چار خواتین اور وہ سنسان جزیرہ جہاں نلکے میں پانی ہے نہ دنیا سے رابطے کے لیے انٹرنیٹ

  • مصنف, سارا منوٹا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اینٹارکٹکا

،تصویر کا ذریعہLUCY BRUZZONE/UKAHT

،تصویر کا کیپشن

بائیں سے دائیں لوسی برزون، مائری ہلٹن، کلیئر بیلنٹائن اور نیٹلی کوربٹ کا انتخاب چار ہزار امیدواروں میں سے کیا گیا ہے

حال ہی میں چار برطانوی خواتین اینٹارکٹکا کے ایک دور دراز مقام پر پہنچی ہیں جہاں ان کا کام یہاں آنے والے سیاحوں کی میزبانی کرنا اور پینگوئنز کی کم ہوتی ہوئی آبادی کی دیکھ بھال کرنا ہے۔

یہاں آج کل یہ چاروں خواتین باقی دنیا سے دور کرسمس منانے کی تیاریاں بھی کر رہی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس مقام پر قیام کے لیے انھوں نے کیا بندوبست کیا ہے۔

جب کلیئر اس جگہ پہنچیں جو اگلے پانچ ماہ تک ان کا مسکن ہوگی، تو انھیں یہ جگہ کئی میٹر بلند برف میں ڈھکی ہوئی ملی۔

’ہم نے بیلچے پکڑ کر دھڑا دھڑ برف ہٹانی شروع کر دی اور یوں سردی کا احساس قدرے کم ہوگیا۔‘

جزائر فاکلینڈ سے تقریباً 911 میل جنوب میں واقع ’پورٹ لوکروئے‘ نامی بندرگاہ کا نظام سنبھالنے کی غرض سے ٹیم منتخب کرنے کے لیے ایک مقابلہ ہوا تھا جس میں کلیئر بیلنٹائن اور ان کی تین ساتھی خواتین، مائری ہلٹن، لوسی برزون اور نیٹلی کوربٹ پر مشتمل چار رکنی ٹیم کو منتخب کیا گیا۔

اینٹارکٹکا میں واقع اس بیس کیمپ کی دیکھ بھال کے لیے یہ مقابلہ برطانیہ کے ’یو کے اینٹارکٹِک ہیریٹیج ٹرسٹ‘  کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا جس میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا تھا۔

یہ چھوٹی سی عمارت کبھی برطانوی فوجیوں کی چوکی اور ایک تحقیقی مرکز ہوا کرتی تھی، تاہم اب یہ عمارت ایک ڈاکخانے، عجائب گھر اور تحائف کی ایک دکان پر مشتمل ہے۔

اینٹارکٹکا

،تصویر کا ذریعہMAIRI HILTON/UKAHT

،تصویر کا کیپشن

پورٹ لوکروئے پر جِنٹو نسل کے پینگوئنز کے تقریباً 500 جوڑے رہتے ہیں جو یہاں انڈے دے رہے ہیں

جب بحر منجمد جنوبی یا سدرن اوشن میں موسم گرما ہوتا ہے تو یہاں سے چھوٹے بحری جہاز گزرتے ہیں اور ان دنوں میں یہاں پر مقیم برطانوی ٹیم ان جہازوں پر آنے والے سیاحوں کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ اس جزیرے پر بسنے والے تقریباً ایک ہزار جِنٹو نسل کے پینگوئنز کا خیال بھی رکھتی ہے۔

جب میں برطانیہ سے سیٹلائیٹ فون کے ذریعے اس قدر مشکل حالات میں کام کرنے والی ان خواتین سے بات کر رہی تھی تو صاف سنائی نہیں دے رہا تھا، تاہم جنگلی حیات کی ماہر خواتین، کلیئر اور مائری نے مجھے اس جزیرے پر اپنے تجربات کے بارے میں بتایا۔

کلیئر کا کہنا تھا کہ ’ہم پہلے تو اس عمارت کے راستے میں پڑی ہوئی بے شمار برف کو کھود کھود کے راستے صاف کرتے رہے، شمسی توانائی کے پینلز پر پڑی ہوئی برف ہٹاتے رہے تاکہ توانائی بحال ہو، پھر ہم یہ یقنی بنانے کی کوشش کرتے رہے کہ آنے والے ہفتوں میں ہمیں کافی مقدار میں پانی اور گیس ملتی رہی اور ہم اس جزیرے پر محفوظ زندگی گزار سکیں۔‘

برف کے وزن سے عجائب گھر کی چھت کو نقصان پہنچ چکا تھا، جس کی مرمت کے لیے مہم کے آغاز میں ہی خواتین نے برطانیہ کی رائل نیوی کی ٹیم کو بلا لیا تھا۔ کلیئر بتاتی ہیں کہ انھیں وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے جب نیوی کی ٹیم مرمت کا کام کر کے روانہ ہوئی تو جزیرے پر ان چار خواتین کے علاوہ کوئی انسان نہیں بچا۔ ان کے گرد و نواح میں صرف پینگوئن تھے اور برف کے بڑے بڑے تودے جو سمندر میں خاموشی سے تیرتے ہوئے آگے جا رہے تھے۔

’وہ واقعی ایک زبردست لمحہ تھا۔‘

اینٹارکٹکا

،تصویر کا ذریعہLUCY BRUZZONE/UKAHT

،تصویر کا کیپشن

دنیا کے انتہائی جنوب میں واقع اس ڈاکخانے سے ڈاک بھیجنے کی ذمہ داری کلیئر نے سنبھالی ہے

بطورِ پوسٹ ماسٹر کلیئر کا کام یہ ہے کہ یہاں آنے والے سیاحوں کے خطوط اور پوسٹ کارڈ دنیا بھر میں ان کے دوستوں عزیزوں کو پہنچائیں۔

’میں یہاں سے جو ڈاک بھیجتی ہوں اسے برطانیہ پہنچنے میں تقریباً چار ہفتے لگتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں ایک ایسے دور دراز مقام پر ہوں جہاں سے اس ڈاک کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔‘

جب کلیئر اور مائری سے میری بات ہوئی تو اس وقت تک یہ خواتین پورٹ لوکروئے پر کئی ہفتے گزار چکی تھیں اور ایک باقاعدہ شیڈول کی عادی بھی ہو چکی تھی۔ مائری نے مجھے بتایا کہ ’ہم صبح سات بجے جاگ جاتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں اور اس کے بعد بندرگاہ کی اس جگہ برف ہٹانے پہنچ جاتے ہیں جہاں بحری جہازوں سے مہمان اترتے ہیں۔

’ایک چھوٹا بحری جہاز صبح کے وقت آتا ہے۔ اس پر آنے والے مہمان یہاں میوزیم دیکھتے ہیں، تحائف وغیرہ خریدتے ہیں اور پینگوئنز کو دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم لوگ دن کا کھانا کھاتے ہیں تو سہہ پہر میں سیاحوں کا دوسرا گروپ آ جاتا ہے، جو شام تقریباً چھ بجے تک یہاں رکتا ہے۔ اس کے بعد ہم شام کا کھانا کھاتے ہیں، پینگوئنز پر نظر رکھتے ہیں اور اگر کوئی کام رہ گیا ہو تو اسے ختم کرتے ہیں۔‘

اینٹارکٹکا کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں میں یہاں سب سے زیادہ مقبول مقام پورٹ لوکروئے ہی ہے جہاں سالانہ 18 ہزار کے لگھ بھگ لوگ آتے ہیں۔ یہاں آنے والے لوگوں کے ساتھ اس ٹیم کا رشتہ دو طرفہ ہے کیونکہ یہ ٹیم یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں پر بہت انحصار کرتی ہے۔

اینٹارکٹکا

،تصویر کا ذریعہLUZY BRUZZONE/UKAHT

،تصویر کا کیپشن

فرصت میں کلیئر اور مائری کیمرے پکڑ کے پورٹ لوکروئے کی بندرگاہ کے ارد گرد  سیر پر نکل جاتی ہیں

مائری کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس نلکے کے پانی کی سہولت موجود نہیں ہے، ہم اپنے لیے پینے کا پانی ان بحری جہازوں سے ہی لیتے ہیں اور نہانے کے لیے بھی جہاز کے غسل خانے استعمال کرتے ہیں۔‘

کلیئر نے مائری کی بات آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ’ہم لوگ تازہ پھل فروٹ، سبزیاں اور ڈبل روٹی بھی جہاز والوں سے لیتے ہیں۔ جہاز کے عملے کے لوگ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔‘

چونکہ اس بندرگاہ پر انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے اس لیے ٹیم کے لیے اپنے خاندان والوں سے رابطے اور باہر کی دنیا سے باخبر رہنے کا بڑا ذریعہ بحری جہازوں پر نصب وائی فائی کی سہولت ہے۔ اس کے علاوہ اگرچہ ٹیم نے ابتدائی طبی امداد کی بہت اچھی تربیت لے رکھی ہے تاہم اگر انھیں ڈاکٹر کو دکھانا پڑ جائے تو جہاز کے عملے یا سیاحوں میں انھیں کوئی ڈاکٹر بھی مل جاتا ہے۔

لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا سنائی دیتا ہے۔ ٹیم نے مجھے بتایا کہ اینٹارکٹکا کا موسم اتنا غیر یقینی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اچانک یہ لوگ کئی دنوں کے لیے باقی دنیا سے کٹ جائیں اور کوئی بھی بحری جہاز ان تک نہ پہنچ سکے۔

کلیئر کے بقول ’آپ کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ آنے والا دن کیسا ہو گا۔ آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اگر طوفان آ گیا تو صبح بحری جہاز آئے گا بھی یا نہیں۔ اسی لیے آپ کو کسی بھی صورتِ حال کے لیے تیار ہونا چاہیے۔‘

ان تمام مسائل اور غیر یقینی حالات کے باوجود یہ چاروں خواتین کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی اپنے اردگرد کے ماحول کے سحر میں مبتلا ہیں۔

کلیئر کہتی ہیں کہ ’ہر صبح جب اس عمارت کے کچھ حصوں پر پڑی برف پر چلتے ہیں، اپنے ارد گرد کے پہاڑوں اور بڑے بڑے برفانی تودوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ سب کچھ اس قدر خوبصورت دکھائی دیتا ہے کہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔‘

اینٹارکٹکا

،تصویر کا ذریعہLUCY BRUZZONE/UKAHT

،تصویر کا کیپشن

شاہی پینگوئن اور کِنگ پینگوئن کے بعد پینگوئن کی تیسری بڑی نسل جنٹو ہے

میں نے خواتین سے پوچھا کہ انھیں کیسا محسوس ہوتا کہ اس جزیرے پر سینکڑوں پینگئونز کے درمیان وہ صرف چار انسان ہیں؟

مائری کا جواب تھا کہ پینگوئنز ’اتنا شور نہیں مچاتیں جتنا ہم سجھ رہے تھے۔ یہ پینگوئنز بڑے اچھے ہمسائے ہیں اور انھیں دیکھ کر بڑا مزا آتا ہے۔‘

جہاں تک ان پینگوئنز پر نظر رکھنے کا تعلق ہے تو ٹیم کا بڑا کام ان کے انڈوں کا حساب کتاب رکھنا ہے۔ قطب جنوبی کی یہ پینگوئنز عموماً سال کے انہی مہینوں میں انڈے دیتی ہیں۔ لیکن مائری کے مطابق ٹیم کو لگتا ہے کہ یہاں کے بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے پینگوئنز کی افزاش نسل کا موسم اب تاخیر سے آتا ہے۔

’آج کل بھی یہاں پر بہت زیادہ برف ہے اور یہاں خلیج میں بھی سمندری برف میں تیزی نہیں دکھائی دے رہی جو کہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اگر پینگوئنز کے انڈوں پر برف پڑ جاتی ہے تو انڈے زندہ نہیں رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں موسم معمول سے زیادہ گرم رہتا ہے اور سردی بھی کم پڑتی ہے، تو یہ چیز ہمارے پینگوئنز کے لیے اچھی نہیں ثابت ہو گی۔‘

کلیئر اور مائری کا کہنا تھا کہ وہ جب سے یہاں آئی ہیں، اُنھیں زیادہ فرصت نہیں ملی ہے، لیکن وہ جزیرے پر گزرنے والے ہر لمحے کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسی لیے میں نے ان سے پوچھا کہ اس سال وہ اپنی انتہائی غیرمعمولی کرسمس کے لیے خاص طور پر کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

مائری کا جواب تھا کہ ’ہم کرسمس والے دن چھٹی کریں گے۔ ہم میں سے کچھ خواتین پُڈِنگ بنائیں گی، قیمے کی ڈِش ( مِنس پائی) بنائیں گی اور اس کے ساتھ ادرک والے بسکٹ بھی۔ اس دن ہم بس آرام کریں گے، کرسمس ڈِنر کریں گے اور بہت سے ایسی چیزیں کریں گے جو ہم عموماً اپنےگھر پر کرتے ہیں، لیکن ہم یہ سب اس مرتبہ اپنے گھر پہ نہیں بلکہ یہاں اینٹارکٹیکا میں کریں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ