنا ہے کہ ان جہازوں کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔

ای جے ایف کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں گھانا میں چین کے ڈِسٹینٹ واٹر فشنگ (ڈی ڈبلیو ایف) کے بیڑے کی غیر قانونی، غیر رپورٹ شدہ اور بے ضابطہ ماہی گیری، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گا ہے۔ چین کے ڈی ڈبلیو ایف بیڑے کی ملکیت اور آپریشنل کنٹرول پیچیدہ اور مبہم ہے، اور یہ دنیا کا سب سے بڑا بیڑا ہے۔

ای جے ایف نے عملے کے 36 ارکان سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ انھیں 14 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور کھانا بھی ناکافی دیا گیا تھا۔

94 فیصد نے ناکافی دوا ملنے یا زبانی بدسلوکی کی شکایت کی۔

86 فیصد نے بتایا کہ زندہ رہنے کے لیے حالات سازگار نہیں۔

81 فیصد نے جسمانی تشدد کا سامنا کیا تھا۔

75 فیصد کو سمندر میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔

رپورٹ کے ردعمل میں چینی سفارت خانے کا کہنا تھا کہ وہ ’ماہی گیری کرنے والا ایک ذمہ دار ملک ہے۔‘

اس کے پریس آفس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے غیر قانونی، غیر رپورٹ شدہ اور بے ضابطہ ماہی گیری کے خلاف کریک ڈاؤن میں ہمیشہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور غیر قانونی ماہی گیری روکنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔‘

آٹھ ماہ قبل گھانا کے پانیوں میں ایک چینی بحری جہاز کو بد ترین آفت کا سامنا کرنا پڑا۔

چھ مئی 2022 کو ایم وی کمفرٹر 2 طوفان میں گِھر جانے کے بعد ڈوب گیا۔ عملے کے چودہ افراد کو بچا لیا گیا، لیکن 11 اب تک لاپتہ ہیں، جنھیں مردہ قرار دیدیا گیا ہے۔

زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک مائیکل (فرضی نام) نے، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے بات کی اس دن پیش آنے والے ہولناک واقعات کے بارے میں بتایا۔

مائیکل

،تصویر کا کیپشن

مائیکل ایم وی کمفرٹر 2 کے حادثے سے جسمانی اور ذہنی طور پر صحتیاب نہیں ہو سکے ہیں

مائیکل اور نو دیگر افراد تقریباً 24 گھنٹے تک تیل کے ڈرم کو پکڑ کر اس وقت تک تیرتے رہے جب تک ایک ماہی گیر نے انہیں دیکھ نہیں لیا۔

وہ کہتے ہیں، ’یہ ایک بھیانک رات تھی، ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم زندہ بچ جائیں گے۔‘

مائیکل اس صدمے سے جسمانی یا ذہنی طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے گھانا کی کمپنی بوٹیکوم نے، جو جہاز کی  سرکاری طور پر انچارج تھی، انھیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کمپنی حیلے بہانے بناتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی میں اپنے پورے جسم میں درد محسوس کرتا ہوں۔ مجھے علاج کی ضرورت ہے، لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘

بوٹیکام کے منیجنگ ڈائریکٹر کوجو امپراٹوم نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنی نے اپنی رپورٹ انشورنس کمپنی کے پاس جمع کروا دی ہے اور اس کے جواب کا انتظار کر رہی ہے۔

گھانا میں کام کرنے والے ایم وی کمفرٹر 2 اور دیگر جہازوں کا مالک کون ہے اس کا سراغ لگانا مشکل ہے۔

گھانا کے پرچم تلے کام کرنے والے صنعتی جہازوں کی غیر ملکی ملکیت غیر قانونی ہے، مگر کچھ چینی کمپنیاں مقامی کمپنیوں کی آڑ میں کام چلاتی ہیں۔

تحقیق کے بعد ای جے ایف کا کہنا ہے کہ چین کی ڈالیان مینگشین اوشن فشری کمپنی، ایم وی کمفرٹر 2 کی اصل مالک ہے اور مینگ شین بیڑے کا حصہ ہے۔

مینگ شین بیڑے کا ذکر گھانا کے پانیوں پر سب سے زیادہ بدنام واقعات میں سے ایک کے سلسلے میں بھی آیا ہے جس میں ماہی گیری کے مبصر ایمینول ایسین لاپتہ ہو گئے تھے۔

ایمینول ایسین

،تصویر کا ذریعہJAMES ESSIEN

،تصویر کا کیپشن

ایمینول ایسین 2019 میں سمندر میں سفر کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے

سنہ 2018 کے بعد سے گھانا نے تمام مقامی صنعتی ٹرالروں پر ماہی گیری کے مبصر مقرر کیے ہیں۔ ان کا کام ماہی گیری کی سرگرمیوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنا اور سمندر میں غیر قانونی سرگرمیاں رپورٹ کرنا ہے۔

ایسین اپنے کام سے لگن رکھنے والے مبصر مشہور تھے۔ لیکن یہ بات ان کے لیے مسائل کا سبب بن گئی۔ ان کے بھائی جیمز ایسین کا کہنا ہے کہ ایک چینی اس وقت ان سے لڑ پڑا جب وہ سمندر میں غیر قانونی طور پر مچھلیاں پھینکنے کی ویڈیو بنا رہے تھے اور چینی کارکن نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔

انھوں نے اپنی آخری رپوٹ 24 جون 2019 کو ماہی گیری کمیشن کو تھی۔ رپورٹ کی ایک کاپی بی بی سی کو فراہم کی گئی ہے۔ رپورٹ میں انہوں نے ماہی گیری کی غیر قانونی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ’میں پولیس سے مزید تحقیقات کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔‘

پانچ جولائی کو ایسین مینگشین ٹرالر 15 سے لاپتہ ہوگئے۔

جیمز کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی عملے کے باقی افراد کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کے بعد سونے کے لئے اپنے کیوبیکل میں چلے گئے تھے۔ اگلی صبح کہیں پر ان کا سراغ نہیں ملا۔

تین سال سے زیادہ گزر جانے کے باوجود فیملی کو ان کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ پولیس کی تحقیقات میں ’تشدد یا کسی بھی قابل اعتراض چیز کا کوئی نشان نہیں ملا۔‘

جیمز نے روتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ سچ سامنے آئے۔‘

مینگشین اوشن فشری کمپنی سے تبصرہ کے لئے رابطہ نہیں کیا جا سکا۔

جیمز ایسین

،تصویر کا کیپشن

جیمز ایسین جاننا چاہتے کہ ان کے بھائی کے ساتھ کیا ہوا تھا

ایسین کی گمشدگی ان بہت سے عوامل میں سے ایک ہے جس نے گھانا کے ماہی گیری کے مبصرین پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان مبصرین نے بتایا کہ کس طرح خوف، بدعنوانی اور غفلت کا راج انھیں چینی جہازوں پر غیر قانونی ماہی گیری اور بدسلوکی کے ثبوتوں کو مٹا کر رشوت لینے پر مجبور کر رہا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مبصر کا، جسے ہم نے ڈینیئل کا فرضی نام دیا ہے، کہنا تھا کہ ’ہمارے زیادہ تر ساتھی پیسے لیتے ہیں۔

’انہیں رشوت دی جا تی ہے اور وہ چینیوں سے رقم وصول کرتے ہیں اور وزارت کو غلط رپورٹ دیتے ہیں۔‘

انٹرویو کیے گئے تمام مبصرین کا کہنا تھا کہ ان کی اجرت بہت کم ہے اور اس کی ادائیگی میں اکثر پانچ ماہ لگتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ چینی اور گھانا کے عملے کے مینیجروں کی نا جائز مالی امداد ان کے اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کے لیے ضروری ہے۔

ایک اور مبصر کا، جنھیں ہم سیموئیل کہیں گے، کہنا ہے، ’اگر آپ رشوت لینے سے انکار کرتے ہیں تو آپ گھر بھوکے جائیں گے۔

’زیادہ تر مبصرین رشوت لیتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھروالوں کا خیال رکھنے کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے۔‘

کئی لوگ سچ بولنے سے بہت ڈرتے ہیں۔

سیموئیل کا کہنا ہے کہ ’بعض اوقات وہ مبصر کو پانی میں پھینک دیتے ہیں، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ڈر کی وجہ سے ہم عام طور پر ایسی باتوں کو رپورٹ نہیں کرتے۔‘

گھانا ی ماہی گیر کشتی

،تصویر کا ذریعہEJF

،تصویر کا کیپشن

گھانا کے ماہی گیر کہتے ہیں کہ وہ چینی ٹرالروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے

گھانا چھوڑنے والے ایک سابق مبصر نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں ایک بار ماہی گیری اور آبی زراعت کی ترقی کی وزارت کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اپنے دفتر میں بلایا تھا کیونکہ انھوں نے سمندر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی اطلاع دی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ اہلکار نے ان سے ثبوت مانگا اور پھر اسے ان کے فون سے ڈیلیٹ کر دیا۔ لیکن انھوں نے لیپ ٹاپ پر ثبوت کا بیک اپ لے لیا تھا اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اس کے بعد سے انھیں دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔

ایک موقع پر وہ اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ اپنے گھر میں نہیں سوتے تھے کیونکہ انھیں حملہ ہونے یا اس سے بھی بدتر ہونے کا ڈر تھا۔

ایک دن جب وہ دارالحکومت اکرا کے مشرق میں واقع بندرگاہ تیما میں ماہی گیری کی بندرگاہ کے قریب سائیکل چلا رہے تھے تو گھانا کے ایک اہلکار نے انہیں دیکھا اور اپنی گاڑی سے انہیں کچلنے کی کوشش کی۔

انھوں نے بتایا، ’وہ بندرگاہ پر اپنی کار سے مجھے مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھا تو میں گٹر میں کود گیا … یہ شخص پاگل تھا۔‘

جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد آخر کار انھوں نے انڈسٹری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

’میری زندگی اجیرن ہو گئی تھی کیونکہ جب میں بندرگاہ پر جاتا تو ہر کوئی مجھے گھور کر دیکھتا۔ مجھے کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ میں ایک اجنبی بن گیا، جیسے کہ میں ایک برا انسان ہوں۔ یہ میرے لئے بہت مشکل تھا۔‘

اب جب وہ گھانا واپس آتے ہیں تو بندرگاہ جانے سے گریز کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ مجھے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت خطرناک ہیں۔‘

گھانا کے ماہی گیر

،تصویر کا ذریعہEJF

،تصویر کا کیپشن

ای جے ایف کا کہنا ہے کہ گھانا میں چینی ماہی گیر بیڑوں کی وجہ سے مسائل زیادہ سنگین ہیں

ای جے ایف کے بانی اور سربراہ سٹیو ٹرینٹ کا کہنا ہے کہ چینی ملکیت والے ٹرالروں کی کثرت پورے مغربی افریقہ کے  لیے ایک مسئلہ ہے کیونکہ وہ اکثر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

لیکن ان کے بقول گھانا میں مسئلہ ’خاص طور پر سنگین‘ ہے۔

ٹرینٹ کا کہنا ہے کہ ’چینی مالکان عام طور پر گھانا سے تعلق رکھنے والے عملے  کا کپتان چینی شہری کو مقرر کرتے ہیں، اور یہ ہی کپتان عملے سے بد سلوکی کرتے ہیں۔‘ وہ الزام ان مالکان پر عائد کرتے ہیں جو ’زیادہ سے زیادہ منافع کمانے اور اخراجات کو کم سے کم کرنے‘ کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ای جے ایف کی تحقیقات نے ’ہر سطح پر ماہی گیری کے عہدیداروں، پولیس اور بحریہ کے افسران سمیت‘ منظم بدعنوانی کو بے نقاب کیا ہے۔

اگرچہ گھانا میں غیر قانونی ماہی گیری کے سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن ٹرینٹ کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان خامیوں اور دھوکہ بازی کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے جس سے غیر ملکی ملکیت والے جہاز نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں، جن میں زیادہ تر چینی ہیں۔‘

گھانا کی حکومت نے کئی مرتبہ رابطہ کرنے پر بھی اپنا موقف نہیں دیا۔

گھانا کا ساحل

،تصویر کا ذریعہEJF

،تصویر کا کیپشن

بد سلوکی، گمشدگی اور کم اجرت نے گھانا کے ماہی گیروں کو بری طرح متاثر کیا ہے

کویکو چاہتے ہیں کہ حکومت ماہی گیروں کو باقاعدہ یونین سازی کی اجازت دے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس کے تحت لوگوں کو سمندر میں کام کرنے کے لیے بھیجنے سے پہلے معاہدہ کیا جائے۔

بدسلوکی، گمشدگیوں اور کم تنخواہ نے ان کی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔

‘وہ کہتے ہیں، ’ہم نے سمندر میں بہت سے ماہی گیروں کو کھو دیا ہے، لیکن اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ دو یا تین مبصر لا پتہ ہیں۔

’ہم سب سمندر میں جانے سے ڈرتے ہیں لیکن خشکی پر کوئی کام نہیں ہے، اس لیے مجبوراً جانا پڑتا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ