سال 2023 میں یوکرین جنگ میں شدت آئی گی یا کوئی حل نکلے گا؟ جنگ سے متعلق پانچ اہم سوال

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا 2023 یوکرین جنگ میں تیزی اور شدت کا سال ہو گا، یا اس کا کوئی حل نکلے گا یا پھر یہ اس جنگ میں سخت تعطل کا سال رہے گا؟ یہ وہ سب سوالات ہیں جو ایک ایسے وقت میں ذہن میں آتے ہیں جب روس اور یوکرین میں جاری جنگ کو اگلے ماہ یعنی فروری میں ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔

یوکرین جنگ کا مستقبل کیا ہو گا اس بارے میں بی بی سی رشیا سروس کے ایڈیٹر سٹیو روزنبرگ اور بین الاقوامی ایڈیٹر جیریمی بوون نے بی بی سی ریڈیو کے ٹوڈے پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

مہینوں سے جاری تھکا دینے والی لڑائی اور دونوں جانب تباہ کن نقصانات کے بعد کیا اس بات کے کوئی آثار ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اس جنگ سے اکتا چکے ہیں؟

اس بارے میں بی بی سی رشیا سروس کے ایڈیٹر سٹیو روزنبرگ کا کہنا ہے کہ ’نہیں، تھکا دینے والے کوئی آثار نہیں ہیں۔روسی صدر کے نئے سال کے موقع پر کیے گئے خطاب سے ہمیں یہ واضح اندازہ ہوتا ہے کہ ولادیمیر پوتن اس جنگ کو لے کر کہاں کھڑے ہیں اور وہ اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ اور وہ 2023 میں روس کو کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ انھوں نے اس خطاب میں دراصل کیا کہا اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے میرے خیال میں ان کی تقریر کے دوران تصاویر نے بہت کچھ واضح کر دیا کیونکہ جب وہ خطاب کر رہے تھے تو ان کے پیچھے سخت چہروں والے مرد اور خواتین یونیفارم پہنے کھڑے تھے۔ یہ قوم کو ایک بہت واضح پیغام تھا کہ ’اب آپ کا ملک ایسا ہے، یہ 2023 کا روس ہے، ایک جنگ زدہ ملک۔‘

اگرچہ وہ (پوتن) اسے جنگ قرار نہیں دیتے، کیونکہ (یہ وہ) ملک ہے جہاں یوکرین پر، نیٹو پر اور مغرب پر عسکری فتح حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کیا جا رہا ہے اور جہاں سب سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان مقاصد کی حمایت کریں اور اسے حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اس پر کوئی بحث، کوئی مذاکرات نہیں اور آپ اپنے لیڈر اور پرچم کے حق میں نعرے لگائیں۔

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ تو صرف ان کی تقریر کے مناظر تھے لیکن جو انھوں نے کہا اگر اس کا جائزہ لیں تو واضح ہے کہ ’کوئی ذیلی شاخیں نہیں، سمجھوتے کا کوئی امکان نہیں، اور اس بربادی سے نکلنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی کوئی بات نہیں کی۔‘

صدر پوتن کا اس جنگ میں فتح حاصل کرنا کا یہ ارادہ ہے کیونکہ شاید وہ مکمل طور یقین رکھتے ہیں کہ اس جنگ میں فتح ممکن ہے یا پھر وہ جانتے ہیں کہ وہ اس جنگ میں اس بری طرح پھنس چکے ہیں کہ اب ان کے لیے واپسی کا کوئی چارہ نہیں اور ان کے پاس اب صرف یہ ہی راستہ بچا ہے کہ وہ یہ امید رکھیں کہ حالات ان کے لیے سازگار ہو جائیں گے اور انھیں سیاسی فائدہ ملے گا۔‘

ایسے میں کیا یوکرین بھی اس جنگ کو جاری رکھے گا؟

 اس بارے میں بی بی سی کے بین الاقوامی امور کے ایڈیٹر جیرمی بوون کہتے ہیں کہ ’(یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اس بارے میں بات کرتے رہے ہیں) کہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے کو واپس حاصل کریں اور اس میں وہ کریمیا کے خطے کو بھی شامل کرتے ہیں۔ وہ بڑا صوبہ جو یوکرین نے سنہ 2014 کی جنگ میں گنوا دیا تھا۔‘

اب جبکہ زیلنسکی نے خود کو ایک کامیاب جنگجو رہنما کے طور پر پیش کیا ہے لیکن وہ عسکری طور پر کیا حاصل کر سکتے ہیں اس کا دارومدار نیٹو کی مدد اور خصوصاً امریکہ سے انھیں کیا مدد حاصل ہوتی ہے، اس پر ہے۔ جیسا کہ یوکرین کو امریکہ سے ملنے والے ہیمارس میزائل سسٹم نے روس کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

لیکن دوسری طرف واشنگٹن میں صدر بائیڈن نے کافی محتاط راستہ اختیار کیا ہے جو بنیادی طور پر یہ ہے کہ یوکرین کو ہارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے اور اس کی حمایت کی جانی چاہیے تاکہ اسے جنگ میں کامیابیاں مل سکیں، لیکن روس کو ایسے کونے میں نہ دھکیلیں کہ اس سے متعلق ایٹمی جنگ کے خطرات سچ ثابت ہوں۔

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہReuters

کیا یوکرین کے لیے غیر ملکی حمایت ختم ہو جائے گی؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے روزنبرگ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ بات (پوتن) کے ذہن میں بھی ہے۔ کیونکہ جس طرح سے گذشتہ برس 24 فروری کے بعد سے جس طرح ان کے لیے حالات تیزی سے خراب ہوئے ہیں مگر وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان کے پاس مضبوط پتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ مغرب اس جنگ سے تھک جائے گا اور یوکرین کے لیے اس کی حمایت کم ہو جائے گی۔

اس بارے میں یہاں ہر قسم کی افواہیں اور قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں کہ روس میں متحرک ہونے کی نئی لہر آسکتی ہے، روسی فوج کی طرف سے موسم بہار کے ممکنہ حملے کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ حکام پرجوش ہیں اور فتح کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘

جبکہ جیرمی بوون اس بارے میں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’ گذشتہ برس امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے کہا تھا کہ کریمیا پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنا مشکل ہو گا اور میرے خیال میں شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ وہ اس کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ مگر انھوں نے اپنا وہ بیان بہت جلد واپس لے لیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ایسا کہا تھا۔‘

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہReuters

یہ بھی پڑھیے

روس کی مدد اور حمایت کا کیا؟

روزنبرگ اس بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت زمینی حقائق کی روشنی میں کریملن سے پیغام رسانی اور رابطے منقطع ہیں۔‘

ایک طرف آپ کے پاس پوتن ہیں جو اپنے نئے سال کے خطاب میں قوم کو نعرے لگوا رہے ہیں اور اگلے محاذوں پر فتح کا دعویٰ کر رہے ہیں تو دوسری جانب اس کے چند منٹ بعد ہی یوکرین کی جانب سے ماکیوکا میں روسی فوجی مورچوں پر ایک بھرپور اور تباہ کن راکٹ حملہ کیا جاتا ہے۔  

وہ کہتے ہیں کہ میں یہاں اس رابطے کے فقدان کی بات کر رہا ہوں جو ہم اس وقت حقیقیت میں دیکھ رہے ہیں وہ ان دعوؤں کے بالکل مخالف ہے جس کے متعلق ہم گذشتہ ایک سال کے دوران بات کرتے آئے ہیں۔

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ روس 2023 میں کیسا ہو گا تو جارج اورول اور لیوس کیرول کو ملا کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا۔ یہ 1984 اور (ایلس) تھرو دی لِکنگ گلاس کا واقعی ایک عجیب مرکب ہے، جہاں ہر چیز اُلٹی پلٹی، آگے پیچھے اور اندر باہر ہے:  جہاں جنگ امن ہے، جہالت طاقت ہے۔

کریملن نے اس قسم کی متبادل اور خودساختہ حقیقت بنائی ہے جسے وہ صبح سے رات تک سرکاری میڈیا پر فروغ دیتا ہے ، جہاں روس کو متاثرہ ملک اور شکار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یوکرین اور مغرب وہ جارح ہیں جنھوں نے یہ جنگ شروع کی ہے۔‘

کیا کوئی ایک فریق جنگ بندی کے معاہدے کے لیے تیار ہے؟

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جیرمی بوون اس متعلق رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال اس وقت مذاکرات یا جنگ بندی کے حوالے سے کوئی تیار ہے۔ کیونکہ پوتن یا تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ جنگ جیت جائیں گہ یا یہ کہ انھیں یہ جنگ جاری رکھنی ہے۔

جبکہ دوسری طرف یوکرینیوں کا ماننا ہے کہ وہ یہ جنگ جیت سکتے ہیں اور اس قدر خون بہنے اور اتنے نقصانات اٹھانے کے بعد وہ اب کسی ایسے معاہدے یا مراعات کے لیے تیار نہیں ہوں گے جو وہ نہیں چاہتے۔

جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک یوکرین کے صدر زیلنسکی کے لہجے میں تبدیلی آئی ہے۔ گذشتہ سال مارچ میں جنگ کے آغاز کے ابتدائی چند ہفتوں میں جب یوکرین کے دارالحکومت کو روس سے واقعی بڑا خطرہ تھا وہ ایسے بیانات دے رہے تھے ’زندگیاں زیادہ اہم ہیں، شاید زمین اور علاقے سے زیادہ عوام کی جانیں اہم ہیں۔‘

مگر اب وہ کہہ رہے کہ وہ اپنی سرزمین کا ہر ایک انچ واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اگر وہ (روس) مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو پھر روسیوں کو ان کی سرزمین سے نکلنا ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ