جب سموگ نے لاہور اور دلی کی طرح لندن کو تاریکی سے ڈبو دیا

  • مصنف, ریانن ڈیوس
  • عہدہ, بی بی سی

London

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا دلی کیا لاہور۔ دھند، سموگ اور فضائی آلودگی جیسے عوامل نے بڑے شہروں میں انسانوں کا جینا دو بھر رکھا ہے۔

نہ صرف انسان بلکہ اس سے جانور بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب زیادہ دھند چھا جاتی ہے تو پھر سڑکیں اور موٹر وے بند کر دیے جاتے ہیں اور لوگوں کو باہر نکلنے کے لیے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے جیسی تجاویز دی جاتی ہیں۔

آئیے ہم آپ کو ایک ایسے شہر کی سیر کراتے ہیں جہاں جانا آپ کے خوابوں میں سے ایک خواب ہے۔

مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس شہر کی خوبصورتی اور رونقیں بھی تب بحال ہوئیں جب وہاں کے حکمرانوں نے عوامی مطالبات پر ایسے اقدامات اٹھائے جس سے پھر اس سموگ، دھوئیں اور فضائی آلودگی کے زہریلے بادل نہ صرف چھٹ گئے بلکہ دنیا بھر کے انسان اب اس شہر کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں سے تصاویر بنا کر اپنے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تصاویر میں پس منظر میں تمام مقامات اور بلڈنگز واضح نظر آتی ہیں۔ یہ شہر برطانیہ کا دارالحکومت لندن ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ لندن پر 70 برس قبل ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب گھر سے باہر قدم رکھنا محال ہو گیا تھا۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال آ رہا ہو گا کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟

اس کی وجہ صنعتوں اور گھروں سے نکلنے والا دھواں، سموگ اور فضائی آلودگی تھی، جس کی وجہ سے نہ صرف اس شہر کا سکون غارت ہوا بلکہ امن و امان بھی تباہ ہوگیا۔ ہر طرف چور بازاری اور اندھیر نگری مچ گئی تھی۔

نئی تحقیقات کے مطابق زہریلی آب و ہوا میں سانس لینے سے کئی ہزار لوگوں اور جانوروں کی اموات ہوئی تھیں۔

70 سال قبل لندن میں دن کے اوقات میں اندھیرا

5 دسمبر 1952 کو جب تہوار کے موسم کے آغاز کے بعد لندن کے باشندے شہر میں سیر و تفریح کر رہے تھے، تو ایسے میں صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔

جیسے جیسے رات ڈھلتی گئی، دھند گہری ہوتی گئی اور جلد ہی سموگ کی ایک تہہ نے دارالحکومت کو اندھیروں میں ڈبو دیا اور نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا۔

لندن والے سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر انھیں چند گز سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اگلے دن سورج طلوع ہوا تو سموگ پھر بھی برقرار رہی۔ بلکہ سورج کی روشنی میں یہ مزید گہری ہو گئی یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں لوگ ایک قدم باہر نہیں نکال سکتے تھے۔

اگلے چار دنوں تک شہر مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا۔

زہریلی ہوا میں سانس لیتے لندن والے اب ایک نئی مصیبت میں گِھر گئے۔ شہر میں نمونیا اور برونکائٹس (کھانسی، گلا خرابی جیسے امراض) پھیل گئے اور شہر کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے کیونکہ ہزاروں لوگ زہریلی ہوا میں دم توڑ گئے۔

London 70 years ago

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لندن کی دھند میں امراض، افراتفری اور جرائم

دھند لندن کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی حالانکہ اس سے پہلے کبھی اتنی انتہا نہیں دیکھی گئی تھی۔ 13ویں صدی میں پہلے ہی کوئلے کے جلنے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی نے شہر کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ تاہم، صنعتی انقلاب نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

نئی تعمیر شدہ فیکٹریاں ہزاروں ٹن گیسوں اور ذرات کے اخراج کا سبب بنیں، جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا اور سموگ کے امکانات کو بڑھا دیا۔ اس پیلی دھند نے جب شہر کو اپنے گھیرے میں لیں تو یہ تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔

سنہ 1873 میں دسمبر کی دُھند کی وجہ سے شہر کی اموات کی شرح 40 فیصد تک بڑھ گئیں۔

شہر کی ہوا کو صاف کرنے کے لیے کچھ سرتوڑ کوششیں کی گئیں۔ لیکن سنہ 1952 میں لندن میں کوئلے کی آگ اب بھی جل رہی تھی اور چونکہ اس سال کی سردی غیر متوقع تھی، اس سے بھی زیادہ کوئلہ گھروں کی چمنیوں کی نظر کیا گیا۔

اس سب کو ختم کرنے کے لیے پانچ دسمبر کو لندن کے اوپر ایک اینٹی سائیکلون تشکیل دیا گیا، جس نے شہر کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھوئیں کو ایک مقام پر روکا اور اسے فضا میں پھیلنے نہیں دیا۔

یہ پریشر کُکر لندن کی تاریخ میں سب سے زیادہ آلودہ سموگ بنانے کا سبب بن گیا۔

اس سموگ اور دھند نے شہر کو ایسے اپنی لپیٹ میں لیا کہ معمول کی زندگی ٹھپ ہو کر گئی۔ شہر کا نقل و حمل کا نظام درہم برہم ہو گیا۔

ان کے مالکان کی طرف سے چھوڑی گئی کاریں سڑکوں پر پڑی ہوئی تھیں۔ جرائم میں اضافہ ہوا اور مجرموں نے اس افراتفری کا فائدہ اٹھایا۔ اس دوران فضا میں آلودگی پھیلتی رہی۔

’دی گریٹ سموگ اور دی گریٹ فوگ‘ میں 1,000 ٹن دھوئیں کے ذرات، 2,000 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ، 140 ٹن ہائیڈروکلورک ایسڈ، 14 ٹن فلورین مرکبات اور 370 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل تھی۔

Smog in London

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس زہریلی ہوا میں سانس لینا بہت خطرناک تھا، اور کم از کم 4000 لوگوں کے لیے یہ جان لیوا ثابت ہوا۔

سینٹ پینکراس محلے کی ایک 33 برس کی خاتون جو پہلے سینے کے درد میں مبتلا تھی، 9 دسمبر کو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

ان کی ایک رپورٹ میں یہ بھی درج تھا کہ ’دھند نے اس میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ اس دھند کی وجہ سے سینٹ کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی۔

’یہ بظاہر ان کے علاج کرنے والے ڈاکٹر کے لیے یہ غیرمتوقع موت تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

کلین ایئر ایکٹ کی منظوری

اس صورتحال کا جانوروں پر بھی منفی اثر پڑا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سمتھ فیلڈ شو (ایک زرعی میلے) میں 100 سے زیادہ مویشیوں کو وٹنری ڈاکٹروں کے پاس لے جانا پڑا اور پھر 12 جانوروں کو ذبح کر دیا گیا۔

ایل ایف بیکل نامی ایک شخص نے وزارت صحت کو لکھا کہ ’میں سمتھ فیلڈ شو میں ایبرڈین اینگس مویشیوں کی قسمت بتاتا، جن کے ساتھ مجھے بہت لگاؤ اور ہمدردی تھی۔

ان کے مطابق ’چار دن تک میں انتہائی صدمے میں کہیں جا نہیں سکا اور میں ایک رات بہت پریشان ہوا، کیونکہ میری بیوی نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ وہ میرے لیے معذرت خواہ ہیں! یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ بظاہر جلد مرنے والی تھیں۔‘

انھوں نے خط میں لکھا کہ ’ہمارے قابل سائنسدان کیا کر رہے ہیں؟ اس جدید دور میں تمام ایٹمی اور سائنسی معجزات کے ہوتے ہوئے یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم لوگ گندی دھند کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔‘

اس جذبات کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دی اور پھر حکومت کچھ اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوئی۔

جولائی 1956 میں لندن میں گریٹ سموگ کے چار سال سے بھی کم عرصے میں پہلے ’کلین ایئر ایکٹ‘ کو شاہی منظوری مل گئی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ لندن دھوئیں سے پاک ہو گا اور وہ گھر اور فیکٹریوں میں کوئلے کی آگ پر قابو پالیں گے۔

اس ایکٹ کو ماحولیات کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد سے شہر کبھی بھی اتنی خوفناک آلودگی کا شکار نہیں ہوا۔

BBCUrdu.com بشکریہ