نشہ آور ادویات کی لت: ’دماغ کام نہیں کر رہا تھا، میں نے گاڑیوں اور سڑکوں پر سونا شروع کر دیا تھا‘
- مصنف, فتحی محمد احمد
- عہدہ, موغادیشو
23 برس کی امینو عابدی گذشتہ پانچ برسوں سے منشیات کا استعمال کر رہی ہیں
گذشتہ سال صومالی دارالحکومت موغادیشو کی ایک سڑک پر ایک 22 برس کی خاتون کی لاش ملنے کے بعد شہر میں خواتین کے نشے کی لت میں مبتلا ہونے جیسے مسئلے پر بات ہونی شروع ہوئی۔
صحت کے کارکنوں نے بتایا کہ اس خاتون کی موت نشہ آور دوا کی زیادہ مقدار لینے سے ہوئی۔
وہ ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر تھی جس کے دوستوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے منشیات کے انجیکشن لگا رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی دوست نے اپنی کچھ مشہور ٹک ٹاک ویڈیوز ریکارڈ کیں تو وہ نشے میں تھی۔
پولیس کے مطابق موغادیشو اور صومالیہ میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس اضافے کی ایک وجہ خواتین میں نشے کے استعمال میں اضافہ بھی ہے۔ پولیس کے مطابق لوگوں کو نئی قسم کی منشیات کی لت لگ رہی ہے۔
پہلے وہ نشہ آور پتے ’کھت‘ کو چباتے تھے، جو کہ غیر قانونی نہیں ہے، شراب پیتے، گوند سونگھتے یا چرس پیتے تھے لیکن اب زیادہ سے زیادہ لوگ نشہ آور ادویات کا غلط استعمال کر رہے ہیں جسے وہ براہ راست انجیکشن کے ذریعے اپنی رگوں تک پہنچاتے ہیں۔ ان میں مورفین، ٹراماڈول، پیتھیڈائن اور کوڈین شامل ہیں۔
دسمبر کے اوائل میں پولیس نے موغادیشو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ڈاکٹر کے نسخے سے ملنے والی دوائیوں کی ایک بڑی کھیپ پکڑی، خاص طور پر نشہ آور ادویات کی، جس کے بعد انھوں نے ان کے امپورٹرز کو گرفتار کر لیا۔
موغادیشو میں ایک ڈاکٹر نے موضوع کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’گولیاں اور انجیکٹ کی جانے والی دوائیں خاص طور پر نوجوان خواتین اور لڑکیوں میں مقبول ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ان میں سے بہت سے مادے نشہ آور ہیں اور وہ شہر بھر کے میڈیکل سٹورز میں ڈاکٹر کے تحریری نسخے کے بغیر آسانی سے دستیاب ہیں۔‘
‘میں گاڑیوں میں سونے لگی’
نوجوان خواتین کی طرف سے استعمال ہونے والی ایک اور مقبول نشہ آور شے چبانے والے تمباکو کی ایک قسم ہے جسے ’تببو‘ کہا جاتا ہے، جو منھ اور گلے کے کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔
23 برس کی امینو عابدی گذشتہ پانچ برسوں سے منشیات کا استعمال کر رہی ہیں۔
اگرچہ صومالیہ میں خواتین کے نشہ کرنے کے موضوع پربات نہیں کی جاتی، لیکن انھوں نے اس امید پر بی بی سی سے کُھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ خاموشی توڑنے اور تعصب کو کم کرنے میں مدد کر سکیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ان لڑکیوں کے ساتھ تببو چبانا شروع کیا جن کے ساتھ میں رہتی تھی۔ ان کا مجھ پر برا اثر پڑا۔ میں تمباکو کی عادی ہو گئی پھر زیادہ نشہ آور ڈرگز کرنے لگی، خاص طور پر ٹراماڈول اور پیتھیڈائن، جنہیں میں انجیکشن کے ذریعے نس میں لگا سکتی تھی۔‘
امینو عابدی کہتی ہیں کہ ان کے منشیات کے استعمال میں اس وقت اضافہ ہوا جب ان کے اپنے شوہر کے ساتھ مسائل بڑھنے لگے۔ اب ان کی طلاق ہوچکی ہے اور وہ اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتی ہیں۔
ان کے مطابق ’میرے سابق شوہر میرے اس قدر زیادہ نشے کی عادی ہونے کی وجہ ہیں۔ میری نشے کی عادت اتنی بڑھ گئی کہ میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تک جیسے ختم ہو گئی ہو۔ میں نے گاڑیوں اور سڑکوں پر سونا شروع کر دیا۔‘
امینو عابدی نشے کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ صومالیہ میں نشہ چھوڑنے کی صورت میں اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بحالی کے مناسب مراکز نہیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہر قسم کا نشہ بیک وقت چھوڑنا ناممکن ہے۔ ان کی نشہ آور ادویات انجیکٹ کرنے کی لت کم ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی تمباکو چباتی ہیں اور شیشہ پیتی ہیں۔
والدین، خاص طور پر مائیں، اپنی بیٹیوں جن میں سے بعض ابھی بھی سکول جانے کی عمر کی ہیں، کی نشے کی لت سے شدید پریشان ہیں۔
خدیجہ عدن نے محسوس کیا کہ ان کی 14 برس کی بیٹی کا برتاؤ بہت عجیب ہوگیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ بے تُکے وقت پر سو رہی تھی اور عجیب حرکتیں کر رہی تھی۔‘
ان کے مطابق ’ایک دن مجھے اس کے بیگ میں ٹراماڈول کی گولیاں اور چبانے والا تمناکو ملا۔ میں نے پوچھ گچھ کی تو میری بیٹی نے مجھے بتایا کہ اس نے دوستوں کے دباؤ میں آکر منشیات کا استعمال شروع کر دیا تھا۔‘
خدیجہ عدن نے اپنی بیٹی کو مسلم رہنماؤں کے زیر انتظام ایک مرکز میں بھیج دیا۔ وہ اب منشیات نہیں لے رہی کیونکہ وہاں ان تک رسائی ناممکن ہے۔
بہت سے والدین اپنے ایسے مسائل کے شکار بچوں کو ایسے مراکز بھیجتے ہیں جہاں خاص طور پر دماغی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہو۔ ان مراکز میں ایسے بھی بچوں کو بھیجا جاتا ہے جو جرائم اور منشیات کے دھندے میں ہوں یا جن پر ہم جنس پرست ہونے کا شک ہو۔
کچھ مراکز میں ایسے بچوں کے ساتھ شدید بدسلوکی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جس میں وہاں رہنے والوں کو زنجیروں میں جکڑنا اور مارنا بھی شامل ہے۔
سڑکوں پر رہنے والے بچے خطرات سے دوچار ہیں
اس وقت صومالیہ کو چار دہائیوں میں بدترین خشک سالی کا سامنا ہے اور وہ پہلے ہی تین دہائیوں سے جاری مختلف تنازعات میں گھرا ہوا ہے، تو ایسے میں اس ملک کے محدود وسائل نشے سے نمنٹے کے مسئلے کو تو دور، بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
چند چھوٹی تنظیمیں منشیات کے خطرات کے بارے میں آگاہی پھیلا کر اس خلا کو پر کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہیں۔
چنانے والے پتے ’کھت‘ سے نشہ ہوتا ہے لیکن یہ غیر قانونی نہیں ہے
ای گرین کریسنٹ سوسائٹی سکولوں اور یونیورسٹیز کا دورہ کرتی ہے تاکہ طلبہ کو نشے کی مختلف اقسام کے بارے میں متنبہ کرے۔ اس آگاہی مہم میں نشے کا غلط استعمال، جوا، گیمنگ اور سوشل میڈیا کا استعمال بھی شامل ہے۔
سراد محمد نور ’ماما یوگاسو فاؤنڈیشن‘ کے منتظم ہیں۔ ان کی تنظیم لڑکیوں سمیت نوجوانوں میں منشیات کے استعمال پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق ’ہم آگاہی کے پروگراموں کے انعقاد کے ذریعے نوجوانوں کو منشیات سے چھٹکارا حاصل کرانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ منشیات کے استعمال سے صحت کو درپیش خطرات کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ہم حکومت سے اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے لابی بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اس لعنت کو ہاتھ سے نکلنے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر سٹریٹ چلڈرن کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے۔‘
وزارت برائے خواتین اور انسانی حقوق کی ترقی کے مطابق 40 فیصد سے زیادہ بےگھر بچے منشیات کے عادی ہیں۔
صومالیہ میں سٹریٹ چلڈرن کا پانچواں حصہ لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے دس فیصد چھ سال سے کم عمر کے بچے بچیاں ہیں، کچھ کی عمر تو تین سال سے بھی کم ہے۔
بے گھر بچے نشہ آور پتے، گلو (گوند) اور چبانے والے تمباکو کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ وزارت کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً دس فیصد بچے نشہ آور ادویات اور تقریباً 17 فیصد نیند کی گولیاں استعمال کرتے ہیں۔
محرومیوں کے شکار نوجوانوں میں منشیات کے استعمال میں اضافہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد سمیت جرائم میں اضافے کا باعث بنا ہے۔
تحقیقی ادارے صومالی پبلک ایجنڈا کے مطابق اس نے گلی کوچوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے حالیہ رجحان کو بھی جنم دیا ہے، جنہیں ’سیال ویرو‘ کہا جاتا ہے، جو پورے موغادیشو میں دہشت پھیلا رہے ہیں۔
بعض صورتوں میں منشیات کا استعمال خواتین کے خلاف جرائم کا باعث بنتا ہے جیسے کہ جنوب مغربی شہر بیدوا میں، جہاں مبینہ طور پر ایک خاتون کو نشہ آور دوا دینے کے بعد ریپ کیا گیا۔
اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ نس کے ذریعے منشیات لینے میں اضافہ صومالیہ میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے نسبتاً کم ہونے کیسز میں پھر سے اضافہ کر دے گا۔
صومالی وزارت صحت کی ایچ آئی وی پروگرام مینیجر ڈاکٹر سعدیہ عبد الصمد عبدالہیٰ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کی منشیات، خاص طور پر نشہ آور ادویات کے انجیکشنز میں حالیہ اضافے نے صومالی شہریوں کے ایک نئے گروپ کو وائرس کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
دوائیں فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نشہ آور ادویات کے مسئلے سے نمٹنے کا ایک مؤثر ترین طریقہ ان لوگوں کو نشانہ بنانا ہے جو دوائیں بیچتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر فارماسسٹ یعنی دوائیں بیچنے والے ہیں۔
پولیس نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
ایک فارماسسٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی پولیس کی مداخلت سے بالکل خوش نہیں ہیں۔
ان کے مطابق ’میں کئی برسوں سے موغادیشو میں ایک دواخانہ چلا رہا ہوں۔ لڑکیوں سمیت نوجوانوں کو منشیات فروخت کرنا بہت آسان ہوتا تھا، کسی حد تک اس وجہ سے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ منشیات کا ان پر کیا اثر پڑے گا۔‘
ان کے مطابق ’ہم سب کو یہ فروخت کرتے تھے اور ہم نے اچھا پیسہ کمایا ہے۔‘
ان کے مطابق ’لیکن والدین اب پولیس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جنھوں نے ہماری نگرانی کرنا اور کبھی کبھی گرفتاریاں تک شروع کر دی ہیں۔ اب ہم نوجوانوں کو منشیات فروخت کرنے سے ڈرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں آمدنی سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔‘
خواتین کے منشیات کے استعمال کے بارے میں بات کر کے امینو عابدی جیسی باہمت نوجوان خواتین اور خدیجہ عدن جیسی ماؤں نے اس مسئلے کو منظر عام پر لانے کا پہلا اہم قدم اٹھایا ہے۔
پولیس کی مداخلت اور منشیات سے متعلق آگاہی کے پروگراموں سے بھی مدد ملے گی، لیکن مزید وسائل اور توجہ کے بغیر، اس مسئلے کا جلد ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
فتحی محمد احمد صومالیہ میں خواتین سے متعلق خبروں کی تنظیم ’بِلان میڈیا‘ کی چیف ایڈیٹر ہیں۔
Comments are closed.