قطر میں انڈین بحریہ کے آٹھ سابق افسران کی گرفتاری پر مودی حکومت چُپ کیوں سادھے بیٹھی ہے؟

  • مصنف, وِنیت کھرے
  • عہدہ, نامہ نگار بی بی سی

انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

100 سے زیادہ دن گزر چکے ہیں لیکن قطر میں کام کرنے والے انڈین بحریہ کے آٹھ ریٹائرڈ افسران کے اہلخانہ اب بھی اُن کی وطن واپسی کے منتظر ہیں۔

کمانڈر (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری، کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل، کمانڈر (ریٹائرڈ) بیرندر کمار ورما، کیپٹن (ریٹائرڈ) سوربھ وششت، کمانڈر (ریٹائرڈ) سوگناکر پکالا، کمانڈر  (ریٹائرڈ) امیت ناگپال، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال اور سیلر راگیش قطر میں داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی نام کی ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھے۔

ان افسران میں سے دو افسران کے اہلخانہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں مطلع کیا گیا ہے کہ 30 اگست کو قطری حکام نے ان آٹھ انڈین شہریوں کو حراست میں لیا اور اس وقت سے وہ قید تنہائی میں ہیں۔

گرفتاری کی وجہ کیا تھی یہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

دوحہ میں ایک میڈیا انسٹیٹیوٹ کے سینیئر ایڈیٹر نے بتایا کہ اس معاملے پر نہ تو قطر کی حکومت کی طرف سے کوئی بیان آیا ہے اور نہ ہی انھوں نے قطری میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خبر دیکھی۔

بی بی سی کی جانب سے قطر کی وزارت اطلاعات، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو بھیجی گئی ای میلز کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

قطر مشرق وسطیٰ کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ حال ہی میں وہاں فٹبال ورلڈ کپ کا انعقاد کیا گیا لیکن وہاں انسانی حقوق کی حالت پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں جبکہ وہاں کا میڈیا حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق امیرِ قطر پر تنقید کرنا، قطری پرچم کی توہین اور مذہب اسلام پر تنقید قطر میں چند بڑے جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔

قطر میں 70,000 سے زیادہ انڈین کام کرتے ہیں۔ انڈین وزارت خارجہ کے مطابق انڈیا میں مائع قدرتی گیس کی کل سپلائی کا نصف سے زیادہ حصہ قطر سے آتا ہے۔

سال 2020-21 میں قطر کے ساتھ انڈیا کی باہمی تجارت 9.21 ارب ڈالر تھی۔ قطر میں 6000 سے زیادہ بڑی اور چھوٹی انڈین کمپنیاں کام کرتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں آٹھ انڈین شہریوں، جو کہ نیوی کے سابق افسران بھی ہیں، کی پراسرار گرفتاری نے اُن کے اہلخانہ کو حیران کر رکھا ہے۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہMeetu Bhargava

،تصویر کا کیپشن

کمانڈر (ر) پرنیندو تیواری

کیپٹن (ر) نوتیج سنگھ گل کے بھائی نودیپ گل نے کہا ’ہم ہاتھ جوڑ کر قطر کی حکومت اور اپنے ملک کی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کو جلد از جلد ملک واپس لانے کی اجازت دی جائے۔‘

64  سالہ کمانڈر (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری کی بہن میتو بھارگوا نے کہا کہ ان کی 84 سالہ والدہ اس صورتحال پر بہت پریشان ہیں۔

اس سے قبل ایک ٹویٹ میں انڈین بحریہ کے سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل (ر) ارون پرکاش نے انڈیا کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے کے پیش نظر قطر کی حکومت سے تعلقات پر نظر ثانی کرے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حیران کن اور تشویشناک بات ہے کہ انھیں قید کر لیا گیا ہے، اس پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا، اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ انھیں کیوں حراست میں رکھا گیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر (وہ) قصوروار ہیں تو انھیں سزا دی جائے، اگر وہ مجرم نہیں ہیں تو (انھیں) چھوڑ دیا جائے، لیکن (انھیں) اس طرح حراست میں رکھنا درست نہیں۔‘

مگر یہ آٹھ انڈین شہری اپنے وطن واپس کیوں نہیں جا پا رہے، انڈین وزارت خارجہ کی طرف سے اس حوالے سے زیادہ معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔

قطر میں انڈین سفارت خانے کو بھیجے گئے ای میل کا کوئی جواب نہیں آیا۔

تاہم انڈیا کے وزیر خارجہ یہ کہہ چکے ہیں کہ گرفتار ہونے والے آٹھ انڈین شہریوں کا معاملہ ان کی ترجیح ہے، اور انڈین سفیر اور سینیئر حکام قطری حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہHindustan Times

قطر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے نان ریذیڈنٹ سینیئر فیلو ڈاکٹر علی باقر کہتے ہیں ’قطر اور انڈیا کے درمیان اچھے تعلقات ہیں جس کا اس معاملے میں فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ قطر اور انڈیا کے درمیان قانونی اور سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے حل کیا جائے گا۔ دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے کہ قطر میں سزا پانے والے انڈین شہریوں کی سزا کا بقیہ وقت انڈیا میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔‘

مگر دوسری جانب ٹھوس معلومات کی عدم موجودگی میں، بہت سی قیاس آرائیاں اور افواہیں جنم لے رہی ہیں۔

میتو بھارگاوا کے مطابق ’ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ کمپنیوں کی آپسی کارپوریٹ دشمنی کا معاملہ ہے۔‘

یاد رہے کہ بین الاقوامی میڈیا کے ایک حصے میں اسے مبینہ جاسوسی سے جوڑا گیا ہے تاہم اس ضمن میں کوئی ثبوت اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔

گرفتار افراد دہرا گلوبل نامی کمپنی کے لیے کام کرتے تھے مگر اب اس کمپنی کی ویب سائٹ پر اب کوئی مواد دستیاب نہیں ہے۔

جب ہم نے دوحہ میں کمپنی کے استقبالیہ پر کال کی اور حکام سے بات کرنے کی درخواست کی تو فون اٹھانے والے شخص نے کہا کہ وہ کال کو آگے ٹرانسفر نہیں کر سکتے۔

قطر میں قید سابق بحریہ کے افسروں کے رشتہ دار مودی حکومت سے التجا کر رہے ہیں کہ ان کے پیاروں کی رہائی کا بندوبست کیا جائے۔

میتو

،تصویر کا ذریعہMeetu Bhargava

،تصویر کا کیپشن

پرنیندو تیواری کی ہمشیرہ میتو بھارگوا

’حکومت  کچھ کرے‘

میتو بھارگوا کے مطابق، کمانڈر (ر) پورنیندو تیواری سنہ 2013 میں قطر گئے تھے، جہاں 2013 سے 2015 کے درمیان انھوں نے چار لوگوں کے ساتھ مل کر دہرہ کمپنی شروع کی۔ ان کا بھائی کمپنی میں ایم ڈی تھا اور اس کے علاوہ سات ڈائریکٹر تھے۔

میتو بھارگوا بتاتی ہیں کہ دہرہ کمپنی قطر کی بحریہ کو تربیت دے رہی تھی۔

دوسرے ممالک میں ٹریننگ کے لیے جانے والے ریٹائرڈ انڈین افسران کے بارے میں ایڈمرل (ر) ارون پرکاش کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک سے لوگ ٹریننگ کے لیے انڈیا آتے ہیں مگر انڈین ٹرینرز بھی بیرون ممالک جاتے ہیں۔

 

وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت کو پوری طرح معلوم ہے کہ اس طرح کی کارروائی کی جا رہی ہے، اس لیے چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ہچکچانے کے لیے۔‘

میتو بھارگوا کے مطابق سال 2019 میں کمانڈر (ر) پورنیندو تیواری کو فوجی اعزاز سے نوازا گیا تھا اور وہ ہر اتوار کو اپنی ماں سے بات کرتے تھے۔

ستمبر کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جب کافی دیر تک ان کے بھائی کا فون نہیں آیا تو گھر والے پریشان ہو گئے۔ ان کے مطابق جب انھوں نے قطر میں دفتر پر فون کیا تو انھیں سب سے پہلے بتایا گیا کہ کمانڈر (ر) تیواری جہاز رانی کے لیے گئے ہیں۔

میتو بھارگوا کے مطابق جب اہل خانہ کو دوبارہ کال نہیں آئی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے بھائی کو قطری حکام نے 30 اگست کو حراست میں لے لیا تھا۔

وہ کہتی ہیں ’ہم نے قطر میں (انڈین) سفارت خانے سے رابطہ کیا، تب معلوم ہوا کہ آٹھ افسران کو قید تنہائی میں لے جایا گیا ہے۔‘

’ان کی کمپنی قطر کی بحریہ کو تربیت دے رہی تھی۔ یہ بہت اچھا کام کر رہی تھی، اسی لیے میرے بھائی کو 2019 میں اعزاز دیا گیا تھا۔‘

میتو بھارگوا کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد کمانڈر (ر) تیواری کو جیل سے فون کی اجازت تھی مگر گھر والوں کے ساتھ بات چیت انگریزی میں ہوتی تھی کیونکہ انھیں فون پر ہندی بولنے کی اجازت نہیں تھی

وہ کہتی ہیں ’وہ سب کچھ بتاتے ہیں۔ ہم بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہم انھیں بتاتے ہیں کہ وہ حوصلہ رکھیں کیونکہ حکومت ہند ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور چند دنوں میں ان کی واپسی ممکن ہو جائے گی۔ لیکن اب آہستہ آہستہ وہ بھی ہمت ہار رہے ہیں۔‘

’وہ کہتے ہیں کہ کیا میں یہیں رہوں گا؟ کیا میں کبھی باہر نہیں آؤں گا؟ اس پر ان کے بھائی بتاتے ہیں کہ حکومت پوری کوشش کر رہی ہے، تم کچھ دنوں میں باہر آجاؤ گے کیونکہ تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔‘

جے شنکر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انڈین وزیر خارجہ جے شنکر

میتو بھارگوا کا کہنا ہے کہ ’ان کی صحت کافی خراب ہو گئی ہے، انہیں دل کا مسئلہ تھا اور حراست میں ان کا وزن کم ہو رہا ہے، اس لیے ہم بہت پریشان ہیں۔‘

ہم پوچھتے ہیں کہ حکومت ہند یہ اب نہیں کرے گی تو پھر کب کرے گی۔ ’میرے بھائی جب بھی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔‘

اس سے قبل 25 اکتوبر کو متو بھارگوا نے ایک ٹویٹر پیغام میں حکومت ہند سے فوری کارروائی کرنے کو کہا تھا اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی اس ٹویٹ میں ٹیگ کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ٹویٹ کے بعد انھیں پیغامات موصول ہوئے کہ وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیں، ورنہ زیر حراست افسران کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

’ہاتھ جوڑ کر التجا‘

بھائی

،تصویر کا ذریعہNavdeep Gill

،تصویر کا کیپشن

نوتیج سنگھ گل کے بھائی نودیپ گل

نودیپ گل کے مطابق ان کے 57 سالہ بھائی کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل نے 30 سال تک بھارتی بحریہ میں خدمات انجام دیں اور انھیں کئی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

انھوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 30 اگست سے وہ دوحہ میں اپنے بھائی سے رابطہ نہیں کر سکے ہیں۔

6  ستمبر کو اپنی سالگرہ کے موقع پر رابطہ کرنے پر بھی ان کے پیغامات کا کوئی جواب نہیں ملا۔

جب نودیپ گل نے کمپنی کے دفتر میں فون کیا تو معلوم ہوا کہ کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل کو بھی قطری حکام ساتھ لے گئے ہیں۔ زیر حراست افراد کو قونصلر رسائی دینے کے بعد معلوم ہوا کہ تمام افراد کو علیحدہ علیحدہ رکھا گیا ہے۔

کیپٹن (ر) نوتیج سنگھ گل کی صحت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’انہیں پہلے ہی ذیابیطس، بلڈ پریشر جیسی بیماریاں ہیں، اس لیے ہم بہت پریشان ہیں۔‘

کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل کی اپنے اہلخانہ سے فون پر ہونے والی گفتگو کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات چیت تین، چار منٹ تک جاری رہی۔ ان کی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ بات بھی نہیں کر پا رہے۔

نودیپ گل کے مطابق اُن کے بھائی نے انھیں بتایا کہ ان لوگوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جس طرح سے فون پر وہ بات کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ صورتحال نے ان کی ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔‘

انڈیا، قطر تعلقات

ایڈمرل (ر) ارون پرکاش اور زیر حراست افراد کے اہلخانہ نے انڈیا اور قطر کے اچھے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان[یں اچھے نتائج کی امید ہے۔

نومبر 2019 میں انڈین حکومت  کی جانب سے جاری کردہ  پریس ریلیز میں انڈیا اور قطر کی بحریہ کے درمیان مشترکہ مشقوں اور بہتر تعلقات کا ذکر کیا گیا ہے۔

دونوں ممالک کے سرکردہ رہنما اور حکام ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ انڈیا اور قطر تعلقات کا احاطہ کرنے والا آٹھ صفحات کا مضمون انڈین وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے ۔

مارچ 2015 میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے انڈیا کا دورہ کیا تھا جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2016 میں دوحہ کا دورہ کیا تھا۔

ایڈمرل (ر) پرکاش کا کہنا ہے کہ ’یہ سننے میں آ رہا ہے کہ یہ بہت نازک معاملہ ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے سفارت کار اپنی پوری کوشش کریں گے، مگر اگر تین ماہ بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو پا رہی تو تعلقات پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ